سیاست یا کاروبار

Politics

Politics

تحریر : منظور احمد فریدی
اللہ کریم وحدہ لاشریک کی بے پناہ حمد وثناء فخر آدم و اولاد آدم جناب محمد مصطفی کریم آقا ۖ کی ذات پر درودوسلام پیش کرنے کے بعد راقم نے چند سطور وطن عزیز کی سیاست پر ترتیب دی ہیں قارئین کرام کی آراء کا انتظار رہیگا اللہ جل شانہ نے جب انسان کی تخلیق کا ارادہ ظاہر فرمایا تو اسکی نورانی مخلوق فرشتوں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ مالک آدم تو زمین پر فساد کرے گا خون بہائے گا اور تیری حمد و ثناء کے لیے ہم کیا کم ہیں اللہ نے اپنی قدرت کمال سے جناب آدم کی تخلیق فرما کر اسے فرشتوں کا مسجود بنا دیا اور ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے انسان کو اپنے نائب کا تاج پہنا کر دنیا کی پوری مخلوق کو اس کا تابع کر دیا۔

گویا انسان آیا ہی حکومت کے لیے ہے مگر اپنے مالک کا محکوم رہ کر پھر اسی انسان نے حکومت کے نشہ سے چور ہو کر اپنے خدا ہونے کا دعویٰ بھی کیا اپنی جنت دوزخ بھی بنا لیا مگر اس خالق نے ہر جگہ اپنے مالک ہونے کا واضح ثبوت دے کر آنے والی نسلوں کو تنبیہ فرما دی کہ اصل حکومت میری ہے جب کوئی نمرود بندے سے خدا بنے تو ابراہیم پیدا کر کے ببانگ دہل اسے جھوٹا کرنا میرے لیے کچھ مشکل نہیں اور جب کوئی فرعون گورکن سے خدا بن بیٹھے تو اسی کی گود میں پلنے والے موسیٰ کو اپنی واحدانیت و حقانیت کے منتخب کرلیتا ہوں اصل مالک میں خود ہوں امر وہی چلے گا جو میرا ہوگا اور میرے امر کو مان کر تسلیم و رضا کا پیکر بن جانے والا بادشاہ قیامت تک امر ہوجاتا ہے جیسے میں نے سلیمان و ذوالقرنین کو بادشاہی دی اور وہ میرے مملوک ہی رہے تو میں نے قیامت تک انکے ذکر کو قائم رکھا۔

وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان جسکی بنیاد ہی کلمہ طیب پر رکھی گئی آج جن حالات سے دوچار ہے اسکی سب سے بڑی وجہ حاکم و رعایا کا اللہ کی بادشاہی سے انکاری یا لا علمی یا پھر غفلت ہے اس ریاست کی باگ ڈور سنبھالتے ہی ہمارے حکمران جانے کیوں خود کو رعیت سے الگ مخلوق سمجھ لیتے ہیں ان کا کھانا پینا الگ رہن سہن الگ حتیٰ کہ دور حکمرانی میں ان کے مزاج ہی الگ ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ کے طبعیت میں معمولی خرابی پر انہیں اپنے ملک کی کوئی دوائی راس آتی ہے نہ کوئی معالج یہی اصل خرابی جڑ ہے اللہ اور اسکے رسول جناب محمد ۖ کے فرامین میں حاکم کے لیے تو رعیت سے کم تر زندگی بسر کرنے کا حکم ہے فاتح مبین کائنات کے سب سے عظیم حاکم سب سے بڑے جرنیل سب سے بڑے دانا اور پوری کائنات کا تصرف رکھنے والے آقا نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی اپنے آپ کو اپنے صحابہ کی جماعت سے الگ نہ کیاآپ ۖکی سیرت کے مطالعہ سے کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس بشر عظیم نے اپنی زندگی کو کتنا سادہ رکھا اور اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ انسانیت سے محبت کا جو رواج قائم کیا وہ آج کے حکمرانوں کے علم میں ہی نہیں ایک واقعہ نظر قارئین ہے۔

