سیاہ ست مفادات کا کھیل

Politics

Politics

تحریر : شاہ بانو میر

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ شب آخر
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

سورت الفجر 15
مگر
انسان ( عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے
کہ
اس کو عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے
تو
کہتا ہے
کہ
(آہا) مجھے میرے رب نے عزت بخشی
اور
جب (دوسری طرح ) آزماتا ہے
کہ
اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے
تو کہتا ہے
کہ
(ہائے )
میرے پروردگار نے مجھے زلیل کیا
سیاہ ست مفادات کا بین القوامی کھیل ہے
حالیہ الیکشن مکمل ہوئے اور نتیجے کی صورت میں نیا پاکستان سامنے آگیا
نیا پنڈورا باکس بھی کھل گیا
اپوزیشن کا نتائج کو ماننے سے انکار
لیکن
ایسے دور میں جب ہر شعبہ میں سیاست نامی ڈائن گھات لگائے بیٹھی ہے
سیاست کا نام سیاہ ست ہو گیا
تو
کہاں ہیں ایسے ماں کے لعل جو اس دورِ سیاہ ست میں مخلص ہو کر مل کر تحریک چلا سکیں؟
ہر جماعت کا ہر سیاہ سیاستدان اس وقت ملک کے مفاد میں نہیں پارٹی اور اس کے بعد ذاتی مفاد کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے
حکومت وہ”” مہر””ہے جس کیلئے الیکشن کروائے جاتے ہیں
جسے جیت مل گئی اس پر”” مہر”” لگ گئی
اب آگے چلیں
الیکشن کے نتائج خاص طور سے موجودہ الیکشن کے نتائج اگر کسی کی خام خیالی ہے
کہ
تحریک کی صورت یا دھرنوں کی صورت بدلوائے جا سکتے ہیں
تو
یاد رکھیں
ایسا نہیں ہونے والا
بات محض سیاہ ستدانوں کی ہوتی تو”” پیچا”” ڈالا جا سکتا تھا
لیکن ٌ
گزشتہ 5 سال کے غیر سیاسی غیر سنجیدہ شور شرابے مستقبل کیلئے درد سر بننے والے ہیں
سیاسی مخالفین کی جانب سے ایسی جارحانہ سیاسی اننگ کھیلتے پہلی بار سب نے دیکھا
ماضی میں ہر وہ جہت آزمائی گئی جس سے سابقہ حکومت کا دور جامد ہو کر رک جائے
اس وقت بھی بار بار لکھ رہی تھی
کہ
اس ملک پر عوام پر رحم کھائیں اپنی سیاہ ست کو زندہ رکھنے کیلئے عوام کی ترقی کا راستہ نہ روکیں
مگر
تیز رفتار ترقیاتی کاموں سے خوفزدہ اس جماعت نے مسلسل اودھم مچائے رکھا
آج
پاکستان میں سیاہ ست وہ طوائف بن گئی جس کے پیچھے خود شہر کے شرفاء دل کھول کر پیسہ لٹاتے ہیں
پہلے
عوام کا خون پسینہ چوس کر ان کی ہڈیوں کا گودا نکال کر امیر بنتے ہیں
پھر
دولت کو حاصل کر کے سیاہ ست میں داخل ہوتے ہیں
اور
دولت کی چمک دمک اور نمائش سے ذہنی غلاموں کی منڈی سجاتا ہے
ذہنی غلام اپنے رب سے دور ہونے کی سزا اسی طرح پاتے ہیں کہ
ان کے سحر میں جکڑ کر انہی کو نعوز باللہ پوجتے ہیں
کہ
ان کیلئے ان کیلیۓ جان مال گھر بار لٹا دیتے ہیں
اور
یہ زمینی خُدا دور کہیں تنہائی میں ان سادہ لوح لوگوں کی سادگی پر ہنستے ہیں
کہ
جو ان کے گناہوں لغزشوں کو دیکھتے ہوئے بھی صرف اور صرف اپنی پرستش کو منوانے کیلئے
انہیں ہر طرح سے جتوانے کا اہتمام کرتے ہیں
الیکشن 2018 ہوئے پھر زمینی خُداؤں کی منڈی سجی
پھر وہی کہرام مچا
ایک طرف جیتنے والوں کی خوشی اور جشن ہے تو دوسری جانب ہارنے پر سیاہ ست کی فاتحہ کے بعد اب قل ہونے جا رہے ہیں؟
قوم کو اس ڈائن سیاہ ست نے دو گروہوں میں ظالمانہ انداز میں نفرت سے تقسیم کر دیا
مہذب قومیں الیکشن اور سیاسی قائدین کو ذہنوں پر مسلط کر کے ان کی پرستش نہیں کرتیں
ان کے پاس عوام کو مزید سہولتیں دینے کے لا تعداد منصوبے موجود ہیں جن پر انہیں سوچنا ہے کام کرنا ہے
پڑہی لکھی قومیں سوچ سمجھ کر پرکھ کرووٹ دیتے ہیں
ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنے اپنے کاموں پر روانہ ہو جاتے ہیں
دوسری جانب وطن عزیز میں الیکشن سیاہ ستدانوں کا دنگل بنا دیا جاتا ہے
زندگی تھم جاتی ہے انہی ناخداؤں کے گرد قوم کا جنون جوش دیوانگی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے
خُدارا
