تحریر : ملک محمد علی خاں سیاستدانوں کی زندگی بھی عجیب کشمکش اور نشیب و فراز پر مشتمل ہوتی ہے ،ہزاروں رفقاء اور جانثار ہوتے ہیں اور بدترین مخالفین کی بھی کمی نہیں ہوتی۔اقتدار میں کسی بھی سیاسی شخصیت کا غیر متنازعہ رہنابہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔تاریخ اس با ت کی شاہد ہے جتنے بھی سیاسی جماعتوں کے راہنما ء ہیں سب کو تنقید اور شدید سیاسی مخالفت کا سامنا ہے،یہی ماجرہ نچلی سطح پر ہے کہ ایم این اے اور ایم پی تودور کی بات یہاں پر کونسلر تک الزامات کے زد میں ہوتے ہیں۔ایسے میں ملک محمدعلی خاں کی ذات ان چند سیاستدانوں میں سے ایک ہے جنھوں نے اپنی ساری زندگی سیاست میں گزار دی مگر کوئی ان پرکرپشن یا اخلاقی الزام نہ لگا سکا۔سیاسی رقابت کو ذاتی دشمنی نہ بنایا اس لیے ان کے سیاسی مخالفین بھی ان کو ہمیشہ عزت و احترام سے نوازتے رہے۔
معروف سیاسی رہنما سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ ملک محمد علی خاں آف کھائی ہتھاڑ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے، ان کی وفات پر ہر آنکھ اشکبار اور دل افسردہ ہے۔مرحوم مہمان نوازی میں قابل دید تھے،غریبوں یتیموں بیوائوںاور حق داروں کی در پردہ امداد اور کفالت کو اپنا لازمی فرض اور شعار بنا رکھا تھا،غریب اورنادارافراد کی شادیوں میں انتہائی مصروفیت کے باوجود بھی نہ صرف شامل ہوتے بلکہ حتی الامکان ان کی مالی مدد اس انداز سے کرتے کہ کسی کو کمتری کا احساس نہ ہو۔لوگوں کے دکھ درد کے ساتھی تھے،کہیں بھی کسی فوتگی کی اطلاع ملتی تو فوراً غم کی اس گھڑی میں وارثان سے تعزیت کیلئے پہنچ جاتے اور اس طرح غمگین ہوجاتے کہ گویا کوئی بہت قریبی عزیز رخصت ہو گیا ہو۔
انتہائی ملنسار انسان تھے ہر خاص و عام کیلئے ان کے دروازے کھلے ہوتے تھے، انتہائی شفیق اور سحر انگیز شخصیت کے حامل تھے ان سے ایک بار ملاقات کرنے والا آدمی اپنے ساتھ یہ احساس لیکر جاتا تھا کہ گویا اس کا تعلق سب سے زیادی اُسی کے ساتھ ہے،تعلیم سے محبت کرنے والے انسان تھے ،اپنی ذاتی زمین عطیہ کر کے سکول قائم کروائے،علم دوستی کا یہ عالم تھا کہ جیسے ہی مارکیٹ میں کوئی نئی تاریخی یا ادبی کتاب آتی تو فوراً خرید لاتے اور مکمل کیے بنا نہیں سوتے،ان کی لائبریری نایاب کتابوں سے بھری پڑی ہے،انہوں نے پنچائتی نظام میں میرٹ اور انصاف کی مثال قائم کی اور پچیدہ سے پچیدہ معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھایا اور انصاف کا بولا بالا کیا۔
Prime Minister
ملک محمد علی خاں کے سیاسی قد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے جنازہ میں سیاسی قیادت کی اکثریت سمیت ہزاروں افراد شریک تھے، وزیر اعظم اور تمام سیاسی و سماجی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے تعزیاتی پیغام میں انتہائی دکھ کا اظہار کیا گیا اور وفات کے اگلے ہی روز وز یراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ان کے ابائی گائوں کھائی ہتھاڑ آئے اور مرحوم کے لیے فاتحہ خوانی کی اور ان کی سیاسی و سماجی خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ ہمارے ہاں عوام ہمیشہ اس روایت کے خلاف شکوہ کرتے نہیں تھکتی کہ انکے منتخب کردہ سیاسی نمائندے ایم پی اے اور ایم این اے اسلام آباد کو اپنے مسکن بنالیتے ہیں اور ایک دفعہ کا اقتدار ہی ان کو گائوں سے شہر میں سکونت اختیار کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے ،