ایک مجلس میں فخر کائنات ۖنے جب مجلس برخاست فرمائی تو حاضرین مجلس جانے لگے اور یہ انسانوں میں سے افضل ترین انسان انہیں کھڑے ہوکر الوداع کررہا ہے صحابہ کا جم غفیر ہے اور آپۖ ایک ایک کو پورا وقت دے رہے ہیں اسی بھیڑ کی وجہ سے ایک بیٹھے ہوئے صحابی کے پائوں پر آقا کریم ۖ کا پائوں آگیا آپۖ رات کو سوئے تو چارپائی پر کروٹیں بدلتے رہے ام المومنین حضرت عائشہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ آج طبعیت میں اضطراب کیوں ہے آپۖ نے فرمایا کہ میرے پائوں کے نیچے ایک شخص کا پائوں آیا ہے جس سے اسے تکلیف پہنچی اور میں اس سے معافی بھی طلب نہیں کرسکا ام المومنین نے عرض کی کہ وہ آپۖ کے دیوانے ہیں عاشق ہیں وہ کسی صورت بھی ناراض نہ ہوا ہو گا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اسکی محبت ہے مگر میرا اخلاق مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں لوگوں کے پائوں روندتا ہوا گزروں ام المومنین کے مشورہ پر آپۖ اس صحابی کے گھر تشریف لے گئے وہاں دیکھا تو عجب ماجرا تھا وہ صحابی اپنے قبیلہ کے جھرمٹ میں بیٹھا تھا اور اسکے خاندان والے اسکا پائوں چوم رہے تھے اور اسے مبارک دے رہے تھے۔

اسی ثانیے میں جناب کا جلوہ گر ہوجانا انکے خوشی کو دوبالا کرگیا انہوں نے عرض کیا کہ آقا ۖ ہم تو نسل در نسل آپ کے غلام ہیں آپ نے قصد کیوں فرمایا آپ ہمیں طلب فرما لیتے آقا لجپال نے جب معافی طلب کی تو وہ عرض کرنے لگے کہ آقا اللہ کی قسم ہم تو اپنی قسمت پہ ناز کر رہے ہیں کہ آج قسمت نے ساتھ دیا اور مجھ کمینے کا پائوں بھی آپۖ کے جسم اطہر سے مس ہوگیا اس موقع پر سرکار دوعالم نے فرمایا کہ یہ تمھاری محبت ہے مگر میں تو معافی کا خواستگار ہوں اللہ اکبر آج ملک عزیز میں اگر اس طرح کی بات کی جائے تو لوگ کہتے ہیں آپۖ کے بعد کوئی ایسا واقعہ کوئی ایسی مثال تو حضرت عمر فاروق حضرت عمر بن عبد العزیز جناب علی مرتضےٰ اور صوفیاء کرام کی زندگی کا مطالعہ کر لیا جائے۔

صد افسوس کہ اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے آج تک وہی ٹولہ ہی ہے جنہیں شاید اپنے ایمان کی تعریف بھی نہ آتی ہو کہ ایمان کسے کہا جاتا ہے بلکہ یہاں تو سیاست کو خدمت کے بجائے کاروبار کا درجہ مل چکا ہماری اسمبلیوں میں اب بھی مثالیں موجود ہیں کہ ایک میٹر کلرک آج اربوں کی جائیداد کا مالک ہے ایک بار الیکشن جیت کر وزارت حاصل کرکے اتنا پیسہ کمایا کہ دوبارہ الیکشن لڑنے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی یہ مثال بھی پاکستانی سیاست میں موجود ہے اور ہر صورت ہر بار ہر وقت قوم پر حاکم رہنا یعنی اپنے آپ کو اقتدار سے الگ نہ رکھنا اسکے لیے جو بھی کرنا پڑے یہ مثالیں بھی موجود ہیں مگر اس سارے نظام کو یہاں تک دھکیلنے میں گناہگار کون کون ہیں شاید میں اور آپ اور وہ سب لوگ جنہوں نے اپنے ووٹ کو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھا اور اسکے تقدس کا خیال نہ رکھا یا پھر شاید ابھی ہمیں شعور نہیں آیا۔

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی