یاد رہے ہم نہ تو کسی کے مخالف اور نہ ہی کسی کے حاشیہ بردار، اُٹھائی گیر اور خوشہ چیں، ہم دراصل اُس سوچ اور ذہنیت کے طرفدار ہو تے ہیں جو ملک و قوم کے لیے مخلصانہ جذبوں سے لیس ہو کر سوچتی ہے اور ہر اُس فکر اور نظریہ کی مخالفت کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں جو غلام ذہنیت کی پیداوار ہوتے ہیں اور غیروں کے اشاروں پر خود بھی ناچتے ہیں اور قوم کو بھی نچانے کی سعی لا حاصل کرتے رہتے ہیں ہم افراد کے نہیں بلکہ افراد کے ذہنوں میں پرورش پانے والی غلیظ اور تعفن زدہ سوچ کے مخالف ہیں کیونکہ ہماری دینی تعلیمات ہمیں گناہ گار سے نہیں بلکہ گناہ سے نفرت کا درس دیتی ہیں اور ایثار پیشہ وہ نہیں جو لفافہ ازم کا شکار ہو کر اپنی قلمی عصمت کو داغدار کریں اور اپنے الفاظ کو ایک طوائف کی طرح ”قلمی کوٹھے” کی زینت بنائیں جینوئن اہلِ صحافت آئینے کی حیثیت سے گلی کی نکڑ اور چوک چوراہے پر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ قوم کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے جس کا ہمارے حکمران بُرا منا جاتے ہیں۔
ایثار پیشہ اہلِ صحافت نے ”بی بی” ہو یا ”بابو” پرویزِ صغیر” ہو یا ”پرویزِ کبیر” ”میاں” ہو یا ”بیوی” اِن اہلِ صحافت کی نگرانی میں شائع ہونے والے گروپ آف نیوز پیپرز کے صفحات گواہ ہیں کہ انہوں نے ہر دور ِ حکومت میں حق گوئی کا پرچم بلند کیے رکھا ہے اور اِس راست بازی کے پرچم کو کبھی بھی کسی بھی لمحے ذرا بھر کے لیے بھی سر نگوں نہیں ہو نے دیا۔
سیاست کے بے ہنگم ایوان کے بازی گروں اور صحافت کے میدان کے بعض شعبدہ بازوں نے اپنی ملک دشمنی پر مبنی ”سیاسی بصیرت” اور بے ربط و کج مج صحافتی ”دانش” کے بل بوتے پر ملک و قوم کی بنیادوں میں گہرا شگاف ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے ارباب ِ صحافت کے قلم کی روشناہی جب سیاسی پنڈتوں ، مذہبی برہمنوں اور فارن فنڈڈ این جی اوز کے خفیہ اور مکروہ گوشوں کو عوام کے سامنے لانے کی بجائے ان کے کارناموں کو ”خدمت خلق ” اور ”خدمت دین ” کا چُغا و چولا پہناتی ہے تو مولانا ظفر علی خان، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جو ہر ،آغا شورش کاشمیری کی روح ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھتی ہو گی وہ قلم جس سے خالق کائنات انسان کو علم سیکھنے کا سلیقہ سکھا رہا ہے اسی قلم کی تقدیس و حُرمت کے پر خچے اُڑائے جا رہے ہیں اربابِ صحافت نے جب سے قلم کی حُرمت کا ”اتوار بازار ” سجایا ہے دانش و حکمت ٹکے ٹوکری ہو گئی ہے لیکن صحافت کے اس ”اتوار بازار ” میں ابھی بھی ایسے نگینے باقی ہیں جن کو ماتھے کا جھومر بنانے کو جی کرتا ہے ایسے کالم نگار اور اربابِ صحافت نے ہمیشہ اس گلے سڑے معاشرے میں صندل کا کام دیا ہے اور ان کے قلم سے ہمیشہ وطن کی سالمیت اور احترام آدمیت کی تحریر ہی رقم ہوتی رہی ہے، دس نمبرے اربابِ صحافت اور احبابِ سیاست نے بریفو کریسی اور لفافہ کریسی کی زنجیر ِ محبت میں گرفتار ہو کر ملک و قوم کی کشتی کو ساحل ِ مُراد تک پہنچانے کی بجائے ہمیشہ بھنور ہی میں ہچکولے کھانے کے لیے پھنسائے رکھا ہے۔
سچائی اور حقیقت کو اس قدر لفافوں میں بند کرنے کا میں قطعاً قائل نہیں کہ سچائی کا دم ہی گھٹ جائے لیکن ہمارے ہی قلم قبیلے کے بعض ,,قلم کار،، قلمی قوال،، اور ,,میر منشی،، ایسے بھی ہیں جو ,,لفافہ،، لے کر سچ کو سیاہ لفافوں اور حکمرانوں کے سیاہ کر توتوں کو سات پردوں میں چھپانے کی کو شش کرتے ہیں ان کی بھی مجبوری ہے کیونکہ اسی طرز عمل سے ان کی روٹی روزی جڑی ہوئی ہے جس طرح صحافت میں چند گنے چنے ,,پھنے خانوں ،، کی اجارہ داری ہے اور صحافت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح سیاست پر بھی اپنی اجارہ داری کا دعویٰ کرنے والے ,,سیاسی پنڈتوں،، کا قبضہ ہے 1948ء سے 2011ء تک پھیلی اس درد ناک کہانی میں چند گنے چنے خاندان ہی ہیں جنہوں نے ,,باری باری ،، غریب اور مجبور عوام کی قسمت کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی ہے ۔ کئی خون میں لتھڑے فسانے ہیں کئی نشے میں بدمست کردار ہیں تو کئی انا کے مارے نا خدا، مگر سمجھے سب خود کو خدا ہی تھے اور ہیں بقول انقلابی شاعر
تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا اس کو بھی اپنے خدا ہو نے کا اتنا ہی یقین تھا
Tahir Ul Qadri
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کی شخصیت پر”بونے” ”تھرڈلے ”اور زمینی حقائق سے ناواقف ”قالم نگار”اُ نگلیاں اُٹھا رہے ہیں جن کو صحیح معنوں میں قلم پکڑنا بھی نہیں آتا ،لکیر کے فقیر نظر آتے ہیں اس موضوع پر بہت جلد ”نقشِ خیال” قوم کے سامنے لائوں گا کہ کون کون سا ” قالم نگار” ” سویرے سویرے” کس کے دستر خواں سے چچوری ہڈیاں چوستا ہے ،اب آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔کسی زمانے میں سیاست کو عبادت کا درجہ حاصل تھا اور اہل سیاست لوگوں کی بے لوث خدمت عبادت سمجھ کر کیا کرتے تھے اُن کے پاکیزہ ذہنوں میں خدمت انسانیت کی ایک دُھن اور لگن رچی بسی ہوتی تھی اہل سیاست کے دروازے شب وروز ہر امیر غریب کے لیے کھلے ہوتے تھے اور بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے عوام کی خدمت کیا کرتے تھے مگر جو ں جوں سیاست کی وادی میں نااہل، اُجڈ، گنوار اور تجارت پیشہ لوگ شامل ہوتے گئے توں توں سیاست کا ماحول میلا، گدلا اور کمر شلائز ہوتا گیا اور اپنے حلقہ کے غریب ووٹرز کے لیے الگ پیمانے اور امیر ووٹرز کے لیے الگ ”مہ خانے” ترتیب دیے جانے لگے پاکستانی سیاست کا کلچر ہے کہ منتخب ہونے کے بعد قوم کی ”خدمت ” کا حلف اُٹھاتے ہی اہل سیاست کے تیور بدلنے شروع ہو جاتے ہیں اور آج کے اخبارات ہی اُٹھا کر دیکھ لیں کہ کس لیڈر نے ملک و قوم کی فلاح اور اصلاح کی بات کی ہے؟
ہماری موجودہ سیاست کا مزاج یہ ٹھہرا ہے کہ جب تک ایک دوسرے پر کیچڑ اور گند نہیں اُچھالو گے اس وقت تک تم کوچہ سیاست میں داخل ہی نہیں ہو سکتے ہم نے ایک دوسرے پر طعن و تشنیع ہی کو سیاست کے لیے جُزوِ لازم قرار دے رکھا ہے مگر جب ہم اپنے اسلاف اور اکابرین کی روشن و تابندہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری روح کے بند دریچے کھُلتے اور پژمردہ چہرے کھِلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق نے خلافت کا منصب سنبھالتے وقت اپنا تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا تھا جو سنہرے حروف سے لکھنے اور دل کے نہاں خانوں میں چھُپانے کے قابل ہے، اول آپ نے حمدو ثناء الہی بیان کی پھر فر ما یا تھا۔
بعد حمد الہی اے آدمیو! واللہ مجھ کو ہرگز امیر بننے کی حرص نہ کبھی دن میں تھی اور نہ میں نے اللہ سے ظاہر یا پوشیدہ اس کے لیے دُعا کی البتہ مجھ کو یہ خوف ہوا کہ کو ئی فتنہ نہ اُٹھ کھڑا ہو مجھ کو حکومت میں کچھ راحت نہیں ہے بلکہ مجھ کو ایک ایسے امر ِ عظیم کی تکلیف دی گئی ہے جس کے بر داشت کی مجھ میں طاقت نہیں اور نہ وہ بدون اللہ عزوجل کی مدد کے قابو میں آسکتا ہے میری ضرور یہ آرزو تھی کہ آج میری جگہ سب سے زیادہ قوی آدمی ہوتا یہ تحقیق ہے کہ میں تمہارا امیر بنایا گیا ہوں اور میں تم سے بہتر نہیں ہوں اگر میں راہ راست پر چلوں مجھ کو مدد دو اگر بے راہ چلوں مجھ کو سیدھا کر دو صدق امانت ہے اور کذب خیانت، جو تم میں کمزور ہے وہ میرے لیے قوی ہے انشاءاللہ اس کا حق دلوا دوں گا اور تم میں جو قوی ہے وہ میری نظر میں کمزور ہے اس سے انشا ء اللہ حق لے کر چھو ڑوں گا، جو قوم راہ حق میں جہاد چھو ڑ دیتی ہے وہ ذلیل کر دی جاتی ہے اور جس قوم میں بے حیائی کا راج ہو جاتا ہے اُس پر عام طور پر عذاب الہی نازل ہو جاتا ہے جب تک میں اللہ اور اُس کے رسول ۖ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو اور جب میں خدا اور اس کے رسول ۖ کی نا فرمانی کروں تم کو میری اطاعت نہیں کرنی چاہیے۔(جاری ہے)