اتوار کے ڈیلی ڈان کے مین صفحے میں سرخی پڑی کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی بد عنوانی کے مقدمات کی تحقیقات کی جائیں گیں اس پروگرام کے سربراہ انور بیک صاحب نے اس معاملے کو نیب کے سربرہ جناب چوہدری قمر الزامان کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے اس پروگرام میں پبلک رولز کی ممکنہ خلاف وردی کی گئی ہے۔
منظور نظرا فراد کو فائدہ پہنچایا گیا ہے اس پروگرام کی تشہیر جو در اصل پیپلز پارٹی کی تشہیر تھی غریب عوام کا پیسہ بے جاہ خرچ کیا گیا ہے اپنی پسندیدہ ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کو لاکھوں کی غیر قانونی ادائیگی کی گئیں ہیں اس کا ریکارڈ بھی نہیں رکھا گیا۔
ہم اس سے قبل اپنے کالموں میں پیپلز پارٹی کی کرپشن کو عوام کے سامنے بیان کرتے رہے ہیں مگر بقول پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید صاحب کہ عوام ستو پی کر سو گئے ہیں ہمارے کالموں یا قوم کے دوسرے غور فکر والے عناصر کی تشویش کا عوام پر با لکل اثر نہیں ہوتا بار بار انہی کرپٹ سیاست دانوں کو منتخب کرتے ہیں چائے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں۔
الیکشن کے دوران سیاست دان عوام سے جھوٹے وعدے، سبز باغ دکھا کر اور جذباتی ماحول پیدا کر کے ووٹ حاصل کر لیتے ہیں اس کا مظاہرہ عوام پچھلے انتخاباب میں الیکٹرونک میڈیا پر عربوں روپے کے خر چے کا مظاہرہ دیکھ چکے ہیں انتخاباب جیتنے کے بعد عوام کے خزانے کو عوام ہی کے نام سے لوٹتے رہتے ہیں مگر عوام بے بس تماشہ دیکھتی رہتی ہے ملک میں لنگڑی لوہلی جمہوریت قائم ہے سیاست دان لوگوں کی آزاد رائے سے حکومت میں آتے ہیں اور آتے رہیں گے۔
پاکستان بنے ٦٧ سال کا عرصہ گزر گیا مگر عوام کی حالت نہیں سدرھی کرپشن ایک ناسور کی شکل اختیار کر گئی ہے گورنمنٹ کا کوئی بھی ادارہ اس سے مستثنیٰ نہیں ہے جیسے جیسے اداروں کا حجم ہے ویسے ویسے ہی کرپشن کا بھی حجم ہے سیاست دانوں نے سیاست کو انڈسٹری کا درجہ دے دیا ہے الیکشن جیتنے کے لیے ایک کروڑ خرچ کرو ایک عرب کمائو والی پالیسی ہے اب تو کرپشن، مہنگائی بے روز گاری، لوڈ شیڈنگ، لاء اینڈ آڈر اور خوف وحراس کی وجہ سے عوام چیخ اُٹھے ہے عوام جانتے ہیں۔
جتنی کرپشن ہو گی اُتنی ہی مہنگائی بڑھے گی جو پیسے عوام کی بہبود پر خرچ ہونے ہوتے ہیں وہ کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں مصیبت اور دکھ عوام برداشت کرتے ہیں سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثے ہیں ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں کہ کوئی بھی بیرون پاکستان ملک پیسہ نہیں رکھ سکتا اگر کوئی ایسا قانون ہے بھی تو اس پر عمل درآمد نہیں ہو تا کیونکہ جن لوگوں نے عمل درآمد کروانہ ہوتا ہے وہ ہی انتظامیہ ہیں اس لیے عمل نہیں ہونے دیتے کیونکہ ان ہی کا کرپشن کا سرمایا بیرون ملک میں ہے ویسے تو کم وبیش سارے ہی سیاستدان کسی نہ کسی طرح کی کرپشن میں ملوث ہیں۔
سب سے زیادہ نمبر پیپلز پارٹی کے ہیں۔ صاحبو! جس پارٹی کی مرکزی قیادت سے لیکر نیچے کی قیادت تک پرپشن میں ملوث ہو مثلاً پیپلز پارٹی کے پچھلے دور میں ان کی پارٹی کی شریک چیئر مین کے سوئس بنکوں میں پیسوں کے کیسز اعلیٰ عدالت میں چلتے رہے پاکستان کے صدر ہونے کی وجہ سے اسثنیٰ کا فائدہ اُٹھایا گیا ساتھ ہی ساتھ کیسز میں سوئس حکومت کو اندر ہی اندر ٹال مٹول کرتے ہوئے وقت گزاری کے لیے خط بھی لکھا گیا جو موجودہ حکومت کواس دور میں پتہ لگا اب پھر یہ کیسز کھول دیئے گئے ہیں دو دن پہلے سابق صدر بھی عدالت میں پیش ہوئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے دو وزیر اعظم صاحبان کے کرپشن کے کیسز بھی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔
ہم عوام تک ہمیشہ یہ پیغام پہنچاتے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی یہ طے شدہ پالیسی رہی ہے کہ جب بھی حکومت میں آئو اپنے کارکنوں کو ہر جائز نا جائز طریقے سے نوازو چائے خزانہ خالی ہو یا ہو جائے پلاٹ، پرمنٹ ٹھیکے، ناجائز مراعات اور نوکریاں دو اس پالیسی کے تحت پاکستان کے اداروں میں پورے ملازمین ہونے کے باوجود نوکریاں دی گئیں ادارے اوو رلوڈیڈ ہو گئے اور بند ہونے پر آ گئے اس کی مثال اسٹیل مل اور پی آئی اے وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے جب دوسری پارٹی کی حکومت آتی ہے تو بین الاقوامی ادارے قرض تب دیتے ہیں جب اداروں کے سرپلس ملازمین کو نکال دیا جائے اور ڈائون سائزنگ کی جائے جب پیپلز پارٹی اگلی دفعہ آتی ہے تو ایسے سالوں سے برخاست شدہ ملازمین کو ساری مراعات کے ساتھ دوبارہ بحال کر دیتی ہے۔
