کھوجی ہمارے محلے کا ایک چلتا پر زہ قسم کا بندہ ہے جس کو اکثر محلہ دار دیوانہ سمجھتے ہیں ۔نام تو پتہ نہیں اس کا کیا ہے لیکن ہمیشہ اوروں کی کھوج میں رہنے کی عادت کی وجہ سے محلہ بھر میں کھوجی کے نام سے مشہور ہو گیا ہے بزات خود ہے تو بیکار سا بندہ مگر اس کی معلومات غضب کی ہوتی ہیں۔کوئی بھی سماجی مسئلہ ہو یا سیاسی گفتگو اس کو مستقبل بینی اور پیش گوئی میں عبور حاصل ہونے کا دعوا قابل غور ہے، کھوجی کہتا ہے کہ وہ سالوں سے عوامی سوچ اور ملکی سیاست پر ریسرچ کرتا پھر رہاہے،اُس کا کہنا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ کون سا سیاستداں کب پینترا بدلے گا ۔اور کونسے ترقیاتی کام کے زوال کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں۔
وہ اچھی طرح جانتا ہے ،بقول اُس کے اُسنے اپنی معلومات میں خاطرخواہ اضافہ جاری رکھنے کیلئے،مختلف ذرائع بنا رکھے ہیں،جنھیں وہ افشاں کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور ذرائع کے حوالے سے ذکر کرتے ہیںکہ اس ملک میں کرپشن پہلے طے ہوتی ہے اور ٹینڈر بعد میں بھرا جاتا ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح نوکریاں پہلے بانٹی جاتی ہیں اور انٹر ویوز بعد میں کیئے جاتے ہیں۔ بقول کھوجی کے یہ سب خانہ پریاں ہیں جوکہ سفید پوشی کے دعویدار اپنی ستر پوشی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔آفیسروں کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے کھوجی کو جہاں آفیسروں سے چڑ ہے وہاں ہمدردی کرتے بھی سنا گیا ہے۔
چڑ کے حوالے سے کھوجی کہتا ہے کہ یہ آفیسران خود ہی بہترطور پر سمجھتے ہیں میں اُن کاپردہ فاش نہیں کر رہا ۔البتہ ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آفیسران بیچارے بھی چھوٹے سیاستدانوں جیسے ہی ہیں جنھیں جہاں اپنے تبادلوں سے نفرت ہے وہیں اپنی کرُسی بھی بہت عزیز رہتی ہے،اور وہ اپنی کرُسی بچانے ، تبادلے روکوانے یا اپنی مخصوص جگہ تبادلہ کرانے کیلئے سیاسی روایتی دروازے سے آنے والے بڑے لوگوں کا حکم ماننا ہی پڑ تا ہے،اور اسی سبب وہ کوئی خاطر خواہ کارکردگی دکھانے قاصر ہی رہتے ہیں۔
کھوجی کہتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے کئی آفیسران کو روتے ہوئے ،سیخ پا ہوتے ہوئے اور غصے میں اپنی مٹھیاں بھینچتے ہوئے بارہا دیکھا ہے ۔اور ایسا اکثر اُس وقت ہوتا ہے جب کوئی آفیسر بہت مشکل سے اپنے ایمان کی جمع پونجی اکٹھی کرکے کسی عوام دشمن کے خلاف کاروائی عمل میں لانا شروع کرتا ہی ہے کہ عین اسی وقت عارضی وقت کے بڑے ٹھیکیداروں کی کالیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔جو مطلقہ آفیسر کو دھمکاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تم کیا حرکتیں کرتے پھر رہے ہو۔کیا تم نہیں جانتے کہ جس کے خلاف تم کاروائی کرنے لگے ہو وہ کس کا بندہ ہے (اللہ معاف کرے)اور تب اس آفیسر بچارے کی حالت دیکھنے جوگی ہوتی ہے۔
