تحریر : محمد اشفاق راجا عمران خان چند دن کیلئے لندن کیا گئے، بازار سیاست ہی مندا پڑگیا تھا، اب وہ آئے ہیں تو گرمی بازار دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہے، پارٹی ترجمان نعیم الحق بھی اپنے چیئرمین کو ”ویلکم بیک” کے اندازمیں اعلان کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی وزیراعظم استعفا دیدیں گے۔ اس پر کوئی یقین کرے یا نہ کرے، دل کے خوش رکھنے کو خیال تو اچھا ہے، ویسے بھی استعفا تحریک انصاف کا من پسند موضوع ہے، ملے نہ ملے، ذکر تو ہوتے رہنا چاہئے لیکن سخن گسترانہ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بعض لیڈر بھی ترکی بہ ترکی جواب دینے کیلئے پہلے سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ذرا صبر نہیں کرتے۔ اگر نعیم الحق نے دل خوش کر ہی لیا تھا تو کوئی آسمان نہیں گر پڑا تھا۔ ویسے تو عمران خان 2 نومبر سے پہلے کتنی بار کہہ چکے تھے کہ چاہے آسمان گر پڑے، اسلام آباد بند ہوگا، لیکن آپ دیکھیے آسمان بھی اپنی جگہ موجود رہا اور شہر بھی بند نہ ہوا، یہ دراصل سیاسی بیانات ہوتے ہیں، ایک زمانے میں چودھری پرویز الٰہی کہا کرتے تھے کہ وہ صدر پرویز مشرف کو دس بار وردی میں صدر منتخب کرائیں گے، لیکن وقت آنے پر یہ حادثہ صرف ایک ہی بار ہوسکا اور پھر یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی۔
جنرل پرویز مشرف اپنی طاقت کے بل بوتے پر خود 2013ء تک صدر تو منتخب ہوگئے تھے لیکن انہیں راستے میں ہی یہ صدارت چھوڑ دینا پڑی، جسے اب آصف علی زرداری اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا۔ وقت وقت کی بات ہے جب پرویز مشرف کا اقتدار نصف النہار پر تھا تو پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو ان کے ساتھ این آر او کر رہی تھیں۔ یہ این آر او جاری ہوا، ہزاروں لوگ مستفید ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف خود بھی اس کا کریڈٹ لیتے تھے اور بے نظیر بھٹو بھی اسے اپنی فتح قرار دیتی تھیں لیکن آج یہی پرویز مشرف ہیں جو اسے اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔ سیاسی خیالات کے چشمے انسانوں کے ذہن رسا ہی سے پھوٹتے ہیں، طاقت کی سرشاری ہو تو خیالات کا لاوا کسی اور جانب بہتا ہے۔ اختیارات اور حالات پر گرفت ڈھیلی پڑ جائے تو انسانی سوچ میں کجیاں نمایاں ہونے لگتی ہیں، محروم اقتدار ہوکر احساس ندامت اور احساسِ زیاں بھی گھیر لیتا ہے۔
پھر آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ دوران اقتدار وہ کیا کیا حماقتیں کرتا رہ گیا۔ آصف علی زرداری یہ نعرہ لگاتے لگاتے بیرون ملک کھسک گئے کہ ہم نے تو مستقل رہنا ہے، لیکن سیاست میں کیا کچھ مستقل ہوتا ہے اور کیا عارضی یہ کسی کو معلوم نہیں۔ بات شروع کی تھی نعیم الحق کے اس بیان سے کہ وزیراعظم استعفا دے سکتے ہیں جس کا جواب طلال چودھری کی جانب سے یہ آیا ہے کہ عمران خان اسلام آباد میں بیٹھے تو استعفا لینے کیلئے تھے لیکن ڈولی لے کر چلے گئے، اب یہ بات جتنی بھی امر واقعہ کے قریب ہو آدمی کو سن کر غصہ تو آتا ہے کہ یہ ڈولی بھی راستے ہی میں رہ گئی تھی چنانچہ نعیم الحق آرٹیکل 62 اور 63 کو آواز دینے پر اتر آئے۔ طلال نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ لندن ثبوت ڈھونڈنے نہیں، رشتہ ڈھونڈنے گئے تھے، دانیال عزیز بھی تحریک انصاف کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ یہ ساری گرم بازاری جو آپ دیکھ رہے ہیں تحریک انصاف کے دم قدم سے ہے، جو مسلم لیگ (ن) سے توجہ ہٹاتی ہے تو رخِ انور پیپلز پارٹی کی جانب کرلیتی ہے اور کبھی خورشید شاہ کو ڈبل شاہ کہہ دیتی ہے تو کبھی مائنس زرداری فارمولا پیش کردیتی ہے۔
