پاکستان ایک نئی صورتحال سے دوچار ہو گیا ہے جو ملک کو غیر یقینی کی کیفیت کی طرف دھکیلنے کی ایک اور کوشش محسوس کی جا سکتی ہے۔ صورتحال کی کشیدگی سیاسی ہو یا مذہبی ہمیشہ ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق رہا ہے ۔ میرے والدین ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ پر قربان ، آپ ﷺ سے والہانہ عقیدت و محبت ہر مسلمان کے ایمان کا جز ہے۔اتنے منظم طریقے سے ایسا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے کہ حق اور ناحق میں تفریق کرنا جان جوکھم والا کام محسوس ہونے لگتا ہے اور ایک انجانا خوف گھیرے میں لے لیتا ہے کہ معلوم نہیں ہمارے مسلمان ہونے پر بھی کوئی سوال نا اٹھا دیاجائے ۔ آخر ہم مسلمان کیوں اپنے ایمان کو امتحان میں ڈال لیتے ہیں؟ آخر کیوں اپنے سے کہیں گنا زیادہ علم والوں پر تہمتیں لگانا شروع کردیتے ہیں؟اس سارے ماحول میں ہمارے وہ حقیقی علماء کرام جو دین اسلام کی روح سے بخوبی واقف ہیں کیوں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں نہیں آتے۔
ملک کو بری طرح سے مذہبی منافرت کا سامنا ہے لیکن دوسری جانب ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سیاست میں ایک اہم پیشرفت دیکھائی دے رہی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی سیاست میں مفاہمت کے بادشاہ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے حکومت کودرپیش مسائل کے حل کیلئے بھرپور تعاون کی پیشکش کردی ہے اور حکومتی حلقوں نے ایسے وقت میں پیشکش کو مثبت پیغام کے طور پر لیا ہے ۔لگ یہ رہا ہے کہ وقت زرداری صاحب کا ساتھ دے رہا ہے کیونکہ ملک کو اس وقت درپیش معاملے پر سیاسی استحکام کی بہت ضرورت ہے جو کم از کم اس مفاہمتی پیغام کے بعد کافی حد تک مستحکم ہوگیا ہے ۔البتہ! یہ اور بات ہے کہ حکومتی سیاسی گرو وقتی بحران سے نکلنے کیلئے اس بیان کا خیرمقدم کررہے ہیں یا دیرپا تعاون کیلئے تیاری ہیں ،یا پھر ایسا تو نہیں کہ آنے والے دنوں میں بات چیت پراتفاق کر لے اور جب یہ مشکل وقت گزر جائے تو اپنی مرضی کے مطالبات سامنے رکھ دے۔ مفاہمتی یادداشت یا مفاہمتی ضابطہ اخلاق کی ترتیب مستقبل کے لائحہ عمل طے کرنے کیلئے بہت ضروری ہے(کسی میثاق جمہوریت کے جیسا) ۔ حکومت کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ووٹ بدعنوانی سے پاک پاکستان کے نعرے لئے ہیں۔
مفاہمت کی یہ پیشکش حکومتی شرائط پر ہوگی یا پھر زرداری صاحب اس مفاہمتی عمل کو اپنے طور مرتب دینگے اور اس ترتیب دینے میں کہیں سے وہ مولانا فصل الرحمن کو بھی لے آئینگے اور رہی سہی مسلم لیگ ن بھی اس مفاہمتی عمل حصہ بن جائینگی ؟یعنی ماضی حال میں تبدیل ہونے جا رہا ہے اور مستقبل کی تاریکی کو مسلسل بڑھانے کیلئے آگے آرہا ہے ۔ اب نظام بدلنے کا وقت ہے نا کہ چہرے اور پرانے پینتروں میں پھنسنے کا۔
لیکن یہ مفاہمت ملک کی تبدیلی میں حائل ہونے کی سازش تو نہیں ہوسکتی ہے جس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کو بغیر کسی این آر او کے کوئی خصوصی راستہ فراہم کیا جائے اور انکے لوگوں پر بدعنوانی کے الزامات سے کچھ لے دے کر جان چھڑائی جائے۔ حکومت وقت جس نے عوام سے ووٹ ہی ان بدعنوانوں کے خلاف بھرپور کاروائی کرنے کی یقین دہانی کرانے کے بعد لیا ہے اور وزیر اعظم عمران خان صاحب اپنی ہر تقریر اور بیان میں اپنے اس عزم کو دہراتے بھی دیکھائی اور سنائی دیتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ابھی تک سوائے وزیر داخلہ کہ کے کسی اور نے بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر تبصرہ نہیں کیا ہے جس میں بلاول بھٹو زرداری نے کہاہے کہ قدم بڑھائیں عمران خان ہم آپکے ساتھ ہیں۔ واقعی ایسا بیان موجودہ حالات سے نکلنے کیلئے اور ملک کو نکالنے کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مفاہمت کا جو زبانی آغاز ہوا ہے یہ کہاں تک جاتا ہے اور کن شرائط پر مبنی ہوتا ہے۔
بظاہر مخالفت کیلئے کچھ بھی نہیں ہے لیکں ملک کو اس وقت ایک قومی حکومت کی ضرورت ہے جن کا مقصد ان حکمت عملیوں کو عملی جامعہ پہنانے میں حکومت وقت کی بھرپور مدد دیں۔یعنی غیر حکومتی جماعتیں ملک کو موجودسنگین مسائل سے نکالنے میں اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کریں۔ دیکھا جائے تو حکومت کی مخالفت میں بیٹھی سیاسی جماعتوں کے پاس حقیقت میں کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ یقیناًانہیں اب یہ احساس ہورہا ہوگا کہ پاکستان کی بہتری میں اپنا کچھ نا کچھ حصہ ڈال لیا جائے۔موجودہ حالات و واقعات سیاسی مفاہمت کی جانب دھکیلنے کیلئے ہیں یا پھر یہ اسلام کے قلعے کیلئے ایک معمہ ہے۔ پاکستان تھوڑا سا اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں کامیاب ہونے جا رہا تھا کہ اچانک سے یہ سارا معاملہ نمودار ہوگیا ہے۔ ہمیں دشمن کی چالوں سے باخبر رہنا ہوگا حکومت اور مخالف جماعتیں یہ طے کرلیں کہ اپنے مابین کتنے ہی اختلافات کیوں نا ہوں لیکن دشمن کی جانب سے اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھینگے اور ہر اس عمل کو رد کردیں گے جو پاکستان مخالف ہو گا۔