ابھی حال ہی میں ڈیرہ مراد جمالی کے عطائی ڈاکٹروں کے خلاف کیئے جانے والے آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے کھوجی نے بتلایا کہ جسے ہی عطائی ڈاکٹروں کے خلاف کاروائی شروع کی گئی تو جہاں ایک طرف عوام خوش ہونے لگی کہ چلو(دیر آید درُست آید )پر دوسری طرف سے کاروائی کرنے والے عملے کے فون نمبر ز پر مختلف شخصیات کے بچائوکالز کا جیسے سیلاب اُمنڈ آیا اور کہا جانے لگا کہ بھئی یہ کیا پاگل پن کررہے ہو؟ جانتے کہ ہم کون ہیںاور کیا کچھ کرسکتے ہیں ۔اور سنا گیا ہے کہ اُن کون کون میں محکمہ صحت کی نامور شخصیات سے لیکر پہنچے ہوئے سیاستدان کئی عوامی ہمدردی کے دعویداراور بااثر وڈیرے بھی قابل ذکر تھے۔
Hepatitis
کھوجی سے ان شخصیات کے نام پوچھنے پر انکار میں گردن ہلاتے ہوئے کہتا ہے کہ نا جی نا ۔میں خودمیں اتنی طاقت اس ڈر سے نہیں رکھتا کہ ہماری عدالتیں ثبوت مانگیں گی اور مطلقہ آفیسران بھی ایسی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہمیں تو ایسی کوئی کال موصول نہیں ہوئی تھی،کھوجی جھوٹ کہتا ہے۔یہ تو بس ہمیں شوق ہواتھا کہ چلو آج ان عطائی ڈاکٹروں کے ساتھ زرہ دل بہلالیں تھوڑی دیر پکڑدھکڑ کھیلنے کے بعد پھر سے اُنھیں آزاد کردیں۔ تاکہ وہ از سرنو لوگوں میں کھل کے ہیپاٹائیٹس ،ٹائیفائیڈ ،ٹی بی کے ساتھ ساتھ دیگر مہلک امراض بانٹ کے موت کی آسانی فراہم کرسیکں ۔اور دوسری بات یہ ہے کہ جن شخصیات نے فون کیئے تھے اگر ان کے نام ساتھ میرانام بھی آگیا تو عدالت سے نکلتے ہی اُن کی توپوں کا رخ میری طرف ہی ہوجانا ہے۔
تب میری مدد کرنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا ۔ہاں یہ اقدم میں تب کرتا جب ہمارے لوگ باشعور ہوتے ،پر یہاں تولوگ زہنی طور پر انتہائی بیمار ہیں۔اور اُن کے دل مردہ ہوچکے ہیں۔جو اپنے حق کے لئے بھی آوازاٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔لوگوں کی زہنی بیماری کے بارے میں کھوجی دلائل سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جو لوگ 5روپے کی چیز 50 روپے میں خریدیں اور چپ رہیں۔بیمار ،لاغر جانوروں کا گوشت اور گلی سڑی سبزی مہنگے داموں میں خرید کے کھائیں اور خاموش رہیں۔جوپانی جانوربھی پینا پسند نہ کریں وہی پانی خود بھی پیا کریں اوروں کو بھی پیتے دیکھیں اور پھر بھی خاموشی اختیار کیئے رکھیں ایسے لوگ زہنی بیمار نہیں تو اور کیا ہیں؟ہمارے ملک میں کب خوشحالی آئیگی؟اس بات پہ کھوجی اداس مسکراہٹ سے کہتا ہے کہ لگتا تو مشکل ہے کیونکہ ہماری عوام ناخواندہ ہے جن کے ذہنوں پر غلامانہ سوچھیں ہاوی ہیں۔
کوئی خاص شعور و آگہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ قابلیت کے بجائے موروثیت کو ووٹ دیتے ہیں ۔اور موروثی سیاستدان عوام کے دوست ہرگز نہیں ۔کھوجی کی متاثر کن گفتگو سے ازخود منہ نکل گیا کہ ماشاء اللہ آپ کی سوچ تو بہت گہری ہے ۔پھر بھی لوگ آپ کو دیوانہ سمجھتے ہیں ،ایسہ کیو ہے؟تو کھوجی نے خلاء میں گھورتے ہوئے پر اسرار مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ سودیوانوں میں ایک داناء بھی دیوانہ ہی شمار ہوتا ہے۔