PPP
اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اپنی لیڈر شپ کے کرپشن کے معاملات سے چشم پوشی کرتی ہے بلکہ کئی دفعہ نوٹ کیا گیا ہے کہ کرپشن میں سزا یافتہ افراد کو جیل سے رہائی کے بعد پھر حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر لگا دیا گیا کرپشن میں ملوث اپنے لوگوں کے کیسز میں عدالتوں سے تعاون نہیں کیا گیا ٹال مٹول اور بعض دفعہ عدالتوں کے حکامات پر عمل درآمد بھی نہیں کیا گیا یہ پالیسی اظہر من التمش ہے اس پالیسی سے پیپلز پارٹی کے عام کارکنوں اور لیڈر شپ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ خوب کرپشن کرو کچھ بھی نہیں ہونا اس کلچر کی وجہ سے پاکستان میں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔
پاکستانی عوام کے لیے کتنے شرم کی بات ہے کہ حکومت کی اسی کرپشن کی وجہ سے کیری لوگر بل میں یہ دفعہ شامل کی گئی تھی کہ امریکا اس امداد کی رقم کو خود یا اپنی پسندکی این جی اوز کے ذریعے خرچ کرے گا اس سے اُسے پاکستان میں تخریبی کاروائی کروانے میں آسانی ہوئی میڈیا میں یہ خبریں آئین کہ ایک سیوی چلڈرن این جی اوز نے ہمارے ملک میں جاسوسی کی۔
ان ہی وجو حات کی وجہ سے پچھلے قومی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست ہوئی ان حالات میں ہم پیپلز پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی اس پالیسی سے رجوع کریں اور صاف شفاف لیڈر شپ عوام کے سامنے پیش کریں ہم اور کوئی بھی انصاف پسند انسان کسی بھی پاکستانی کو کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے جائز مراعات کے خلاف نہیں ہونا چاہیے یہ عوام کا حق ہے مگر ہر سیاسی پارٹی خاص کر پیپلز پارٹی کو اپنے کارکنوں کو ناجائز نوازنے کے بجائے انہیں حلال روزی کمانے اپنے استعداد بڑھانے کی پالیسی کے تحت تربیت کرنی چاہیے ذالفقار علی بٹھو صاحب نے اپنے پہلے دور میں کارکنوں کے لیے بیرون ملک روزگار کے مواقعے پیدا کیے تھے جو ایک اچھی پالیسی تھی پیپلز پارٹی کی موجودہ لیڈر شپ کو بھی ایسی ہی پالیسیاں بنانا چاہیے تک تاکہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکے۔
قارئین! اس ساری دکھوں بھری داستان کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہم عوام سے اس اہم بات کو بھی شیئر کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی دنیا کبھی بھی کسی وقت بھی نیک لوگوں سے خالی نہیں چھوڑی اگر دنیا نیک لوگوں سے خالی ہوتی تو لوگ اللہ تعالیٰ سے روز قیامت سوال کرتے کہ دنیا میں کون نیک لوگ تھے جنہیں ہم اپنا لیڈر بناتے اپنی امانتیں اُن کے سپرد کرتے۔ اس سلسلے میں عوام کو قرآن میں قوموں کے عروج و زوال کے واقعات سے سبق لینا چاہیے جو عوام کی رہنمائی کے لیے موجود ہیں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے اپنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو۔
اس لیے عوام کو اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں کے جائز نا جائز ماحول سے نکل کر اپنے گلی کوچوں میں ایسی لیڈر شپ کو تلاش کرنا چاہیے ایسی لیڈر شپ ضرور آپ کی گلی کوچوں میں موجود ہو گی جو امانت دار ہیں، پڑے لکھے ہیں، نڈر ہیں، کرپشن سے پاک ہیں اور حکومتوں کے چلانے کے قابل ہیں جس کی جھلک عوام دیکھتی بھی رہتی ہے مگر کیا کیا جائے عوام کے اپنے اپنے تعصب کے چشمے ہیں کسی کا چشمہ قومیت کا ہے، کسی کا چشمہ علاقعیت ہے، کسی کا چشمہ لسانیت کا ہے اور کسی کا چشمہ جائز و ناجائز مراعات حاصل کرنے کا ہے نہیں ہے تو صرف صحیح اور غلط کی پہچان اور انصاف کا چشمہ نہیں ہے جس دن یہ چشمہ عوام کے پاس آ گیا تو انشاء اللہ پاکستان کے معاملات درست ہو جائیں گے اللہ ہمیں صحیح اور انصاف کے فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پاکستان کی حفاظت کرے آمین۔