تحریر : جنید رضا، کراچی جلیل القدر صحابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ عالم اسلام کی ان چندگنی چنی ہستیوں میں سے ایک ہے ،جن کے احسانات سے امّت مسلمہ سبکدوش نہیں ہو سکتی۔ آپ ان چند کبار صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو تاجدار مدینہ جناب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسلسل حاضری اور حق تعالی کی جانب سے نازل شدہ وحی لکھنے کا معزز و مقدس شرف حاصل ہوا ہے۔
آپ کا نام “معاویہ” اور کنیت “عبدالرحمن “ہے ،والد کا نام ،ابوسفیان اور والدہ ہندہ ہے ۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت مشہور قول کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال قبل ہوئی تھی ،آپ کا نسب مبارک پانچویں پشت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ کے والد سرداران قریش میں سے ہیں اور فتح مکہ کے موقع پر حضور ۖنے ان کے گھر کو بھی دارالامن قرار دیاتھا ۔سیدنا حضرت امیر معاویہ ضی اللہ تعالی عنہ سروقد، لحیم و شحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی، آنکھیں موٹی، گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شان و شوکت اور تمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع، فروتنی، حلم و بردباری اور چہرہ سے ذہانت و فطانت مترشح تھی۔مشہور روایت کے مطابق آپ فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد سیدنا حضرت ابوسفیان کے ہمراہ اسلام لائے تھے۔سیدنا حضرت امیر معاویہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورۖ نے انھیں مبارکباد دی اور مرحبا فرمایا(البدایہ والنہایہ 117/8)۔ سیدنا حضرت امیر معاویہ کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ کو اس حالت میں اٹھائیں گے کہ ان پر نورِ ایمان کی چادر ہو گی۔(کنزالعمال)۔ ایک موقعہ پرحضرت امیر معاویہ کے بارے میں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!اے اللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا۔ (جامع ترمذی)۔تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپ کے کردار و کارناموں اور فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔خلاق عالم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مختلف صفات سے نوازا تھا،فراست اور سیاست آپ کی یکتا و لاثانی صفات میں سے ہیں،آپ کی زندگی میں بہت سے مواقع اور واقعات ایسے رونما ہوے ہیں جنکی رو سے آپ کی کامل واکمل فراست جھلکتی نظر آتی ہے۔
خلیفہ دوم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ خلافت میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر بنایا۔ ان کی گورنری حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی جاری رہی۔ ان کی شہادت کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ،تو تنازعات شروع ہوگئے ،حضرت معاویہ نے دست برداری قبول نہ کی، اس کے نتیجے میں ان کی اور حضرت علی کی فوجوں کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی ،یہ چیز تاریخ کا حصہ ہے، جس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ اس زمانے میں عیسائی رومی بڑی فوجی طاقت رکھتے تھے ،مسلمانوں سے ان کے متعدد معرکے ہوچکے تھے، جن میں انھیں مسلم فوجوں کی طرف سے زبردست جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا ،رومی حکم ران نے مسلمانوں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا، اسے یہ بہت موزوں موقع لگا کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی حمایت کرکے دوسرے گروہ کی کمر توڑ دے، پھر دوسرے گروہ سے بھی نمٹ لے۔ اس طرح مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی طاقت کا صفایا کرکے اپنا مستقبل محفوظ کرلے گئے۔ اس نے ایک بڑی فوج مسلم حدودِ مملکت کی طرف روانہ کی اور حضرت معاویہ کویہ لکھا :”مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اور علی کے درمیان جنگ برپا ہے۔
