تحریر: طارق حسین بٹ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل ہوتی ہیں۔ سیاست میں ذاتی مفادات ہوتے ہیں جن کے مطا بق کبھی کبھی دوستیاں دشمنی میں بدل جاتی ہے اور کبھی کبھی دشمنیاں دوستی میں ڈھل جاتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ عمران خان اور میاں محمد نواز شریف میں گاڑی چھنتی تھی اور دونوں پی پی پی کے خلاف متحد ہو کر مورچہ بند رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل پرویز مشرف ٢٠٠٨ کے انتخابات کو دھاندلی کے زور پر ہر قیمت پر جینا چاہتے تھے جس سے ملک کی ساری سیاسی جماعتیں کافی پریشان تھیں لہذا مسلم لیگ (ن) ،پاکستان تحریکِ انصاف اور پختونخوا ملی پارٹی نے انتخا بات کے بائیکات کا فیصلہ کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے ساتھ این آراو کے سمجھوتے کے بعد پی پی پی نے مسلم لیگ(ق) کیلئے میدان خالی چھوڑنے کی بجائے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلا ن کر دیا کیونکہ پی پی پی نے ایک دفعہ ١٩٨٥ میں انتخابات کے بائیکاٹ سے شدید نقصان اٹھایا تھا ۔کمال یہ ہوا کہ مسلم لیگ (ن) نے عالمی دبائو کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا لیکن اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لینے کی زحمت گوارا نہ کی لہذا عمران خان اور محمود اچکزائی کی انتخا بی بس چھوٹ گئی۔اس اس زمانے میں عمران خان اور محمود اچکزائی میں بڑی دوستی تھی۔عمران خان محمود اچکزائی کے دو ٹوک موقف کی وجہ سے ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔عمران خان کی اب بھی خواہش ہے کہ محمود اچکزئی سے ان کے مراسم گرم جوشی کا مظہر بنیں لیکن زمینی حقائق کی بنیاد پر محمود اچکزئی مسلم لیگ (ن) کے کیمپ میں چلے گئے ہیں جس کا عمران خان کو بہت دکھ ہے ۔لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا ہے کہ سیاست میں دوستی نہیں ہوتی مفادات ہوتے ہیںاور اس میں محمود خان اچکزئی کو بھی استثناء نہیں ہے۔
اس وقت محمود اچکزئی میاں محمد نواز شریف کے قریبی ا تحا دی ہیں اور ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں ۔ یہی حال گجرات کے چوہدریوں کا تھا۔وہ پی پی پی کے خلاف خاندانی دشمنی کی تاریخ رکھتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ انھیں پی پی پی کی حکومت کا حصہ بننا پڑا۔یہی وہ جماعت تھی جسے آصف علی زرداری نے قاتل لیگ کے خطاب سے بھی نوازا تھا کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وصیت میں جن افراد کو ملزم نامزد کیا تھا ن میں چوہدری پرویز الہی کا نام سرِ فہرست تھا لیکن اقتدار کی مجبوریاں ملاخظہ کیجئے کہ اسی پرویز الہی کو پی پی پی نے اپنی پچھلی حکومت میں ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ دے کر اپنی حکومت کو محفوظ بنایا تھا۔پی پی پی کا کوئی فیصلہ چوہدریوں کی مشاورت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا بلکہ اگر میں یہ کہوں کہ چوہدریوں کو اس میں بالا دستی ھاصل ہوتی تھی تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ پی پی پی کے پاس صرف ١٢٩ نشستیں تھیں جبکہ حکومت سازی کیلئے ١٧٤ ممبرانِ اسمبلی کی ضرورت تھی اور چوہدریوں کے پاس ٥٦ نشستیں تھیں جو اس کمی کو پورا کر رہی تھیں۔اب چوہدری کسی کھاتے میں نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس موجودہ پارلیمنٹ میں برائے نام نمائندگی ہے جسے کوئی اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔،۔ عمران خان کی پی پی پی کے ساتھ مخاصمت کی کہانی بڑی پرانی ور دلچسپ ہے ۔وہ پی پی پی کے سخت ناقدین میں شمار ہوتے ہیں ۔میں ان تفاصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن ا تنا ضرور کہوں گا کہ اس میں آصف علی زرداری کی شخصیت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔پی پی پی اور پاکستان تحریکِ انصاف وکلا تحریک میں افتخار محمد چوہدری کی بحالی میں اکٹھے احتجاج کرتے رہے لیکن پھر بھی دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکیں۔
PPP
اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمران خان دائیں بازو کے سخت گیر موقف رکھنے والے سیاست دان ہیں جبکہ پی پی پی بائیں بازو کی ترقی پسند اور لبرل جماعت ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت تحریکِ انصاف بہت چھوٹی جماعت تھی اور پی پی پی ملک گیر جماعت تھی اور وہ عمران خان کو کوئی بھی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اس وقت پی پی پی کی قیادت محترمہ بے نظیر بھٹو کہ ہاتھوں میں تھی اور وہ انھیں میاں برادران کا ساتھی سمجھتی تھیں، اور پھر پی پی پی اور میاں برادران میں تلخیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے لہذا عمران خان پی پی پی کے قریب نہ آسکے۔تیسری اہم وجہ شخصیت کا ٹکرائو بھی تھا کیونکہ ایک زمانے میں دونوں آکسفورڈ میں زیرِ تعلیم تھے اور ہم عصر ہمیشہ انانیت کا شکار رہتے ہیں۔بھٹو فیملی کا نام بہت بڑا ہے تو عمر ان خان بھی پاکستانی ہیرو ہیں اور بڑی دلکش شخصیت کے مالک ہیں لہذا ذاتی تشہیر اور شہرت نے ان دونوں بڑی شخصیتوں کو ایک دوسرے کے قریب نہ آنے دیا ۔یہ سچ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ تو ضرور چلتی رہیں لیکن ان میں کبھی بھی تعاون اور یک جہتی کا ماحول پیدا نہ ہوسکا اور یہ دونوں اپنی اپنی راہوں پر گامزن رہیں۔پی پی پی اقتدار میں آئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کا خاوند ہونے کی وجہ سے آصف علی زرداری کی اہمیت دو چند ہو گئی اور ان کی ذات کے ساتھ کرپشن کی کہانیاں بھی زبان زدہ خا ص و عام ہو ئیں۔اس ماحول میں آصف علی زرداری پر عمران خان کی تنقید کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے وہ ان پر کرپشن کے الزامات لگاتے تھے اور انھیں ملکی خزانہ ہڑپ کرنے کا سزا وار سمجھتے ہیں لہذا آصف علی زردا ری سے ان کی نفرت کو سمجھنا چنداں دشوار نہیں ہے۔پی پی پی کی قیادت سے یہی نفرت میاں برادران سے عمران خان کی دوستی اور قربت کی بنیاد تھی ۔لیکن نئے حالات میں کھیل بالکل الٹ ہو گیا ہے۔ ٣٠ اکتوبر ٢٠١١ کو مینا رِ پاکستان ن پر جلسے نے عمران خان کو ایک نئی زندگی عطا کی اور وہ پاکستان کے مقبول سیاست دان بن کر ابھرے۔ یہ وہی دور ہے جس میں پی پی پی آصف علی زرداری کی قیادت میں اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھی ہوئی تھی اور کرپشن کی کئی ہوشربا کہانیاں میڈیا کی زینت بن رہی تھیں۔
Benazir Bhutto
محترمہ بے نظیر بھٹو اس وقت جہانِ فانی سے رخصت ہو چکی تھیں اور پی پی پی کے جیالے اپنی ہی جماعت کی بے حسی کی وجہ سے کافی ناراض تھے۔اس ما حول میں ایک خلا تھا جسے عمران خان نے پر کرنے کی کوشش کی ۔قوم نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور وہ ایک قومی قائد بن کر ابھرے ۔وہ مئی ٢٠١٣ کے انتخابات میں وزارتِ عظمی پر نظریں جمائے ہوئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) نے ایک سازش کے تحت تحریکِ انصاف کے ساتھ ہاتھ کیا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ان انتخا بات میں فاتح ہو کر نکلی۔ان انتخابات کو ساری جماعتوں نے دھاندلی شدہ انتخابات قرار دیا۔پاکستان تحریکِ انصاف نے ان انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور چار حلقوں سے دوبارہ گنتی اور انگوٹھوں کے نشانات کی شناحت کامطالبہ کر دیا۔ایک سال تک جب حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی تو عمران خان نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔کل کے دوست اب ایک دوسرے کے حریف بن کر سامنے آئے۔ پی پی پی نے میثاقِ جمہوریت کے تحت مسلم لیگ (ن) کی حمائت کی اور یوں کل کے دو بڑے حریف ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھے کھڑے ہوگئے۔اسی دوران عوامی تحریک کے چیرمین ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان آنے کا اعلان کر دیا۔ان کی آمد کے ساتھ ہی ماڈل ٹائون میں پنجاب حکومت نے ایک اپریشن کے ذریعے ١٤ افراد کا قتل کر دیا۔١٠٠ افراد زخمی ہوئے جس سے عوامی تحریک مشتعل ہو گئی اور اس نے بھی اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔١٤ اگست اس لانگ مارچ کا دن ٹھہراجو بعد میں دھرنوں کی صورت اختیار کر گیا۔ ریڈ زون میں ان دھرنوں کی وجہ سے ہر سو ایک غیر یقینی کیفیت پیدا ہو گئی جس سے حکومت سخت د با ئو میں آگئی کیونکہ اس کے لئے امورِ مملکت چلانا مشکل ہو گیا۔
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نئے اتحادی بن کر ابھرے لیکن ٢١ اکتوبر کو ڈاکٹر طاہر القادری اپنے ساتھی اور دوست عمران خان کو کو تنہا چھوڑ کر دھرنے سے بھاگ نکلے۔دنیا ابھی تک ششدر ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو کیا ہوا کہ انھوں نے اتنا بڑ افیصلہ کر ڈالا اوراپنے دوست کو تپتے صحرا میں تنہا چھوڑ کر نئی منزلوں کے راہی بن گئے ۔بہت سی کہانیاں ہیں جو آہستہ آہستہ منظرِ عام پر آ رہی ہیں۔ڈیل کے قصے بھی زبان زدہ خا ص و عام ہیں جن کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر طاہرا لقادری نے دھرنے ختم کرنے کے فیصلے سے اپنے دوست اور سیاسی کزن عمران خان پر بڑا سخت وار کیا ہے۔ان کے اس فعل سے ان کے اپنے اتحادی بھی ان سے نالاں ہیں اور انھیں چھوڑ چکے ہیں۔سچ کہا تھا میاں محمد بخش نے کہ۔،۔ (بے قدراں دی یاری کولواں فیض کِسے نئیں پایا۔،۔