اس کے برعکس مرحوم ملک محمد علی خاں نے اول روز سے تامرگ اپنا اپنے علاقے سے اپنا رشتہ قائم و دائم رکھا،انہوں ساٹھ کی دہائی میں اپنی سیاست کا آغاز بلدیاتی نظام سے کیا اور اس بنیادی سیاسی ڈھانچے میں ممبر ضلعی کونسل تک جا پہنچے، 1970 میں پہلی دفعہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا اور پنجاب میںسب سے زیادہ ووٹوں کی برتری کے ساتھ ایم پی اے منتخب ہوئے اور ترقیاتی کاموں اور سماجی خدمات کی وجہ سے ہر دل عزیز شخصیت بن کے اُبھرے۔عوامی خدمات کے جذبے سے سرشارملک محمد علی خاں نے نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل حل کی کرنے کی غرض سے دوبارہ بلدیاتی نظام کے زریعے منتخب ہوکرعوامی فلاح کے کاموں میں دن رات ایک کردیا۔وہ جمہوریت پسند اوراصول پرست انسان تھے ،مسلم لیگ میں اختلافات پیدا ہونے شروع ہوئے تو سخت رنجیدہ ہوئے اور ہر ممکن کوشش کی کہ مسلم لیگ کو اختلافات اور دھڑے بندی سے محفوظ رکھا جائے۔
Ziaul Haq
ان کی اعلیٰ ظرفی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں اپنے بہنوئی صوفی سردار خاں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے نہ صرف اپنے ابائی حلقہ انتخاب سے دستبردار ہوئے بلکہ صوفی محمد کو اپنے حلقے سے مسلسل تین دفعہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب کروانے میں قلیدی کردار بھی ادا کیا۔ان کی یہ قربانی رایئگاں نہ گئی اور1985 میں جونیجو حکومت میں بطور سینٹر منتخب ہوئے اور ڈپٹی سپیکر سینٹ کے منصب پرفائز ہوکرانتہائی احسن انداز میں ایوان بالا کے امور کو چلایا۔وزیر اعظم محمد خاں جونیجوسے ان کا قریبی اور خصوصی تعلق رہا وہ اکثر ملک محمد علی خاں کو کابینہ میٹنگ میں لے جاتے ،اس وقت کے چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان اور صدر مملکت پاکستان ضیاء الحق کی بیرون ملک دورے کے وجہ سے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی صدارت (نگران) کی ذمہ داری کا اعزاز بھی حاصل کیا،نو سال تک ایوان بالا میں سنیٹر کی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کیا اور 1996 میں دوبارہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کھائی ہتھاڑ سے سیاسی میدان میں اترے اورہمیشہ کی طرح کامیابی ان کا مقدر ٹھہری اور ساتھ اپنے قریبی عزیزاور برادر نسبتی ملک رشید احمد کو سیاسی میدان میں آگے آنے کا موقع دیا اوفتح پور حلقہ سے ریکارڈ ووٹوں کی برتری سے کامیاب کروایا۔
انہوں نے نہ تو کرپشن کی اور نہ ہی کوئی ناجائز کام کیے،کیا تو بس یہی کام کہ صرف اور صرف عوام سے محبتوں کا رشتہ قائم رکھا،ان کی محنت کا ثمر ہے کہ آج ان کا بیٹا ملک احمد خاںاور بھتیجا احمد سعیدایم پی اے اوربرادر نسبتی ملک رشید احمد خاں ایم این اے ہیں۔ان کی اصولی سیاست اور تعلیم و تربیت کا ہی اثر ہے کہ صوبائی اسمبلی کے گذشتہ اجلاس میں ان کے صاحبزادے ملک احمد علی خاں نے کسانوں کے استحصال پراپنی حکومت کے خلاف ہی 35منٹ کی طویل بحث کرتے ہوئے آلو اور چاول کے کاشتکاروں کے مسائل سے آگاہ کیا اورکسانوں کے حقوق کی فوری فراہمی کا مطالبہ کیا۔
ملک محمد علی خاں مرحوم نے سیاست میں ایسے سنگ میل نصب کیے جو سیاستدانوں اور عوام کیلئے مشعل راہ ہیں، چالیس سال اقتدار میں گزارنے کے باوجود غرور اور تکبر کی بجائے عاجزی اور انکساری کو اپنی شخصیت کی پہچان بنائے رکھا اور طویل سیاسی سفر میںکرپشن کا ایک زرا سا داغ بھی دامن پر نہ لگنے دیا،ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین