پانی یا دولت کا مکمل بھرا ہو ا کنواں ہی کیوں نہ ہواس میں کسی طرف سے تازہ پانی شامل یا مزید رقوم داخل نہ ہوں تو خرچ ہو تے ہوتے اسے بحر حال ختم ہو جانا ہے کہ یہی قانون قدرت ہے دولت کے خزانے لٹتے رہیں تو ختم ہی ہو جائیں گے شریفوں کی لیگ کے لبا لب بھرے ہوئے ووٹوں کے بوروں میں سوراخ ہو چکا تو وہ بھی بتد ریج ختم ہوں گے ستر سالوں سے انگریزوں کی نا جائز اولادوں کے وارثان ٹوڈی جاگیردار ظالم وڈیرے کیا کبھی وفادار ہو سکتے ہیں تجربہ بتاتا ہے کہ ایسا سوچنا بھی محال ہے انتہائی سیانے لیڈر جناب بھٹو نے1970 کا انتخاب کارکنوں کی محنتوں سے جیتا تھا پھر اقتدار پاتے ہی بیورو کریسی پر تکیہ کرتے ہوئے اور سرکاری ایجنسیوں کی غلط رپورٹوں کے بعدسبھی جا گیردار شامل کر لیے اور1977کے انتخابات میں”الیکٹ ایبلزیعنی بدنام وڈیروں جاگیرداروں کو انتخابی ٹکٹیں دے ڈالیں۔
جعلی ووٹوں تک سے انتخاب جیتنے کی کوشش کی مگر نظام مصطفیٰ تحریک اور انتخابی دھاندلیوں کا پرو پیگنڈا ان کی فتح اور سیاست کو لے ڈوبااپوزیشن سے مذاکرات ہوئے دوبارہ انتخابات کروانے کا معاہدہ ہوجانے کے بعد ٹال مٹول اور وقت کٹائی کے لیے بیرونی دوروں پر چڑھ دوڑے واپسی کے چند روز بعد ہی جنرل ضیاء الحق قابض ہو گیا اس نے انتخاب تو کیا کروانے تھے قتل کے درج مقدمہ کی بنا پر بھٹو صاحب کو سزائے موت ہو گئی سزا کے اعلان سے قبل اوربعد کوئی موثر تحریک نہ چل سکی کہ جیالے کارکن انتخابات سے قبل ہی ساتھ چھوڑ چکے تھے انہوں نے پارٹی پر مفاد پرست طبقات اور پرانے غدار ٹولوں کے قبضہ کے بعد پی پی پی ہی چھوڑ ڈالی تھی اب عمران خان کے گرد بھی گھیرا تنگ کر رکھا ہے پارٹی کے ابتدائی سالوں میں قادیانیوں اور بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کی سوشلسٹ کسان تنظیموں نے ہی اسے منظم کیا تھا۔
تقریباً ہر جگہ ان دونوں گروپوں میں سے ایک صدرا ور دوسرا جنرل سیکریٹری ہو تا تھا 24مئی1974کے سابق ربوہ اور حال چناب نگر کے ریلوے سٹیشن پر نشتر کالج ملتان کے طلباء کو قادیانی لٹریچر کی تقسیم پر طلباء نے انہیں راقم کا لکھا ہو ا پمفلٹ “آئینہ مرزائیت”سے ان کی ہی کتابوں کے اقتباسات پڑھ کر سنائے تو مرزائی بپھر گئے جھگڑا بڑھتا جا رہا تھا کہ ٹرین چل پڑی طلباء کی سوات کی سیر سے 29مئی کو واپسی پر پورے ملک سے اکٹھے کیے گئے مرزائی نوجوانوں کے دستوںنے طلباء کی ٹرین بوگی پر حملہ کرکے 178 میں سے تقریباً 100طلباء کو شدید زخمی کر ڈالا جس پر پورے ملک میں تحفظ ختم نبوت کی تحریک چل پڑی راقم نے خود دوران تحریک بھٹو صاحب کومرزائیوں کی کتب سے اشتعال انگیز تحریر یں دکھائیں تو وہ سخت سٹپٹائے اور ثواب کی نیت سے پمفلٹ آئینہ مرزائیت کو تمام ممبران اسمبلی تک پہنچایا ۔7ستمبر1974کو قومی اسمبلی کی مشترکہ قرار داد کے ذریعے قادیانی ناسوروں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے ڈالا گیا مگر قادیانیوں نے اس فیصلہ کو آج تک تسلیم نہیں کیا حتیٰ کہ اپنے ووٹ تک بھی غیر مسلم اقلیتوں میں درج نہیں کروائے مسلسل سازشوں میں مصروف رہتے ہیں اور مغربی آقائوں کے پاس چیخ و پکار کہ ا ن پر یہاں بڑا ظلم ہو رہا ہے۔
گذشتہ دنوں قادیانی اورقادیانی نواز گھس بیٹھئیوں نے جان بوجھ کرقومی اسمبلی میں پیش کردہ آئینی ترمیم میں اپنی ناپاک خواہشات کو گھسسیڑ کر اور کتر بیونت کے ذریعے عقیدہ ختم نبوت کو متنازعہ بنانے کی ناکام و ناپاک کوشش کی مگر چوری سے قبل ہی رنگے ہا تھوں پکڑے گئے اب حکمران اور اپوزیشنی ممبران لاکھ تاویلیں کرتے پھریں جن ملعون افراد نے نبی اکرم ۖ کی ناموس رسالت کو بٹہ لگانے کی خفیہ کوششیں کی ہیں ان کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزا دینا ہی قانونی اور آئینی تقاضا ہے شرعی قوانین کے مطابق تو واضح ہے کہ مرتدین اور زندیقین گردن زدنی ہی ٹھہریں گے سبھی مسالک فرقوں کے علماء ،صلحا، فقہاو مفتیان کرام اس پر متحد و متفق ہیں خلافت راشدہ کے دور میں جونہی فتنہ ٔ ارتداد پیدا ہواسبھی مرتدین کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا گیاخواہ اس میں کتنے ہی صحابہ کرام بمعہ سینکڑوں حفاظ کے شہادت پاگئے تھے اب راجہ ظفر الحق کی رپورٹ تو کئی دنوں کے دھرنا کے بعد مذہبی تنظیم کے حوالے کردی گئی ہے مگر مجرمین کب کیفر ِ کردار کو پہنچتے ہیں؟قوم منتظر ہے توہین رسالت کی مرتکبہ ملعونہ آسیہ بی بی سزائے موت کے فیصلے کے بعد بھی زندہ موجود پڑی ہے اور بعدا زاںسلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کبھی کے پھانسی کے پھندوں کو چوم کر شہادت پا چکے دوہرا معیار و حکومتی رویہ قطعاً مناسب نہ ہے پھر رانا ثناء اللہ نے جس طرح ان دنوں قادیانیوں کی وکالت کی مزید جو کلمات کفریہ ادا کیے وہ قابل بیان ہی نہ ہیں 57سال سے راقم اپوزیشنی سیاست کا کلاوہ گلے میں ڈالے ہوئے سب حکمرانوں کا ناقد ہے۔
آپ سے اللہ اکبر کا نام لیکر دست بستہ التجا کرتا ہے کہ اب بھی خدارا آپ کے وہ سب ساتھی / بیورو کریٹ وغیرہ جنہوں نے قومی اسمبلی میں پیش کردہ ترمیمی بل میں ختم نبوت کی شقوں کے خاتمے کی پلید ترین کوشش کی تھی انہیں ان کی اس غلطی پر نہیں بلکہ غلطان پر اپنے کیے گئے ارتدادی فعل پر دوزانوہی نہیں بلکہ مرغا بن کر صدق دل سے پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور خدائے عز و جل کے آگے توبہ و استغفار کریں اور مفتیان کرام کے سامنے اپنے ایسے حملے کی اصل وجوہ سے آگاہ کریں کہ یہ پلید حرکت کرنے کے لیے کس نے ان کو اشارہ کیا تھایا خود ہی “کارنامہ ” کرنے چلے تھے۔بچپن میں تو اساتذہ طلباء کو معمولی غلطیوں پر مرغا بنا ڈالا کرتے تھے اور اب کیا شرم ہے ؟اور جنہوں نے یہ ارتدادی حرکت اراداتاًکی ہے ان پر واقعی شرعی سزا نافذ ہونی چاہیے حکمران امتنائے قادیانیت ایکٹ پر عملدر آمد کو ہر صورت یقینی بنائیںکہ آئین میں عقیدہ ختم نبوت و ناموس رسالت کو تحفظ دیا گیا ہے اور یہ ان کی آئینی ذمہ داری بنتی ہے تب کہیں جا کر ن لیگ والوں کی جان چھوٹے گی وگرنہ ختم نبوت کے چور کے نعرے گونجتے رہیں گے پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی گیا وقت پھرہاتھ آتا نہیں۔