سیاست میں اس وقت جو تقسیم ہے اسے بڑے واضح انداز میں دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔٢٥ جولائی کے انتخابات اختتام پذیرہو چکے ہیں لیکن قوم دھاندلی، شفافیت ا ور مینڈیٹ کے غیر اعلانیہ دائروں میں بٹ چکی ہے جس نے انتخابات کی اجلی روح کو گہنا دیا ہے۔اپو زیشن کا الزام ہے کہ ان کا مینڈیٹ ان سے چھینا گیا ہے جبکہ فاتح جماعت پی ٹی آئی اپنی فتح کو نئے پاکستان سے تعبیر کر رہی ہے۔ پاکستان میں اگر انتخابات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں گے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہو گا کہ یہاں پر کبھی بھی شفاف انتخابات منعقد نہیں ہو سکے۔ایک روڈ میپ بنایا جاتا ہے اور سب کچھ اسی کی روشنی میں طے کیا جاتا ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی برخاستگی پر میاں محمد نواز شریف کو جتوایا جاتا تھا اور میاں محمد نوز شریف کی برخاستگی پر پی پی اقتدار کی حقدار بنتی تھی ۔اب کی بار میاں محمد نواز شرف کی برخاستگی پر قرعہ فال پی ٹی آئی کے نام نکلا تھا اور پھر ہر منظر کو اس طرح ترتیب دیا گیاتھا جس سے پی ٹی آئی کی جیت آسان ہو جائے۔اس میں پی ٹی آئی کا کوئی قصور نہیں کیونکہ وہ تو بر سرِ اقتدار نہیں تھی۔نگرا ن سیٹ اپ بر سرِ اقتدار تھا جسے بڑی جماعتوں کی مشاورت سے قائم کیا گیا تھا۔ہاں نگرانوں پر اگر ان کے نگرانوں کا اثرو رسوخ تھا تو اس کا جواب بڑے نگرانوں سے لیا جانا چائیے لیکن ایسا کرنے کی کسی میں نہ ہمت ہے اور نہ جرات ہے۔١٩٧٧ کے انتخابات کو بھی دھاندلی شدہ انتخابات کہہ کر تحریک چلائی گئی تھی جوجنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لاء پر منتج ہو ئی تھی ۔١٩٧٧کے انتخابات ذولفقار علی بھٹو کی زیرِ نگرانی ہوئے تھے کیونکہ اس وقت نگران حکومتوں کا آئین میں کوئی تصور نہیں تھا ۔ذولفقار علی بھٹو کو اگر دھاندلی کا موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا تو اپوزیشن کو اس کا حق حاصل تھا کیونکہ اس وقت حکومت ذولفقار علی بھٹو کی تھی لہذا انھیں موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا تھا۔یہ الگ بات کہ دھاندلی کے سارے الزامات جھوٹ کا پلندہ تھے کیونکہ ذولفقار علی بھٹو بڑے مقبول اور ہر دلعزیز قائد تھے اور انھیں اتحادوں کی مدد سے شکست نہیں دی جا سکتی تھی۔وہ بڑے واضح مارجن سے جیتے ہوئے تھے لیکن ان کی جیت اپوزیشن کو ہضم نہیں ہو ئی تھی۔،۔
عمران خان کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ بڑے فائٹر اور سپورٹس مین ہیں اور اپنے حریف کو میدان میں کھیلنے کا پورا پوراموقع دیتے ہیں ۔چھپ کر وار کرنا یا ایمپائر سے مل کر کھیلنا ان کی فطرت کے خلاف ہے۔ کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر کا تصور انہی نے پیش کیا تھا اور پھر طویل بحث و مباحثہ اور جدو جہد کے بعد نیوٹرل ایمپائر کے تصور کو تسلیم کروایا تھا ۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ بھارتی بلے باز سری کانت ایک دفعہ عمران خان کی گیند پر آئوٹ قرار دئے گے لیکن انھوں نے ایمپائر کے فیصلے کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔وہ غصے کی حالت میں کریز چھوڑ کر گرائونڈ سے باہر جا رہے تھے کہ عمران خان نے ایمپائر سے درخواست کی کہ سری کانت کو دوبارہ کھیلنے کا موقعہ دیا جائے۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سری کانت عمران خان کی اگلی ہی گیند پر کلین بولڈ ہو گے۔پھر نہ پوچھئے کہ وفورِ شوق سے تما شا ئیوں کی کیا حالت تھی ؟یہ تھی وہ سپورٹس مین سپرٹ جس نے عمران خان کی قدرو منزلت میں بے پناہ اضافہ کیا تھا۔کیا ٢٥ جولائی کے انتخابات میں اسی طرح کی سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ کیا گیا؟ہمیں کھلے دل سے اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کیونکہ اسی جائزہ سے ہی ان انتخابات کی شفافیت جڑی ہوئی ہے۔ملک کی سب سے بڑی جماعت کے قائد میاں محمد نواز شریف کو اقامہ پرتا حیات نا اہل کیا گیا۔پھر انھیں پارٹی صدارت سے علیحدہ کیا گیا۔
میاں محمد نواز شریف نے عدالتی فیصلوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پورے مک میں جلسوں کا ایک نیا سلسلہ شرع کر کے ووٹ کو عزت دو کا نیا نعرہ متعارف کروایا۔ان کے جلسوں میں عوام کی حاضری اور ان کا جوش و خروش دیکھ کر بہت سے حلقوں میں تشو یش کی لہر دوڑ گئی لہذا انھیں قابو کرنے کے لئے کسی نئے سیریل کی تلاش شروع ہو گئی اور پھر اسی سلسلے میں چھ جولائی کو انھیں انتہائی عجلت میں ان کی غیر موجودگی میں ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال کی قیدِ با مشقت سنا دی گئی۔وہ١٣ جولائی کو انگلینڈ سے وطن واپس لوٹے تو ائر پورٹ پر انھیں گرفتار کر کے جیل کی بلند و بالا سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا جبکہ ان کے سب سے بڑے حریف کو عوام تک اپنی بات پہنچانے کے سارے مواقع فراہم کئے گے۔مریم نوا زجو عوامی مقبولیت میں اپنا نیا مقام بنا رہی تھیں اور عوام کے اذہان کو تسخیر کر رہی تھیں انھیں بھی سات سال کی سزا سنا کر جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری کے حوالے کر دیا گیاحالانکہ ایون فیلڈ میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔انھیں باپ کی اعانت کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی حالانکہ اعانت ثابت نہیں کی گئی۔میاں محمد نواز شریف کے قریبی رفقاء کو نیب کے مقدمات میں الجھا دیا گیا، کچھ کوبھونڈے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا،کچھ کو توہینِ عدالت میں سزائیں سنائی گئیں ،کچھ کو فقط بدنام کرنے پر اکتفا کیا گیا۔کچھ کوعدالتی پیشیاں بھگتنے میں مصروف کر دیا گیا ۔بہر حال ایک فضا تھی جو مسلم لیگ(ن) کے خلاف تخلیق کی گئی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ اگلی حکومت ن لیگ نہیں بلکہ پی ٹی آئی بنانے جا رہی ہے۔میڈیا نے بڑے نگرانوں کے بنائے گے روڈ میپ پر جس طرح عمل کیا وہ ایک الگ کہانی ہے۔عمران خان کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ ان کے ہاتھ میں کسی بھی قسم کا آئینی اختیار نہیں تھا جسے وہ استعمال کر کے اپنا راستہ بنا لیتے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انھوں نے سخت محنت کی،جگہ جگہ جلسے کئے اور عوام تک اپنی بات پہنچائی ۔ان کا قصور فقط اتنا ہے کہ جھنوں نے سارا منظر نامہ ترتیب دیا تھا ان کے ساتھ انھوں نے گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ایک بساط بچھائی گئی تھی اور اس کو جو لوگ مہمیز دینے میں پیش پیش تھے عمران خان ان کے مہرے بن گئے تھے کیونکہ انھیں یقین ہو چکا تھا کہ ان کی شفقت کے بغیر پاکستان میں اقتدار کا حصو ل ناممکن ہے۔وہی کام جو میاں محمد نواز شریف نے ٢٠١٣ میں کیا تھا عمران خان نے ٢٠١٨ میں کیا ہے۔نہ اس وقت شفافیت تھی اور نہ اب شفافیت ہے۔کیا کبھی کسی کھیل میں ایسے ہوا ہے کہ کسی کھلاڑی کو زنجیریں پہنا کر اسے کہا جائے کہ اب کھیلو۔ کیا وہ کھیل پائے گا؟ یہی حال مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کیا گیا ہے۔اس کی قیادت کو پابہ ز نجیر کر کے کہا گیا کہ اب کھیلو ۔اپنے حریفوں کو زنجیروں میں جکڑ کر انتخا بات میں فتح حاصل کر لی جائے تو کیا ان انتخابات کو شفاف انتخابات تسلیم کیا جائے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ اہلِ جہاں اسے حقیقی فتح کا نام دینے کی بجائے عطائی فتح کا نام دیں گے ؟بہادروں کا شیوہ ہے کہ وہ اپنے حریف کو نہتا ،غیر مسلح اور بے دست و پا کر کے اس پر فتح مند نہیں ہو تے بلکہ اسے برابری کا موقع دے کر اپنی برتری کالوہا منواتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کو عدلیہ،نیب،میڈیا،ایجنسیوں اور بڑے نگرانوں کی مدد سے جب بالکل آدھ موا کرکے زمین پر گرا دیا گیا تو پھر عمران خان سے کہا گیا کہ اپنے حریف کی چھاتی پر چڑھ کر اپنی فتح کاڈنکا بجائو اور انھوں نے ایسے ہی کیا۔عمران خان سے جس سپورٹس مین سپرٹ کی توقع تھی وہ اس پر پورا اترنے کی بجائے اقتدار کے وقتی مفاد کے اسیر ہو گئے اور اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف کو زنجیروں میں جکڑوا کر اپنی فتح کا جشن منا نے لگے جو ان جیسے بلند مرتبت انسان کے شایانِ شان نہیں ہے۔میاں محمد نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میںسزا انتخابات کے بعد میں بھی سنائی جا سکتی تھی تا کہ وہ عوام سے رابطہ کر کے اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے رکھ سکتے ۔جیل کی سلاخوں سے وہ کس سے کہتے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے؟طے شدہ منصوبہ کے مطابق ٢٥ جولائی کی شبجو کھیل کھیلا گیا جو ہر الیکشن میں کھیلا جاتا ہے۔سسٹم کا فیل ہونا،ایجنٹوں کو زبردستی پولنگ سٹیشنوں سے نکالنا ، فارم ٤٥ مہیا نہ کرنا ،پریذائنڈنگ افسران کا اغوااور نتائج کا بر وقت اعلان نہ ہونا اس بات کے واضح اشارے ہیںکہ جس کے سر پر ہما بٹھانا تھا وہ بٹھا دیا گیا ۔ پاکستان میں ہر انتخاب کی یہی کہانی ہے لیکن اب یہ کہانی خطرناک موڑ پر پہنچ چکی ہے ۔کاش ہمیں اس کا ادراک ہو جائے؟
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال