غیر سیاسی جوڑا ظفر اور صائمہ دو جسم ایک جان ہیں۔ظفر کا تعلق مڈل کلاس سے ہے جبکہ صائمہ انتہائی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ اِس کا خاندان غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے زندگی کے ایام پورے کر رہا ہے۔ظفر ٹیچنگ کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ڈیزائینگ کے کام میں بھی مہارت رکھتا ہے ۔دونوں کی ملاقاتیں ایک طویل عرصہ سے چل رہی تھیں۔پھر ایک روزظفر نے ہمت کر کے صائمہ کے گھر رشتہ بھیج ہی دیا اور انتہائی سادگی کے آنچل میں عروسی جوڑے میں سجی ہزاروں خواہشیں دِل میں دبائے صائمہ پیا دیس سدھار گئی۔
اب وقت برف کی مانند پگھلنے اور پر لگا کر اُڑنے لگا۔دونوں کو ایک دوسرے کی وفائوں پر ناز تھا۔انتہائی خوش تھے ،خوشی کا عالم ہر روز گزشتہ سے تجاوز کرجاتا۔جیسی خوشی مدتوں سے پیاسے صحراہ کے مسافرکو نگاہوں کے سامنے ٹھنڈے اور میٹھے پانی سے لبریز کوزے کو دیکھ کر ہوتی ہے ایسی ہی تسکین و راحت وہ دونوں روز محسوس کر رہے تھے۔
دونوں کی خوشنما ں حسین زندگی کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے آسمان پر فرشتے بھی رشک کر رہے ہوں ۔پاکیزہ فرشتے ،چرند ،پرند ،حیوان کوئی بھی انسان کی خوشحالی و ترقی سے حاسد نہیں ہوتا سوائے خود انسان کے ۔اور مسندِ اقتدار پر قابض بھی تو انسان ہی ہیں۔وقت بکھرتا گیا اور اِس دوران ظفر اور صائمہ دو سے پانچ ہو گئے۔دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ زندگی ہنسی خوشی بسر ہونے لگی۔اب ظفر کے گھر کی ضروریات بھی بڑھ چکی تھیں۔
مکان کا کرایہ ،تین بچوں کا خرچ نہ آنے والی بجلی کے اژدھا جیتنا منہ کھولے بِل ،پانی اور گیس کی بندش مگر ہر ماہ بِلوں کی آمد۔بچے اب ساری عمر بچے ہی تو نہیں رہتے نہ انہیں اسکول بھجنے کی فکر نے بھی ظفر کو اندر ہی اند ر سے تباہ کر ڈالا تھا۔ظفر پر اللہ پاک کی ایک خاص عنایت یہ تھی کہ صائمہ انتہائی صابر اور شکر گزار بیوی ثابت ہو رہی تھی ،مگر کب تک اُسے بھی تو اپنے جگر کے گوشوں کے مستقبل کو لیکر پریشانیوں کی وادی میں داخل ہونا ہی تھا۔ظفر اپنی تعلیمی قابلیت ، ذہانت،دانشوری،ایماندار اور محنتی ہونے کی وجہ سے علاقہ بھر میں نمایا تھا۔
مسندِ اقتدار پر بیٹھے اعلیٰ عہدیداران غریبوں کی بستیوں کی کچی پکی سڑکوں سے گزرتے وقت اپنی مرسڈیز کے بلیک پیپر شیشے نیچے کر کے حالات کے ستائے بوسیدہ گھروں کی جانب ایک جھلک دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔جِن معصوم ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے انہی ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے وائپراور کپڑے ہیں جِن سے وہ معصوم کلیاں انہی اشرافیہ کی موٹرکاریں چمکا رہے ہوتے ہیں اور یہ بھی اپنا فرض انتہائی ایمانداری سے نبھاتے ہوئے اُن مُر جھائی ہوئی نازک ہتھیلوں پر بنا نظر ڈالیں ہی چند کھوٹے سکے تھمادیتے ہیں۔خیر اِس حقیقت سے سبھی آشنا ہیں، میں اپنے ظفر کی جانب واپس لوٹتا ہوں۔
Load Shedding
لوڈشیڈنگ نے ظفر پر خاص مہربانی کی اب ظفر شام میں بچوں کو چاند کی روشنی میں پڑھانے سے تورہا ۔ظفر نے گھر میں چھوٹا سا ٹیوشن سینٹر بنا رکھا تھا مگر upsلگانے کی پسلی نہ تھی۔شاید بچے موم بتی کی لُو میں پڑھ لیتے مگر جسم پکاتی گرمی میں بنا پنکھوں کے پڑھائی کرنا معصوم بچوں کیلئے محال تھا ۔غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہر سمت میں ناچ رہی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ظفر کے تمام سٹوڈنٹس نے upsوالی اکیڈمیاں جوائن کر لیں۔
یہاں اب کِسی کو بھی ظفر کی تعلیمی قابلیت ذہانت نظر نہ آئی ۔بچارا ظفر پرنٹنگ اور ڈیزائننگ کا کوئی آرڈر پکڑتا تو لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے ڈیزائن وقت پر نہ بنا پاتا ۔اب آنکھ مچولی کھیلتی لائٹ کے ساتھ ظفر نے بھی آنکھ مچولی کھیلنا شروع کردی وہ رات رات بھر جاگتا اور پوری پوری رات میں صرف ایک ہی ڈیزائن بنا پاتا ۔اور جِس اسکول میں وہ ٹیچنگ کرتا تھا اکثر صبح اب وہاں سے بھی لیٹ ہونے لگا۔ صائمہ گھر کے اخراجات کا مطالبہ کرتی ،بچے بھی دودھ سے آشنا تھے۔
صائمہ کے مطالبات جائز تھے ۔جو اِس دنیا میں آیا ہے اُسے آنے کے بعد ہر چیز مطلوب ہے ۔آتے ہی اُس نے کپڑے بھی پہننے ہیں ،جوتی بھی چاہیے ،پیٹ کی آگ بجھانے کو بھوجن کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔اب اکثر ظفر سکول سے غیر حاضر بھی ہونے لگا۔ تعلیم ظفر کا بے مثال ہنر تھا مگر اِس لوڈ شیڈنگ نے ظفر کے اِس ہُنر کوکھوکھلا کر ڈلا تھا۔شہر میں ویسے ہی بیروزگاری عروج پر تھی اور ظفر کو کوئی اور ہنر آتا بھی کہاں تھا۔رت جگوں اور ایک دم سے آمدنی کے کم ہوجانے کی وجہ سے ظفر نفسیاتی سا ہوتا جارہا تھا۔
جِس اسکول میں ظفر ٹیچنگ کے فرائض سر انجام دیتا تھا وہاں سے با ادب طریقے سے غیر ذمہ داری کا سرٹیفیکیٹ تھما کر ظفر کو باعزت مستقل رخصت پر بھیج دیا گیا۔ظفر اور صائمہ کا ایمان پختہ تھا ۔مگر اکثر شیطان مردود اُن کی آزمائش کی گھڑیوں کو زینہ بنا کر اُن کے کان میں سر گوشی سی کر جاتا کہ یہ اشرافیہ،اعلیٰ عہدیداران،وزیر ، مشیر وغیرہ بھی تو تم جیسے ہی گوشت پوست کے انسان ہیں ۔اِن کے بچے تمام تر سہولیات سے آشنا ہیں ۔اُن کے گھر لائٹ بھی نہیں جاتی اور بِل بھی نہیں آتے اور اگر آتے بھی ہیں تو ادا نہیں کیے جاتے۔
بڑے بڑے کتنے ہی سٹار ہوٹل اُن ہی کے دم سے آباد ہیں۔حکمران مہنگائی کے نام اور درشن سے نا آشنا ہیں۔تیرے بچے دودھ کو ترستے اور اُن کے بچے دودھ سے آشنان کرتے ہیں۔شیطان جو کہ سیاست دان، غریب اور خواتین کو ہی اپنے نشانے پر رکھتا ہے… اپنا وار کر گزرتا۔ظفر کے حالات انتہائی خستہ ہوچکے تھے ۔گھر میں آٹے کا کنستر آٹے کی شکل بھول گیا تھا۔پھول سی بیٹی بخار میں مبتلا تھی مگر ڈاکٹر کو دینے کیلئے رنگ برنگے نوٹ نہ تھے۔صائمہ اور ظفر کا پیار نفرت نہیں چڑچڑے پن میں بدل کر رہ گیا ۔اُس روز ظفر نے حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔
Satan
اب اپنی روح کو قفسِ انسری سے آزاد کر وا ہی دینا چاہیے۔شیطان نے ظفر کے کان میں پھونک ماری کہ یہ کیا کرنے جا رہا ہے تو خودکشی کرنے کیلئے آمادہ ہو گیا ہے ۔تیرے بعد تیرے بیوی بچوں کا کیا ہوگا ؟کون ہے جو اُن کا سہارا بنے گا …بہتر یہی ہوگا کہ پہلے تو اُن سب کو قتل کرکے دنیاوی تکلیفوں سے نجات دلوا کر جنت میں پہنچا اور بعد میں خود کی زندگی کو اِس دنیاوی مصیبتوں سے آزادی دلوالے۔شیطان کا مشورہ ظفر کے دل کو بھا گیا ۔(خود کش حملہ آوروں کا بھی اِسی طرح برین واش کیا جاتا ہے کہ بٹن دباتے ہی پریاں تجھے اپنی آغوش میں بھر کے جنت میں لے جائیں گی۔
رات کا دوسرا پہر تھا ۔معصوم بچی دودھ نہیں پانی پی کر سوئی تھی۔ظفر نے آج ہی رات جنت میں جانے کا پر وگرام بنایا تھا ۔اگلے ہی لمحے معصوم منزہ کی نازک گردن اناڑی قاتل کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں آنے کو تھی ۔یہ کہاوت نہیں حقیقت ہے ”مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے”صائمہ کی آنکھ کھل چکی تھی اور اِلہام کے ذریعے اللہ رب العزت کی ذات نے اُسے ظفر کی سوچ سے آگاہ کر دیا تھا ۔یہ سب ایک سیکنڈ کے ہزاروے حصے میں ہوا تھا۔صائمہ نے غیبی طاقت کو ہتھیار بناتے ہوئے ظفر کو اِس بجلی کی سی تیزی سے جھٹکا دیا کہ اگلے ہی لمحے ظفر دس گز دور مٹکے کے اسٹینڈ کے ساتھ پڑا ہے ،اور شرمندگی کے مارے اُس کا ناک زمیں بوس تھا۔
اِس بار صائمہ اُٹھی اور ظفر کے چہرے کو اپنے شفاف ہاتھوں کے کٹوروں میں سمیٹ کر مخاطب ہوئی…!” کِسی سیانے کا قول ہے کہ’ جب یاس و حمان کے سائے بڑھ جاتے ہیں تو سمجھ بوجھ بھی ختم ہو جاتی ہے اور پھر کچھ باقی نہیں بچتا’۔مصیبت اور پریشانیاں اللہ پاک کی جانب سے اپنے بُرگزیدہ اور چُنے ہوئے بندوں پر آزمائش ہے ۔’ہم تو اُن عظیم حستیوںکے قدموں کی دھول کے برابر بھی نہیں …واقعہ کربلا اور صحابہ اکرام کی حیاتِ طیبہ کا مطالعہ ہمیں حوصلہ اور صبر دونوں کی تلقین کرتے ہیں اور پیغمبروں کے صبر تو عظیم ترین درجے کے ہیں۔
غیر مسلم کیوں اتنا خوش حال ہیں کیونکہ اللہ پاک انہیں آزماتانہیں، وہ صرف اپنے پیاروں کو ہی آزماتا ہے”۔پاکدامن سلیقہ مند بیوی کی باتوں نے ظفر کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی۔ ظفر اُسی وقت اشکِ ندامت بہاتا ہوا بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگیا اور سچے دِل سے توبہ کی ۔اُس نے ہر حال میں تہہ دل سے اللہ کا شکر گزار بندہ بننے کا ارادہ کر لیا تھا ۔آج ظفر پہلی بار عشاء کی نماز پڑھ کہ باوضو کعبہ رُخ ہو کر سویا تھا۔ صبح سویرے دروازے پر دستک ہوئی ۔صائمہ نے دروزہ کھولا تو سامنے علاقے کا نمبر دار کھڑا تھا ” بہن ماسٹر ظفر صاحب گھر میںہیں کیا۔
صائمہ جلدی سے پلٹی ”جی جی ہیں فجر کی نماز اور قرآن مجید کی تلاوت سے فراغت پا کر ابھی سو ئے تھے ، اُٹھاتی ہوں ” نمبر دار نے صائمہ کو روکا ”ماسٹر صاحب کو آرام کرنے دیں بہن ،انہیں جو کہنا ہے میں آپ سے کہہ جاتا ہوں آپ اُن تک میری بات پہچادیجئے گا۔دراصل بات یہ ہے کہ میرے پہلی بیوی کے ساتوں اور دوسری کے تینوں بچے انتہائی درجہ کے نالائق اور بد تمیزہوتے جارہے ہیں آپ ماسٹر صاحب سے کہیں کہ اُن کی مہربانی ہوگی کہ میرے بچوں کو اپنے علمی خزانے میں سے کچھ عنایت فرما دیا کریں۔
بچوں کی تمام تر تعلیمی ذمہ داری میں معقول ماوضہ کے عوض انہیں سونپنا چاہتا ہوں ۔اور اُن سے مزید کہئے گا کہ اگر وہ چاہیں تو اِس ماوضے کے علاوہ ایک معقول تنخواہ پر میرے پاس میرے منشی (اسسٹنٹ) کے فرائض بھی نبھا سکتیں ہیں۔کیونکہ میں جانتا ہوں کہ سارے علاقے میں مجھے ظفر صاحب جیسا قابل ،ایماندار اور محنتی انسان نہیں مِل سکتا ،مہربانی فرما کے جب وہ اُٹھیں تو انہیں میرے پاس بھیج دیجیے گا شکریہ نمبر دار تو اپنی کتھا سنا کر کب کا روانہ ہو چکا تھا مگر صائمہ بہت دیر تک اُوپر نیلے آسمان کی جانب منہ کیے نگاہوں سے شکرانے کے نوافل ہی ادا کرتی رہی۔
Muhmmad Ali Rana
تحریر : محمد علی رانا 0300-3535195 muhammadalirana26@yahoo.com