Khurshid Shah
خورشید شاہ نے اس کا جواب دے دیا ہے کہ اپوزیشن متحد تھی اور پاناما کے مسئلے پر وہ متفقہ موقف اپنانے جارہی تھی کہ عمران خان نے اگلے ہی دن اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کرکے سولو فلائٹ اڑا دی اور یوں باقی اپوزیشن جماعتیں اس مسئلے سے الگ ہوگئیں۔ مولا بخش چانڈیو نے بھی لگے ہاتھوں عمران خان کو سخت سست سنا دی ہیں تو قارئین محترم اندازہ فرمایئے ان حالات میں چودھری اعتزاز احسن چاہیں بھی تو عمران خان کی وکالت کیا خاک کریں گے؟ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف (خورشید شاہ) تو عمران خان کے لتے لے رہا ہو اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف (چودھری اعتزاز احسن) عمران خان کی وکالت کر رہے ہوں اور دونوں کا تعلق بھی ایک ہی جماعت سے ہو۔ ابھی تک حتمی طور پر یہ طے نہیں ہوسکا کہ سپریم کورٹ میں اب تحریک انصاف کا مقدمہ کون لڑے گا، عمران خان نے واپس آتے ہی نعیم بخاری کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی ہے جو اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرے گی۔
اس کمیٹی میں ایک رکن کے طور پر ڈاکٹر بابر اعوان بھی شامل ہیں۔ نعیم بخاری پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ سپریم کورٹ میں وہ بابر اعوان کی معاونت نہیں کریں گے تو پھر کیا بابر اعوان یہ فریضہ انجام دیں گے؟ یہ بھی بظاہر ممکنات میں سے نہیں، چلیے عمران خان نے کمیٹی تو بنا دی جو وکیلوں کے ناموں کو حتمی شکل دے گی دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا؟ ویسے عمران خان نے یہ بھی بالکل بجا کہہ دیا ہے کہ کرکٹ میں بسا اوقات کمزور ٹیم، طاقتور ٹیم سے جیت جاتی ہے کیونکہ کرکٹ تو ہے ہی بائی چانس، لیکن سیاست میں کرکٹ والے فارمولے نہیں چلتے، اگر ایسا ہوتا تو اب تک بہت سی کمزور ٹیمیں جیت کر دکھا چکی ہوتیں۔ سیاست تو وہ سنگ دل کھیل ہے جہاں بعض اوقات یقینی جیت بھی ہار میں بدل جاتی ہے۔
عمران خان کو شبہ ہے تو ایئر مارشل (ر) اصغر خان سے پوچھ لیں جنہوں نے اپنی پوری کی پوری جماعت تحریک انصاف میں ضم کر رکھی ہے۔ انہیں کسی وقت فرصت ہو تو یہ بھی پوچھ لیں کہ انہیں اپنی جماعت تحریک انصاف میں مدغم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جو جواب آئے گا اس سے انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ سیاست میں کمند اس وقت بھی ٹوٹ جاتی ہے جب دوچار ہاتھ لب بام رہ جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ایئر مارشل رات کو سوتے تھے تو صبح یہ سوچ کر اٹھتے تھے کہ آج اقتدار ان کی جھولی میں گر جائے گا، لیکن جھولی پھٹ گئی، اقتدار کا پھل اس میں نہ گرسکا۔ جہاں تک عدالتوں کا تعلق ہے وہاں بھی کمزور وکیل اور کمزور دلیل نہیں چلتے۔ اگر عمران خان کمزور وکیلوں سے ہی اپنا مقدمہ جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں اس سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ یہ تجربہ بھی کر دیکھیں بادشاہ ایسے ہی تجربے کرتے رہتے ہیں۔