تحریر : ملک محمد سلمان بحیثیت اسلامی ملک کے ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کی پاسداری کی جانی چاہئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ خواتین کے حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ہم عورت کو معاشرے کا حسن، وقار اور استحکام کی ضمانت قرار دیتے ہیں اور سب سے زیادہ ظلم بھی اسی پر کرتے ہیں۔ گھریلو تشدد، تیزاب پھینکنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنا،وراثت میں محرومی، کم عمری میں شادی، جائیداد ہتھیانے کیلئے قرآن کے ساتھ شادی، غیرت کے نام پر قتل جیسے اقدامات عام ہیں۔جاگیر دارانہ ذہنیت، قبائلی کلچر اور انتہا پسند مذہبی سوچ، رواج اور رسومات ابھی تک موجود ہیں۔ خاص طور پر عورتوں کے حوالے سے ہمارا سماج بڑے متعصب اور امتیازی رویوں کا حامل ہے۔
ان نامساعد حالات کے باوجود خواتین نے ترقی کی اورہر میدان میں قابل ستائش کردارادا کیا ہے۔ عدلیہ، بیوروکریسی، پارلیمنٹ، ادب، تعلیم، صحت، صحافت اور سپورٹس کے شعبوں میں خواتین اپنے جوہر دکھارہی ہیںاور نجی ادارے بڑی کامیابی سے چلارہی ہیں۔ خواتین ہر وہ ایسا کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں جسے مردوں کے لئے مخصوص کیا جاتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ(ن)کی موجودہ حکومت نے خواتین کی با اختیاری اور انکو تحفظ فراہم کرنے کیلئے جو اقدامات کیے وہ واقعی قابل تحسین ہیں۔خاص طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نہ صرف خواتین کو حقوق دیے بلکہ پنجاب کے اہم محکموں میں بطور چئیرپرسن،ڈائریکٹر جنرل ،سیکرٹری اور دیگر انتظامی عہدوں پر خواتین کو مقرر کرکے حقیقی تبدیلی کا آغاز کیا۔ خواتین کو سیاسی طور پر بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشی لحاظ سے بااختیار بنانے کے عمل کو بھی شروع کیا گیا جیسا کہ سرکاری اداروں میں خواتین کیلئے ملازمتوں میں کوٹہ مخصوص کیا گیا۔ بری، بحری ، ائیر فورس ،رینجرز اور پولیس میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد ر شامل کی گئی۔ تجارت کرنے والی خواتین کیلئے بڑے شہروں میں خواتین کے چیمبر قائم ہوئے۔ خواتین کی اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کیلئے ”جینڈر ریفارم پروگرام” دیہی خواتین کو معاشی طور پر خودکفیل کرنے کیلئے جفاکش پروگرام شروع کیا گیا۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستانی خواتین میں خود اعتمادی اور شعور کی آگاہی ہوئی۔ خواتین کے تحفظ اور انکے حقوق کے استحکام کیلئے پاکستان نے وفاقی اور صوبائی سطح پر اہم قانون سازی کی ہے۔ حالیہ برسوں میں متعدد اہم بل منظور کیے گئے ہیں۔ وراثتی جائیداد کی طلبی کے سمن مردوں کے علاوہ خواتین کو بھی وصول کرانے، نکاح نامہ کے تمام کالم پر کرنے، پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسرا نکاح کرنے، 16 سال سے کم عمر کی شادی کی ممانعت ، بیوی بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے فیملی کورٹ کارروائی کو آسان بنانا،کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے، تیزاب سے متعلق جرائم اور گھریلو تشدد سے تحفظ کے بل شامل ہیں۔ خواتین کو ہراساں کئے جانے کی روک تھام کیلئے ”وومین پروٹیکشن بل ”پاس ہونا خواتین کی جیت ہے ۔
دیہی خواتین کو بھی اس دن کی اہمیت کے حوالے سے باشعور کرنا چاہیے کیونکہ خواتین کا ایک بڑا اور اہم حصہ دیہاتوں میں رہتا ہے جہاں وہ تنگ نظر سوچ کے حامل افراد کے ظلم سہنے پر مجبور ہیں ان کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو کس طرح سے روک سکتی ہیں۔کشف فائونڈیشن ،عورت فائونڈیشن ،وومین رائٹس ایسوسی ایشن ،شرکت گاہ وومین ریسورس سینٹر،تحریک نسواں،دختر فائوندیشن ،بیداری ،خاتون فائونڈیشن سمیت مختلف سماجی تنظیمیں اوررمیزہ مجید نظامی ،آمنہ مسعود جنجوعہ،فوزیہ صدیقی، قرة العین شعیب ،عاصمہ کرن پرویز ،ہما بقائی،گلمینہ بلال ،فاطمہ خان،فرحت آصف،آمنہ شاہ ، حمیرا شاہداور سویرا چیمہ جیسی سماجی شخصیات معاشرے میں خواتین کے وقار اور ان کی سربلندی کیلئے کوشاں ہیں۔