اپنا ایمان جگائیں
اپنے دل میں دماغ میں صرف اپنے خالق مالک کو بسائیں
ان سیاہ ستدانوں کو ان کے دائرے میں رکھیں
اپنی صلاحیتیں اپنی قابلیتیں اس قوم پر اپنی امت پر استعمال کریں
جیت یا ہار زندگی چلنے یا رکنے کا عنوان نہیں
جاگیں
قرآن کھولیں
حدیث پڑہیں
اپنے ایمان کے مردہ سوتے زندہ کریں اور اپنے اصل معبود کو پہچان کر
جھک جائیں اس کے آگے
قرآن کا ترجمہ پڑہیں طاقت کا ٹانک ہے ٌکسی غم کو کسی نا امیدی کو دل میں ٹکنے ہی نہیں دیتا
شکست کو ذہن نہیں قبول کرتا
خامیاں تلاش کر کے اپنی اصلاح کی دعوت دیتا ہے
یہی کامیابی کا راز ہے اگر آپ اگلی بار کامیابی چاہتے ہیں
منہ سے توکل کا نعرہ نہ لگائیں عملی ثبوت دیں
اصل مومن کبھی مایوس ناکام نہیں ہوتا
پختہ ایمان سے انسان ذہن کو کامیاب کر لے
اس ذہن کی کامیابی کبھی انسان کو ناکام نہیں ہونے دیتی
ہارنے والے خندہ پیشانی سے ہار کو قبول کر کے مثبت طرز عمل سے اس قوم کیلئے راستہ دیں
ہارنے کے بعد یہ مایوس رویے آخر کب تک ایسے ہی چلیں گے؟
جمہوریت کا حسن ہے کہ
ایک پاؤں آگے اور دوسرا پیچھے
نہ آگے والے کو فخر ہے کہ وہ آگے ہے
اور
نہ پیچھے والے کو تاسف شرمندگی کہ وہ پیچھے ہے
اس لئے کہ
اگلے مرحلے میں پچھلے پاؤں نے آگے آ جانا ہے
یہی جمہوریت ہے
کبھی کے دن اچھے کبھی کی راتیں
عوام کا کام ووٹ کی پرچی ڈال کر منتخب کرنا ہے
انتخاب ہوگیا
اب جمہوری روایات کو مضبوط کریں اور برداشت کرنے کی کوشش کریں
نئی حکومت کے مینڈیٹ کو تسلیم کر کے زندگی کے اس دور کو بھی خوش دلی سے قبول کر کے
مثبت رویے اور عمدہ طرز عمل سے عوام کو اپنا کام کر کے دکھائیں
تبدیلی کا نعرہ 22 سال تک فضاؤں میں گونجتا رہا
اب اسے عملی طور پے نافذ ہونے کا ایک موقعہ ضرور دیں
کپتان کی ٹیم پر اعتماد کریں اور ان کی نئی پالیسیوں پر نظر رکھیں
عوام کو سکون سے دال روٹی کا بندوبست کرنے دیں
ملک کو بحرانی کیفیت سے دوچار کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کا راستہ لیں
اور
وہاں جا کر آئینی جنگ لڑیں
سڑکوں کو جنگ کا میدان نہ بنائیں
سیاہ ست میں مشترکہ حکمت عملی سے موجودہ الیکشن کو مسترد کرنے تحریک ناکام ثابت ہوگی
ہارنے والے جیتنے والے 2 گروہوں میں تقسیم ہیں
جو جیت گئے وہ ایوان میں پہنچنے کے خواہش مند ہوں گے
وہ حلف اٹھا کر اپنے احتجاج کو ریکارڈ پر لائیں گے
مثبت پختہ ذہن جمہوری انداز یہی ہے
مگر
جو ہارے گئے ان کی سوچ ہے کہ انہیں یہ پارلیمنٹ کسی طور قبول نہیں
“”ضد برائے ضد کا متحمل یہ ملک اب نہیں ہو سکتا””
اس لئے رویے جارحانہ نہیں معاندانہ ہونے چاہیے
کامیابی کی کوئی روشن امید ہو تو یہ ایکسرسائیز کر لینی چاہیے
مگر
آپ کے ساتھ سوائے خود آپ کے اور آپ کے سپورٹرز کے اور کسی کی مدد شامل نہیں
سیاہ ستدانوں کو مقدمات اور دیگر جرائم میں ایسے الجھا دیا گیا ہے
سیاہ ست ہمیشہ سے مفادات کا کھیل ہے جس میں ہر کسی کی حریص نگاہ صرف اپنے لئے فائدہ اٹھانا ہے
اس وقت ہر سیاسی جماعت ذہنی طور پر سیاسی ضعف کا شکار ہے یہ کامیاب حکمت عملی ہے جیتنے والوں کی
اسی لئے جیتنے والوں کیلئے میدان صاف ہے
ہر طرف مظاہرہ ضرور ہے مگر اندر جان نہیں ہے
حد تو یہ ہے کہ
آزادی رائے کا احترام کرنے والے بڑے بڑے نامور صحافی خاموش ہیں
جو حق رائے کیلئے ہمیشہ مجاہد بنے
آج
ان کی بھی خاموشی جیتنے والوں کو تقویت فراہم کر رہی ہے
جیسے
خاموش زبان سے کہ رہے ہوں کہ
تبدیلی آ نہیں رہی
تبدیلی آگئی ہے
بغض عداوت نفرت انتقام سب چھوڑ کر اللہ کے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم کریں
ملک کو گزشتہ 5 سالوں کی طرح جامد نہ کریں
بلکہ
آئیے مل کر پاکستان کے استحکام کی خاطر نئی قیادت کا دل سے ساتھ دیں
تعمیر وطن کریں
عزم عالیشان کی خاطر
پیارے پاکستان کی خاطر

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر