تحریر : رضوان اللہ پشاوری سیاست کے میدان میں جہاں بھی آپ کا نظر لگے گا تو اس میں آپ کو ایک ہی شخص بالکل صاف اور واضح نظر آئے گا،جس کا ذکر پانامہ میں ہے نہ بہاماس لیکس میں،نیب زدہ ہے اور نہ عسکری رنگ کے بل بوتے،نہ دہشگردی میں ملوث ہے۔اسی بے داغ ماضی،کھرے کردار اور سنجیدہ سیاست کی وجہ سے کوئی آج تک اس کی ضمیر کا سودا نہ کر سکا بلکہ اس کے خوف سے امریکہ کے وائٹ ہاؤس،قادیانی اور دنیا کا ہر غیر مذہب طبقہ اور غیر اسلامی جماعتوں افراد کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی ایک شخصیت ہے کہ جس کے بارے میں ہر ایک کا کہنا ہوتا ہے کہ جب تک اس اسمبلی اور مملکت خداداد کے ایوان میں یہ پگڑی والا ہوتا رہے گا تب تک ملک وملت کے خلاف کوئی قانون پاس نہیں ہوگا،آپ لوگ اس پر نظر نہیں رکھتے کہ قادیانیوں کو کس نے غیر مسلم قرار دیا ؟یہی تو ان مولانا لوگوں کے برکات ہیں،مگر آج کل ہم نے نمک حرامی سیکھ لی ہے،اپنے آپ کو مشہور کرنے کے لیے کچھ بھی کرجاتے ہیں،آج ایک کالم نظر سے گذرا ،جس میں مولانا کے خلاف بہت بیہودہ قلم استعمال کیا گیا تھا،ان لبرل قسم کے لوگوں کو کچھ جوابات دینا چاہوں گا،کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور انہی مولویوں کا دفاع ہمارا فرض عین ہے،تاکہ کل قیامت کے دن اپنے آقا محمد رسول اللہۖ کے سامنے جواب دے سکوں کہ میں نے تو اپنا فریضہ انجام دیا تھا۔
پہلاسوال کہ مولانا ہرحکومت کا حصہ کیوں ہوتا ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ جناب مولانا کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایساوسیع نظر دیا ہے کہ وہ کسی اور پارٹیوں والے کے کالے عینک میں نہیں ہے،مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بصیرت سے نوازا ہے،اسی بصیرت کے نتیجے میں حکمران وقت آکر مولانا کے سامنے دوزانوں بیٹھ جاتے ہیں اور مولانا اپنی دینی،مذہبی اور اصولی سیاسی شرائط کی بنیاد پر اپنا لوہا منواکر حکومت کا حصہ رہتا ہے۔اور حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود ملک وملت اور حیا وعفت کے خلاف حکمرانوں کا اس طرح گرفت کرتا رہتا ہے اور ایساکردار ادا کرتا ہے جو اپوزیشن بھی ادا نہیں کرپاتا۔ہمیں اس پر فخر ہے کہ پھر مولانا ہی حکمران وقت کو اس مشکل اور دلدل سے نجات کا راستہ بتا دیتا ہے۔یہ سب کچھ اسی رب لایزال کی عطا کردہ ہے،اس پر اگر کسی کو جلن ہے تو بس جلتے رہیں۔
دوسری بات جوکہ اس کالم میں لکھی گئی تھی کہ مولانانے کہا تھا کہ لوگوں کو عمران خان کی شادی کی فکر ہے ہمارا فکر کسی کو نہیں؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ مولاناایک نجی ٹی وی پر انٹرویو دے رہے تھے تو اس اینکر نے سوال کیا کہ عمران خان تو تیسری شادی کے چکر میں ہے؟مولانا نے جواب میں یہی کہا مگرآدھی بات کو اس رائٹرنے درمیان میں چھوڑ دی” لاتقربوا الصلوٰة” کہا اور آگے ”وانتم سکٰریٰ” نہیں۔یعنی کہ نماز کے قریب مت جاؤ اور یہ نہیں کہا جب تم نشے کی حالت میں ہو مولانا نے بطور طنز یہ کہا تھا(کم ازکم طنز اور تعریف میں تو فرق رکھو) مگر پھر یہ بھی فرمایا تھا کہ مولویوں کی اندرونِ خانہ زندگی الحمد اللہ خوشگوار گذر رہی ہوتی ہے۔اسی لیے آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک مولوی کے گھر میںگھریلو امورکے متعلق جھگڑے ہوتے ہیں ،کیونکہ ایک عالم دین قرآن وحدیث پڑھ کر عورتوں کے حقوق سے خوب واقف ہوتے ہیں۔
Marriage
تیسرا سوال یہ کیا تھا کہ مولانا اپنی شادی سے عوام الناس کو باخبر رکھے۔اس کا جواب یہ ہے کہ الحمد اللہ مولاناایک پاکیزہ اور شریف خاندان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہیں،ہم مولوی لوگوں نے نہ تو آج تک اپنی بیوی کے بارے میں میڈیا پر کچھ کہا ہے اور نہ کہیں گے کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا وہ حکم معلوم ہے جس سے اور پارٹیوں والے بے خبر ہیں کہ اپنی ماؤں ،بہنوں کو برسرعام نچاتے رہتے ہیں۔عورت عورت ہوتی ہے،خواتین گھر کی چاردیواری میں ہونے چاہئے نہ کہ برسرعام بازار میں ناچتے ہوئے۔اور مولانا الحمد اللہ شادی شدہ ہیں کل ان کے پانچ بچے ہیں۔
ایک اور گھٹیا قسم کا سوال یہ کیا گیا ہے کہ مولانا کی شریک حیات کتنی لکھی پڑھی ہے؟کتنی سوشل اور کتنی سیاسی عورت ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر مولانا کی شریک حیات صرف یہ جانتی ہے کہ اپنے شوہر کے کیا حقوق ہوتے ہیں؟شوہر کا خیال مدارت کیسے رکھا جاتا ہے؟تو بس یہی اس کے لیے کافی ہے۔بعض لوگوں کو آج کل صرف اسی پر بھی سخت سوزش ہوتی رہی ہے کہ یہ مولوی لوگ اپنی شریک حیات کے متعلق کیوں نہیں بولتے تو یہ جان لو کہ ہم پٹھان ہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک شعور سے نوازا ہے،جس سے تم لوگ عاری ہو،ہم نہ تو کسی کے عورتوں کے خلاف بولتے ہیں اور نہ ہی اپنی شریک حیات کو عام بازار میں لاکر عوام کے سامنے کھڑی کرتے ہیں۔
یہ کام بس ہم نے آپ لوگوں کے ذمہ لگایا ہے بس اسی کے لئے آپ ہی کافی ہیں۔بس تم یہ اپنا کام کرتے رہو،اپنی شریک حیات کو گھر سے نکال کر عام بازار میں ناچتے رہو اور ہم اپنا کام کرتے رہیں گے کہ ملک وقوم کو مشکل کی دلدل سے نکال کر ترقی،سنجیدہ سیاست،حیا وعفت اور اسلام کی روشنی میں لائیں گے۔