اتنی بھی بَد مزاجی ہر لحظہ میر تم کو اُلجھاؤ ہے زمیں سے ، جھگڑا ہے آسماں سے
شعروسخن میں تو شاید ایک حد تک بَدلحاظی و بَدمزاجی قابلِ قبول ہو لیکن سیاست میں ہرگز نہیں۔ ہمارا المیہ مگریہ کہ ہماری سیاست میں بَد لحاظی بدرجۂ اتم۔ جس کے بانی بلاشبہ ہمارے انتہائی محترم خانِ اعظم جواپوزیشن سے ہاتھ تک ملانے کو تیار نہیں۔ اُن کی ضِد، انانیت اور نرگسیت کے قصّے سرِعام مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنے مفادات کو اوّلیت نہ دیتے ہوں۔ جہاں جھکنے کی ضرورت ہو، وہ ”لَم لیٹ” ہو جاتے ہیں۔ جس ایم کیو ایم کے خلاف وہ ساری زندگی ”ہتھیاربند” رہے، وہ آج اتحادی۔جسے وہ اپنا چوکیدارتک رکھنے کو تیار نہ تھے، آج اُن کے پہلومیں۔ کل کی ”قاتل لیگ” آج کی ”قابل لیگ”۔ آسمان کے فرشتے تلاش کرتے کرتے پیپلزپارٹی، نوازلیگ اور قاف لیگ سے ایسے ”موتی” نکال لائے جنہیں اِن سیاسی جماعتوں نے نکالایا وہ ہواؤں کا رُخ دیکھ کر خود نکل گئے۔ پاؤ صدی پرانی تحریکِ انصاف مفقودالخبر۔ اِس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ خانِ اعظم اصولی سیاست کرنے والے ہیں۔ ویسے بھی جو شخص اپنے ”یوٹرنوں” پر فخر کرتاہو، اُسے بااصول کیسے کہا جا سکتا ہے؟۔
کہا جاتا ہے کہ اگر خانِ اعظم کو اچھے وزیرومشیر مل جاتے تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیتے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اُنہیں سارے جہان کے افلاطون اورارسطو بھی مل جاتے تو پھر بھی اُن کے شیخ چِلّی جیسے منصوبوں پر عملدرآمد ناممکن ہوتا۔ ویسے بھی ”کند ہم جنس باہم جنس پرواز” خانِ اعظم کی نگاہِ انتخاب اُنہی لوگوں پر پڑی جنہیں وہ اپنے جیسا یا تھوڑا کم تر سمجھتے تھے۔ شیخ رشید، فیصل واوڈا مراد سعید اورفیاض چوہان جیسے بَدلحاظ وبَدمزاج لوگ اُن کے منظورِنظر۔ یوں تو فوادچودھری اور بابراعوان بھی کسی سے کم نہیںلیکن اُن کی زبان ذرا سلجھی ہوئی۔خانِ اعظم کے ہاں ایسے وزیرومشیر بھی پائے جاتے ہیں جنہیں ”قومی انٹرٹینمنٹ” کے لیے رکھا گیا ہے۔ فردوس عاشق اعوان المعروف ماسی مصیبتے یہ فریضہ بطریقِ احسن سرانجام دیتے دیتے گھر سدھاریں۔ دروغ بَر گردنِ راوی ماسی مصیبتے ”انکشافات” کی پوٹلی سَر پر اُٹھائے دَربدر۔ اگر کسی سیاسی جماعت نے گھاس ڈالی تو وہ انکشافات کی یہ پوٹلی کھولنے کے لیے بیقرار۔ قومی انٹرٹینمنٹ کے لیے ماحولیاتی تبدیلی کی وزیر زرتاج گُل بھی کسی سے کم نہیں۔ کچھ لوگ اُنہیں وزیرِماحولیات کی بجائے ”وزیرِمخولیات” بھی کہتے ہیں۔ زرتاج گل کی یہ خوبی تو ہمیں بہت پسند ہے کہ وہ چاچا غالب کی طرح قنوطیت میں بھی رجائیت کا پہلو نکال لیتی ہے۔ چاچا غالب نے کہا
اِن آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر
زرتاج گل کہتی ہے ”اِن ڈائریکٹ اُس کی وزارت کو کورونا کی وجہ سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ ماحول اچھاہوا اور ایئرکوالٹی بھی بہتر ہوگئی”۔ زرتاج گل کی ”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی”۔ اِس ایئرکوالٹی کی بہتری اب تک 4 ہزار سے زائد انسانوں کا خون چوس چکی اور ہیلتھ پروفیشنلز کہتے ہیں کہ اگر صورتِ حال یہی رہی تو کورونا پاکستان کے 40 لاکھ انسانوں تک پھیل جائے گااور 80 ہزار اموات کا خدشہ ہے۔ زرتاج گل کو نوید ہو کہ اگست تک اُن کی وزارت کی ایئر کوالٹی ”بہترین” ہونے والی ہے۔ زرتاج گل نے کہا ”کورونا کو کووڈ ۔19 اِس لئے کہا جاتا ہے کہ اِس کے 19 پوائنٹس ہیںجو کسی بھی ملک میں کسی بھی طرح اپلائی ہو سکتے ہیں”۔ جب سے زرتاج گل کا یہ ارسطوانہ انکشاف سامنے آیاہے ہم ڈبلیو ایچ او پر ”تبرہ” بھیج رہے ہیں جس نے کہا کہ کووڈ 19 سے مراد یہ کہ کورونا وائرس 2019ء میں سامنے آیا۔ جب زرتاج گل کایہ بیان سامنے آیاتو سوشل میڈیا لطیفوں سے بھرگیا۔ زرتاج گل کے عظیم لیڈر نے کہا ”کورونا بَس ایک فلو ہے جو چند دنوں میں ختم ہو جائے گا”۔ اب زرتاج گل نے اِس پر سوال اُٹھادیا۔ خان نے اپنے بیان پریوٹرن لے لیا اور اب وہ ہروقت قوم کو ”یرکاتے” رہتے ہیں۔
زرتاج گل نے کہا ”اِس دفعہ زیادہ مقدار میں برف باری اور زیادہ بارشوں کا کریڈٹ بھی عمران خاں کو جاتا ہے۔وہ چونکہ طبقۂ نسواں سے تعلق رکھتی ہے اِس لیے ہمیں اُس سے ہمدردی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کلاں اگر سیلاب آجائے تو وہ رواروی میںاُس کی تباہ کاریوں کا کریڈٹ بھی عمران خاں کو دے دے اور ماسی مصیبتے کی طرح اُس کی بھی چھٹی ہو جائے، اِس لیے ذرا بچ کے۔خان کی ”کلرسمائل” (قاتل مسکراہٹ) پر فِدا زرتاج گل نے کہا ”عین بحران میں جس انداز سے وہ چل کر آتے ہیں، اُن کی کلرسمائل سے ہم اپنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں”۔ زرتاج گل کے خیال میں کورونا بھی ڈینگی کی طرح اب ہر سال آیا کرے گا۔ پچھلے سال جب ڈینگی پھیلا تو بزرجمہروں نے کہا ”جب سردیاں آئیں گی تو ڈینگی خودبخود ختم ہو جائے گا”۔ غالباََ کورونا وائرس کے بارے میں بھی حکمران یہی سوچ رہے ہیں کہ بالآخر کورونا نے ختم تو ہونا ہی ہے البتہ جب کورونا ختم ہو جائے گا تو مرادسعیدکہے گا ”کورونا آئی، ہم نے بھگائی”۔ بزرجمہر اور بھی کئی مگر فی الحال وزیرِاعظم کا پارلیمنٹ میں خطاب۔
قوم کو نوید ہو کہ بالآخر خانِ اعظم کو پارلیمنٹ کا خیال آہی گیا۔ وہ 25 جون کو پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور بھرپور خطاب کے بعدغائب ہوگئے جس کا اپوزیشن نے بہت بُرا منایا۔ شاید وہ اپوزیشن کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں یا پھر وہ اپوزیشن کو اِس قابل ہی نہیں سمجھتے۔ قومی اسمبلی میںاُنہوں نے ایک دفعہ پھر یوٹرن لے لیا، صرف ایک دن پہلے اُنہوں نے اپنی کابینہ کو کارکردگی بہتر بنانے کے لیے 6 ماہ کا وقت دیاجبکہ اگلے ہی دن قومی اسمبلی کے فلور پر وزراء کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کر دیا۔ اُن کا دوسرا یوٹرن اسامہ بن لادن پر تھا جس پر اپوزیشن کی طرف سے تابڑتوڑ حملے بھی ہوئے۔ اُنہوں نے پہلے کہاکہ امریکیوں نے اسامہ بن لادن کو ماردیا لیکن پھر ساتھ ہی کہہ دیا ”شہید کردیا”۔ خانِ اعظم جب اقتدار میں نہیں تھے تو ہمیشہ اسامہ بن لادن کو شہید کہنے سے گریزاں رہے البتہ اِس قتل کو بے رحمانہ ضرور کہتے رہے۔
اُن کا اعتراض یہ بھی تھا کہ امریکہ کو اپنے اتحادی (پاکستان) کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔قائم مقام قائدِحزبِ اختلاف خواجہ آصف نے بھی دھواں دار تقریر کی اور اُس سے پہلے بلاول زرداری نے بار بار وزیرِاعظم کو ”سلیکٹڈ” کہا۔ بلاول نے کہا کہ اگر یہ ”الیکٹڈ” ہوتے تو کورونا سے مرنے والوں کا درد محسوس کرتے۔ خواجہ آصف کا زور اسامہ بن لادن کو شہید کہنے پر تھا۔ اُنہوںنے کہا کہ اسامہ بن لادن مسلمہ دہشت گردتھا جس نے پاکستان کو خونم خون کر دیا۔ بلاول اور خواجہ آصف، دونوں نے وزیرِاعظم کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ ظاہرہے کہ یہ چیلنج کبھی پورا نہیں ہوگا البتہ اپنی تقریر کے دوران وزیرِاعظم نے جو چیلنج دیااُس کے بخیے اُدھیڑے جارہے ہیں۔ اُنہوں نے چیلنج کیا کہ کوئی 13 مارچ سے اب تک اُن کے بیانات میں تضادڈھونڈ کے دکھادے۔ عرض ہے کہ پاکستان میں پہلا لاک ڈاؤن 23 مارچ کو ہوا جسے وہ باربار 13 مارچ کہہ رہے ہیں۔ ویسے 10 سے زائد تضادات تو ہم جیسے کج فہم بھی ڈھونڈلائے لیکن اِس کے لیے بھرپورکالم کی ضرورت۔
اسامہ بن لادن کو شہید کہہ کر خان نے تبصروںاور تجزیوں کا دَر وا کردیا ہے۔ بلاول کے ترجمان مصطفےٰ نوازکھوکھر نے کہا ”اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے کر عمران خاں سکیورٹی تھریٹ بن گئے ہیں۔ اگر اسامہ بن لادن شہیدہے تو پھر القائدہ کے حملوں میںمارے جانے والے عوام کیاہیں؟۔ فورسزکے شیہید ہونے والے جوانوںکے لواحقین کو کیا جواب دیں”۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی یہی شور سنائی دے رہاہے۔ اِس میں کوئی شک نہیںکہ وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجی جوانوںکو شہید کہنے کی بجائے اُن کے خلاف لڑنے والوںکو شہید کہنے سے دِل تو دُکھتے ہیں۔