گھروں میں مقید خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو موقع ملا تو انہوں نہ صرف اپنا آپ منوایا بلکہ اپنی ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں سے مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا،گزشتہ ایک دہائی سے ہر تعلیمی میدان چاہے جنرل تعلیم ہو یاسی ایس ایس اور پی ایم ایس کے مقابلہ جاتی امتحانات تمام نمایاں پوزیشنز پر خواتین کا ہی غلبہ نظر آتا ہے۔چائلڈ پروٹیکشن آفیسر عائشہ انورکی قائدانہ صلاحیتوں اور راہنمائی کی بدولت سپیشل اولمپکس میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو پنجاب کی ٹیم گولڈ میدل جیتنے میں کامیاب ہوئی۔کمپیوٹر کی دنیا میں کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ کا اعزاز بھی ایک بیٹی ارفع کریم نے قائم کر کے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا ،آج بھی دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ کا اعزاز اسلام آباد کی ننھی پری ثانیہ سیدین کے پاس ہے۔خواتین کے بارے عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ مشقت والا کام نہیں کر سکتیں،حال ہی میں پشاور کی مریم نسیم نے آسٹریلیا میں پاور گیم ”ویٹ لفٹنگ ”میں سلور میڈل حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ دنیا میں کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔وہ 113کلوگرام کا وزن اٹھا چکی ہیں اور مستقبل میں پاکستان کیلئے اور زیادہ ریکارڈ بنانے کی خواہاں ہیں۔بہادر پاکستانی بیٹی ثمر خان نے خنجراب پاس سے لیکر قراقرم گلیشئیر کے برف پوش پہاڑوں پر سائکلنگ کر کے نہ صرف دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلاء کر دیا بلکہ تنزانیہ میں واقع افریقہ کی چھت کہلانے والی 5ہزار 895 میٹر بلند ترین چوٹی ” کیلمانجارو ”سر کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون سائیکلسٹ کا منفرد ریکارڈ بھی قائم کیا۔ کبھی وہ دور تھا کہ خواتین کے ٹی وی دیکھنے پر بھی پابندی تھی آج یہ عالم ہے کہ الیکڑانک میڈیا میں صرف ٹی وی سکرین پر بطور اینکرپرسن اور تجزیہ کار ہی نہیں بلکہ ڈائریکشن اور پروڈکشن جیسے مشکل کام میں بھی خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی نظر آتی ہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی طرح منسٹری آف انفارمیشن میں بھی وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب ،ڈائریکٹر نائلہ مقصود،ڈپٹی ڈائریکٹر ماہا یاسراور اسسٹنٹ ڈائریکٹر دریا عامرسمیت بیسوںخواتین انفارمیشن گروپ میں باخوبی اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔بطورڈی جی فوڈ پنجاب عائشہ ممتازنے کھانے کے نام پرمضر صحت اوراوربیماریاں بانٹنے کا دندھا کرنے والے حیوانوں کا ناصرف پردہ فاش کیا بلکہ تمام تر پریشر اور قتل کی دھمکیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنا فرض ادا کیا۔
صرف کھیل ،سیاست اور صحافت ہی نہیں بلکہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے بھی ایس پی انوش مسعود چوہدری،سہائی عزیزتالپور اور عائشہ بٹ جیسی بہادر خواتین آفیسرز اپنی جان کی پرواہ کیے بن وطن عزیز کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو برابری کے حقوق دئیے جائیں اور صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے ان کے مسائل اور مصائب کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ پاکستان نے اگر ترقی کرنی ہے تو ہمیں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا ہوگا اور تمام امتیازی قوانین ختم کرکے ان کو ترقی کرنے کے مساوی مواقع دینے ہوں گے۔خواتین کو گھر کی چار دیواری میں بند کرکے پاکستان کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