میری نظر میں آپ خلافت کے زیادہ مستحق ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی مدد کے لیے ایسی فوج بھیج دوں جو علی کو شکستِ فاش دے دے۔ ” حضرت معاویہ اپنی مومنانہ فراست سے قیصرِ روم کا مکر بھانپ گئے۔ انھوں نے انتہائی تلخ لہجے میں اسے جواب دیا:”علی اور میں دونوں بھائی ہیں۔ ہمارے درمیان بعض معاملات میں اختلافات ہیں۔ لیکن اے لعین! اسلامی سرحدوں کی طرف بری نظر سے دیکھنے کی جرت نہ کرنا۔ اگر تو اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور اپنی فوج واپس نہ بلائی تو اللہ کی قسم، میں اپنے چچا زاد بھائی(علی)سے صلح کرلوں گا، پھر ہم دونوں مل کر تجھے تیرے علاقوں سے بھی نکال باہر کریں گے اور روئے زمین کواس کی وسعت کے باوجودتجھ پر تنگ کر دیں گے۔ “(البدای و النہای، ابن کثیر، دار ابن کثیر، بیروت، 2010، 8/173)۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اس احسن فیصلہ سے ان کی فراست بخوبی واضح ہوتی نظر آرہی ہے۔
مخالفین بنو امیہ میں سب سے زیادہ منظم اور خطرناک گروہ خوارج کا تھا۔ امیر معاویہ کے تخت نشین ہونے کے فورا بعد 661ھ میں ایک خارجی فسردہ بن نوفل نے کوفہ کے قریب علم بغاوت بلند کیا۔ سرکاری افواج ان کے عزم و ہمت کا مقابلہ نہ کر سکیں اور شکست کھانے پر مجبور ہوئیں ۔حضرت امیر معاویہ نے اس بغاوت کے لیے اہل کوفہ کو ذمہ دار سمجھتے ہوئے انہیں تنبیہ کی کہ اگر انہوں نے فسردہ کو گرفتار کرکے حکومت کے سپرد نہ کیا تو انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس دھمکی کا اثریہ ہواکہ کوفیوں نے فسردہ کو گرفتار کرا دیا ،لیکن خوارج نے اس کے باوجود عبداللہ بن ابی الحوسا کی زیر سرکردگی اپنی جدوجہد کو بدستور جاری رکھا،حضرت امیر معاویہ نے کوفہ میں خوارج کی سرگرمیوں کے تدارک کے لیے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا۔ مغیرہ مسلسل ایک برس تک ان کے خلاف برسرپیکار رہے۔ اسی دوران خوارج نے عید کے دن عین حالت نماز میں اچانک حملہ کرنے کی سازش کی، لیکن بروقت علم ہو جانے کی وجہ سے مغیرہ نے ان کے عزائم کو ناکام بنا دیا۔ مغیرہ کی زبردست کوششوں کے نتیجہ کے طور پر خوارج کو دوبارہ سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی اور ان کے راہنما مارے گئے ۔کوفہ کے بعد خوارج کا دوسرا مرکز بصرہ تھا۔ بصرہ کے خوارج کی سرکوبی کے لیے زیاد بن ابیہ کو بصرہ کی ولایت سپرد کی گئی۔ زیاد بن ابیہ نے اہل بصرہ کے جذبہ خودسری کو کچل دیا۔ اس کی سخت گیری اور تشدد کی بدولت تمام عراق میں امن و امان قائم ہوا۔ مغیرہ کی وفات کے بعد کوفہ کی ولایت بھی اس کے سپرد کر دی گئی۔اس طرح حضرت امیر معاویہ نے بالخصوص خوارج کی اوربالعموم تمام کفار کی سرکوبی کے لئے آپنی فراست کا اہم کردار ادا کیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک مسلمان کو گرفتار کرکے (رومیوں کے پایہ تخت) قسطنطنیہ میں پہنچا دیا گیا ۔ اس مسلمان نے رومی بادشاہ کے سامنے جرات کے ساتھ بات کی تو سپہ سالار نے اسے تھپڑ مار دیا اس قریشی قیدی کی زبان سے نکلا۔اے معاویہ ہمارا اور آپ کا فیصلہ اللہ تعالی کرے گا آپ ہمارے امیر ہیں اور ہم اس طرح سے ضائع کئے جا رہے ہیں، یہ بات جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فدیہ بھجوا کر اس قیدی کو آزاد کروا لیا اور اس سے اس رومی سپہ سالار کا نام پوچھ لیا جس نے اسے تھپڑ مارا تھا ،پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بہت زیادہ غور فکر کے بعد اپنے ایک نہایت معتمد اور صاحب فراست اور تجربہ کار عسکری قائد کو اس کام کے لیے منتخب فرمایا اور اسے کہا تم کسی تدبیر سے اس سپہ سالار کو پکڑ کر لے آئو، اس قائد نے کہا:اس کے لیے میں پہلے ایک ایسی کشتی بنانا چاہتا ہوں جس کے چپو خفیہ ہوں اور وہ بے حد تیز رفتار ہو ۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمھیں جو سمجھ آئے وہ کرو اور آپ نے اسے ہر طرح کے اسباب فراہم کرنیکا حکم جاری فرما دیا ،جب کشتی تیار ہو گئی تو آپ نے اسے بے شمار مال و دولت اور تحفے تحائف دیکر فرمایا کہ تم ایک تاجر بن کر قسطنطنیہ جائو اور کچھ تجارت کرنے کے بعد بادشاہ کے وزیروں سپہ سالاروں اور خصوصی درباریوں کو تحفے تحائف دینا ،مگر اس سپہ سالار کو کچھ نہ دینا جب وہ تم سے شکوہ کرے تو کہنا کہ میں آپ کو نہیں پہچانتا تھا اب میں نے آپ کو پہچانا ہے تو اگلی بار آپ کے شایان شان تحفے لے آئونگا فی الحال تو آپ کے مناسب میرے پاس کچھ نہیں بچا۔ چنانچہ اس قائد نے ایساہی کیا۔
اس کے بعد وہ قائد واپس آگیا اور اس نے پوری کار گزاری حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو سنائی،آپ نے پہلے سے کئی گناہ زیادہ مال و دولت ا دیکر اسے کہا کہ روم واپس جا دوسروں کے ساتھ اس سپہ سالار کو بھی تحفے دینا اور واپسی کے وقت اسے کہنا کہ میں تم سے خصوصی مگر خفیہ دوستی رکھنا چاہتا ہوں ،تمھیں جو چیز ضرورت ہو مجھے بتا دو میں تمھارے لیے لے آئونگا تاکہ پہلے والی کمی کی تلاافی ہوسکے، اس سپہ سالار نے ایک رنگ برنگی منقش ریشمی چادر کی فرمائش کی اور اس کی لمبائی چوڑائی بھی بتائی وہ قائد جب واپس آیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مطلوبہ چادر تیار کروانے کا حکم دیا اور ایسی چادر تیار کروائی جسے دیکھنے والے حیران رہ جاتے تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ چادر اسے دیکر فرمایا کہ جب قسطنطنیہ کے ساحل کے قریب پہنچنا تو اس چادر کو کشتی کے اوپر بچھا دینا اور اسے کسی طرح اپنی کشتی پر بلوا لینا جب وہ آجائے تو اسے یہ چادر اور دوسرے تحفے دے کر باتوں میں لگا دینا اور اپنے ساتھیوں کو حکم دے دینا کہ وہ خفیہ چپو چلا کر کشتی کو کھلے سمندر میں لے آئیں وہاں آکر کشتی کے بادبان کھول لینا اور سپہ سالار کو باندھ کر میرے پاس لے آنا ۔ عسکری قائد چادر لے کر روانہ ہو گیا رومی سپہ سالار کو جب کشتی کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ اسے دیکھنے کے لیے نکل آیا، جب اس نے وہ ریشمی چادر دیکھی تو اس کی عقل اڑ گئی اور وہ خود اس کشتی پر جاپہنچا ۔ خفیہ چپو چل رہے تھے اور رومی کو کچھ پتہ نہیں تھا جب کشتی کے بادبان کھلے تو اس نے حیرانی سے پوچھا یہ کیا ہوا ؟مسلمانوں نے اسے اس کے ساتھیوں سمیت باندھ دیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آئے آپ رضی اللہ عنہ نے اس قریشی مسلمان کو بلوایا اور فرمایا کیا اس نے تمہیں تھپڑ مارا تھا ؟اس نے کہا ہاں: فرمایا اٹھو، اور ویساہی تھپڑ تم بھی مار لو ،مگر اس سے زیادہ نہیں۔ قریشی نے اٹھ کر تھپڑ مار دیا۔ تو آپ نے عسکری قائد سے کہا کہ اب اس رومی کو وہ چادر دے کر واپس چھوڑ آئو اور اس رومی سے کہا کہ اپنے بادشاہ کو کہہ دو کہ مسلمانوں کا خلیفہ اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ تمھارے تخت پر بیٹھنے والے تمہارے سپہ سالاروں اور سرداروں سے اپنے کسی مسلمان کا بدلہ لے سکے۔
جب کشتی والے اسے لیکر قسطنطنیہ پہنچے تو دیکھا کہ رومیوں نے ساحل پر حفاظتی زنجیریں لگا دی ہیں چنانچہ انہوں نے اس رومی سپہ سالار کو وہیں پھینکا اور اسے چادر بھی دے دی ۔جب یہ واقعہ رومی بادشاہ تک پہنچا تو اس کے دل میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و ہیبت اور زیادہ بڑھ گئی ۔(تاریخ قرطبی) اس واقعے کے ذریعے بھی آپ کی کامل واکمل فراست جھلکتی نظر آتی ہے کہ کس احسن انداز میں آپ نے رومی سپہ سالارکو روم سے منگوایا اور اس مسلمان کا حق ادا کرکے بارگاہ الہی میں اور تمام اہل دنیا کو ایک اچھے حاکم ہونے کی صفات کا درس دیا۔
پیکرسیاست : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی منفرد صفات میں سے دوسری صفت پیکر سیاست ہونا ہے، سن 41ھ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے بیعت فرماجانے کے بعد تمام امت امسلمہ آپ کے دست مبارک پر بیعت ہوئی اور آپ کے دور خلافت کا آغاز ہوا۔ سیدنا امیر معاویہ کا عہد خلافت جدید دور کے مسلمانوں کے لئے نعمت عظمی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ آپ کا عہد خلافت رخصت و عزیمت جیسی نعمت سے سرفراز ہے قدرت نے اس صحابی رسول کے عہد خلافت کو رخصت و عزیمت سے مزین کر کے مسلمانوں کو ہر ترقی یافتہ دور میں جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہو ئے خلافت اسلامیہ قائم کرنے راستہ فراہم کیا ہے۔
آپ نے اسلامی مملکت اور نظام حکومت کو فاروقی بنیادوں پر استوار کیا اوراپنی بے مثال پالیسی کے تحت امور مملکت سرانجام دیتے ہوئے مملکت اسلامیہ کو نمایاں طورپر یک جہتی بخشی ،آپ کا بطور حکم ران رعایا سے بہترین حسن و سلوک اور رعایا کی آپ سے محبت ضرب المثل تھی، جس کی بدولت آپ نے چونسٹھ لاکھ مربع میل زمین (نصف دنیا) پراسلامی حکومت قائم فرمائی۔ قبرص، روڈس، صقیلہ اورسوڈان جیسے اہم ممالک آپ کے دور حکومت میں اسلامی جھنڈے کے ماتحت آئے۔
حضرت امیر معاویہ کے دورخلافت میں بحری لڑائیاں عروج پرتھی اورجس قدر بحری لڑائیاں آپ کے دورخلافت میں لڑی گئیں ان کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی ۔آپ نے تاریخ اسلام کا سب سے بڑا بحری بیڑہ جوسات سو بحری جہازوں پرمشتمل تھا جب دریا میں ڈالا توپاپائے روم اس سے لرز اٹھا۔پاسبان صحابہ برطانیہ کے رہنمائوں نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ کس قدر احسان فراموشی اورمحسن کشی کی بات ہے کہ سمندری سرگرمیوں اورکارناموں پراعزازی نشانات اورانعامی تمغات کے سلسلہ میں بانی اسلامیہ بحریہ محسن اسلام سیدنا امیر معاویہ کو یکسر فراموش و نظرانداز کردیاجاتا ہے۔
“حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورخلافت کی خدمات جلیلہ” (١) آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی )سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔ 2) )آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپنے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔
3)) مردم شماری کیلئے باقاعدہ محکمہ قائم کیا ۔ 4)) بیت اللہ شریف کی خدمت کیلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔ 5)) تمام قدیم مساجد کی ازسرنو تعمیر ومرمت ،توسیع وتجدید او رتزئین وآرائش کی ۔ 6)) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔ 7)) نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔ 8)) نئے شہر آباد کئے اور نو آبادیاتی نظام متعارف کرایا ۔ 9)) خط دیوانی ایجاد کیا اور قوم کو الفاظ کی صورتمیں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔ 10) ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔ 11)) احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ 12)) عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کی اور اس کو مزیدترقی دی ۔ 13)) آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔ 14)) آپ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کئے۔ 15)) سرحدوں کی حفاظت کیلئے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔ 16)) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔ 17)) مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔ 18))بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج ( نیوی )کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔ 19)) جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کی اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔ 20)) قلعے بنائے ، فوجی چھانیاں قائم کی اور دارالضرب کے نام سے شعبہ قائم کیا۔
21)) امن عامہ برقرار رکھنے کیلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انتہائی احسن انداز میں آدھی دنیا پر حکمرانی کرکے ایک مثال قائم کی،جسے رہتی دنیا یاد رکھے گی۔ 19سال کے قلیل عرصے میں 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔
آج بھی اگر کوئی مملکت اپنے وطن کو امن وامان کا گہوار اور اسلامی قلعہ بنانا چاہتی ہے تو ان حضرات کے اصول ونقش قدم پر چلنا پڑے گا،ان کے ضوابط اپنے پر لاگو کرنے پڑے گے ۔اللہ تعالی سے دعا گوہوں کہ رب لم یزل ہمیں ان مقدّس شخصیات کے نقش قدم پرچلنے کی اور اپنے وجود کو ان حضرات کے اصولوں پر پورا اتارنے کی توفیق عطا فرمایئے۔آمین
Junaid Raza
تحریر : جنید رضا، کراچی جنید رضا : متعلم ,جامعہ بنوریہ عالمیہ، سائٹ کراچی ای میل ایڈریس:junaid53156@gmail.com فون نمبر:0310-2238341