تحریر : انجینئر افتخار چودھری میں قائد اعظم کی تو نہیں بات کر رہا مگر اپنے دور کے ایک لیڈر کی بات کر رہا ہوں جس کی پارٹی کو میں نے دس سال پہلے جائن کیا تھا۔یہ سردیوں کے دن تھے اور سال غالبا ٢٠٠٧ تھا۔سپر مارکیٹ کے پاس دفتر میں ایک میٹنگ جاری تھی۔برادر جمیل عباسی کچھ طلباء کو لے کر عمران خان کے پاس آئے اور کہا یہ طلباء بارانی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔عمران خان نے کہا ویلکم۔جمیل عباسی گویا ہوئے اور کہنے لگے ہمیں انہیں کچھ رقم اخراجات کی مد میں دینا ہو گی۔عمران خان اس بات پر حیران ہوئے اور کہا کہ ان بچوں کی کیا عمر ہے۔یہی کوئی انیس بیس۔میں نہیں چاہتا کے پاکستان کو کرپٹ قسم کے نوجوان دوں۔کوئی ضرورت نہیں کہ یہ بچے پارٹی میں شامل ہوں یہ پڑھیں لکھیں وقت بچے تو پارٹی کا کام کریں۔یہ وہ یاد گار لمحہ تھا جس وقت میں نے اپنے فیصلے کو سراہا۔معروف کالم نویس رانا عبدالباقی نے اپنے ایک کالم میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جائینٹ سیکرٹری حسین ورک کے ایک مکتوب کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے جمعیت علمائے ہند کے ایک مولانا صاحب کی طرف سے ایک خط کا ذکر کیا جس میں انہوں نے خواہش ظاہر کی میں جمیعت العلمائے ہند اور کانگریس کے اتحاد کو توڑ سکتا ہوں اگر مسلم لیگ مجھے کوئی وظیفہ دے۔اس خط کے جواب میں قاید اعظم نے ورک صاحب کو خط لکھا کہ سیاست میں روپے پیسے کے چلن سے بہت خرابی پیدا ہو سکتی ہے میں ایسا کام نہیں کرنا چاہتا جس سے بگاڑ پیدا ہو۔اس قسم کا ایک واقعہ میری سیاسی زندگی میں بھی پیش آیا ہے۔
اس سے پہلے میں وہ دور گزار آیا تھا جب میں میاں نواز شریف کے بہت قریب ہو چکا تھا۔آج ویسے ہی کالم دیکھا تو یاد آیا کہ سیاست میں روپے پیسے کا چلن کیسے آیا؟میری سیاسی زندگی بھی بڑی طویل ہے۔میرے دور میں وہ لوگ بھی اسمبلیوں میں پہنچے جن کے پاس سائیکل تھا۔اسمعیل ضیاء ہمارے سابق شہر گجرانوالہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتحب ہوئے تھے ان کے پاس سائیکل ہوتی تھی وہ اپنی کمپین اس پر کیا کرتے تھے۔اسی طرح میاں منظور الحسن نے بھی اپنی کمپین ایسے ہی کی۔
١٩٧٧ کے انتحابات میں غلام دستگیر خان کے پاس دو چار گاڑیاں تھیں۔پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے انہوں نے الیکشن لڑا۔میں نے نہیں دیکھا کہ الیکشن میں کوئی قابل ذکر خرچے کئے ہوں۔بد قسمتی یہ ہوئی کہ میاں نواز شریف نے پیسے کے زور پر انٹری ڈالی۔دروغ بر گردن راوی۔کہتے ہیں جنرل جیلانی گورنر پنجاب تھے میاں شریف نے ان کی اہلیہ کو مرسیڈیز گاڑی کی چابی دی۔گورنر صاحب نے کہا رہنے دیجئے یہ کیا تلکف کر رہے ہیں جواب میں کہا گیا کہ یہ بھائی بہن کا معاملہ ہے آپ دخل نہ دیں۔
قارئین اس کے بعد چل سو چل۔میاں صاحب وزیر خزانہ سے وزیر اعلی تک تھوڑے ہی عرصے میں پہنچے۔اور پھر جست لگا کر وزیر اعظم بن گئے ایک نہیں تین بار۔وہ فائل کے نیچے پہئے لگا دیتے اور فائل بھاگتی جاتی۔ سچ پوچھیں اب سیاست کرنا ایک سفید پوش کا کام نہیں ۔اقتتدار کی سیاست تو اور بات ہے اپوزیشن میں سیاست بھی کام رکھتی ہے۔میں تو اس تصور سے کانپ کے رہ جاتا ہوں جب سیاسی پارٹیاں جلسے کرتی ہیں۔اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے جلسے کی مثال دیتے ہوئے قلم رک جاتا ہے۔یہ جلسہ کروڑوں میں نہیں شنید ہے کئی ارب روپوں میں ہوا۔یہ کسی ایک بندے کے بس کی بات نہیں ہے۔
میاں نواز شریف نے صحافت میں بھی روپے لٹائے۔لوگ اس منڈی میں اس قدر بکے کے منڈی کی منڈی خالی ہو گئی۔ عمران خان کے میڈیا کے ساتھ کام کرتے ہوئے کم و بیش دس سال ہو گئے ہیں ان میں سے چار سال وہ لگا لیجئے جو سعودی عرب میں گزارے۔خدا گواہ ہے ایک روپیہ بھی پارٹی سے نہیں لیا۔جو کچھ بھی خرچ کیا اپنی جیب سے کیا۔میں یہ نہیں کہتا کہ میڈیا ڈیپارٹمنٹ خرچ نہیں کرتا ۔یہ خرچ صحافیوں کے ساتھ کوئی شام کوئی کھانا کی مد میں ہوتا ہے اور وہ بھی سیکرٹری اطلاعات کی جانب سے۔
ہماری خبریں ہمارے معاملے سوکھے پر ہی چلتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں پیسہ کوئی بڑی دیر کی بات نہیں یہ بیماری ١٩٨٥ سے چلی جونیجو دور میں اسمبلی کے ہر فرد کو پجارو دی گئی ۔اس کے بعد تو پھر چھانگے مانگے ہماری سیاست میں گھسے ۔ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح تو آپ نے سنی ہو گی۔ویسے تو کچھ باتیں اور واقعات ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی سنے گئے تھے ۔جام صادق علی سندھ کے وزیر اعلی رہے ہیں ان کے بارے میں بھٹو صاحب نے خود کہا تھا کہ مہربانی کرنا قائد اعظم کا مزار نہ بیچ دینا۔
بھٹو صاحب کے ایک وزیر ملک غلام نبی تھے ان کے پاس ٹیوٹا کرائون گاڑی تھی ایک بار ان کے بیٹے سے لگ گئی۔انہوں نے ڈرائیور کا نام آگے کر دیا شنید ہے ان تک رپورٹ پہنچی تو انہیں ایئر پورٹ پر ہی کہا گاڑی خود اپنی جیب سے ٹھیک کرائیے۔مجھے اس لئے پتہ چلا کہ یہ گاڑی رانا موٹرز مال روڈ لاہور پر ٹھیک ہوئی جہاں میں کام کرتا تھا۔ واللہ اعلم یہ سچ ہے یا جھوٹ کے اسلام آباد میں ای سیون سیکٹر کے پلاٹ بھٹو صاحب نے اپنے وزراء کو الاٹ کئے تھے۔
نواز شریف کی سیاست کا المیہ ہے کہ وہ سرکاری خرچ پر عیاشیاں کراتے ہیں۔چارٹرڈ جہازوں پر عمرے کرنے جاتے تھے اور اپنے ساتھ مصاحبوں کی بڑی تعداد لے جاتے تھے۔ان میں وہ صحافی بھی شامل ہوتے تھے جو میاں صاحب کہ گن گاتے تھے دوسرے معنوں میں وہ بیربل بن جاتے۔ جدہ میں قیام کے دوران بھی چاپلوسوں کی ایک بڑی تعداد واہ واہ کے ڈونگرے برساتی تھی۔دولت کے اس بے جا استعمال نے پاکستانی سیاست کے رنگ بدل دیئے ہیں ۔ضمنی انتحابات میں جس قدر دولت کا استعمال ہوا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔اب کوئی بھی جلسہ کروڑوں میں ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صاف ستھری قیادت سامنے نہیں آ رہی۔پارٹی ٹکٹوں کے لئے لاکھوں کے فنڈ ہڑپ کئے جاتے ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ ہر کیس میں ایسا ہوتا ہے لیکن اکثر صاحب مال ٹکٹ لے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے کیا ایک درمیانے طبقے کا فرد سیاست کر سکتا ہے؟کیا ایک ایمان دار موجودہ انتحابی نظام میں داخل ہو کر اسمبلی کے دروازے کے اندر ہو سکتا ہے؟کسی حد تک کئی ایک پارٹیوں نے نے ایسے انتظامات کر رکھے ہیں جس کے ذریعے کئی ایک غریب بندے اسمبلیوں تک پہنچے۔
پاکستان تحریک انصاف سے امید باندھنے والوں کی اب بھی ایک معقول تعداد سمجھتی ہے کہ پارٹی کے درمیانے طبقے کے لوگوں کو یہ پارٹی اسمبلیوں تک پہلے بھی لے گئی ہے اور آنے والے انتحابات میں لے کر جائے گی۔دیکھئے کیا ہوتا ہے۔