سیاست کے سینے میں دل تو وقعی نہیں ہوتا لیکن پاکستانی سیاست میں شرم وحیا بھی نہیں۔ بیگم کلثوم نواز وینٹی لیٹرپر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلائ، موت سے دلیرانہ پنجہ آزمائی کرتی ہوئیں، مریم نواز بچشمِ تَراپنی ماں کو آوازیں دیتی ہوئی اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے حسین نواز کی آواز بھرائی ہوئی لیکن سوشل میڈیا کے بندر مارے خوشی کے ڈال ڈال پھُدکتے ہوئے۔ اُنہیں یہ سب ڈرامہ نظر آتا ہے، محض ایک ڈرامہ۔ ہم تو یہ بَددُعا بھی نہیں دے سکتے کہ ایسا ڈرامہ اُن کے اپنے گھر وںمیں بھی ہو۔
”اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی” کے مصداق کچھ بزرجمہروں کے خیال میں یہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا بدلہ ہے لیکن نوید ہو کہ مولانا طاہرالقادری ”دَیت” کی اگلی قسط وصولی کے لیے پھر آن ٹپکے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن سے اگر کسی کو فائدہ پہنچا تو صرف مولانا طاہرالقادری کو کہ ”آم کے آم ،گٹھلیوں کے دام ” کے مصداق وہ جیبیں بھی بھر لیتے ہیں اور جاتے جاتے سیاست کو ”ٹھونگا” بھی مار جاتے ہیں۔۔۔۔۔ کچھ کے نزدیک بیگم کلثوم نواز کی بیماری محض ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کا حربہ۔ ایسی نفرت کی سیاست کبھی دیکھی نہ سُنی لیکن جب فواد چودھری جیسے لوگ سیاست میں آجائیںتو پھر نفرت کی سیاست اظہرمِن الشمس۔ کپتان گلدستہ بھیجتا اور صحت کی دُعا کرتا ہے لیکن اُسی کا ترجمان فواد چودھری کہتا ہے کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں۔کیا اُن کے خاندان میں ایسے ہی تاخیری حربوں سے کام لیا جاتا ہے؟۔
سیاست کی ایک اپنی زبان ہوا کرتی تھی، شائستہ اور شُستہ۔ خوشیاں اور غم سانجھے،منشور اپنے اپنے لیکن آج یہ سب مفقود۔ اب تو صرف غیرپارلیمانی زبان اور گالی گلوچ۔ یہی نہیں بلکہ سیاست گھروں کے اندر جھانکتی ہوئی۔ سانحہ مشرقی پاکستان سے پہلے بھی الزامات کی بارش ہوتی رہی ، لوگ ”سکیورٹی رِسک” قرار دیئے جاتے رہے۔ سُرخ اور سبز کے نعرے لگتے رہے لیکن گالی گلوچ نہیں، غیرپارلیمانی زبان نہیں۔ آج کی سیاست اُس سے فزوںتَر کہ سبھی مسندِ اقتدار کے بھوکے۔ کسی کو ملک کی پرواہ نہ قوم کی۔ خاکم بَدہن کیا ہم پھر کسی ”سانحہ مشرقی پاکستان کے انتظار میں ہیں؟۔ موجودہ غلیظ سیاست تو اِسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ ہم نے سقوطِ ڈھاکہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا۔ اب کوئی ”سقوط” دیکھنے کی ہمت نہ سَکت۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، حقیقت مگر یہی کہ موجودہ ”غلیظ سیاست” کی بنیاد کپتان نے رکھی اور اب سبھی ایک ہی کشتی کے سوار، ایک ہی حمام میں ننگے۔
کپتان تو جب سے سیاست میں آئے ہیں، وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار ہیں۔ آمر پرویز مشرف کا ساتھ بھی اِسی لیے کہ اُس نے وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دیالیکن جب قرعہ فال کسی اور کے نام نکلا تو کپتان نے بِددِل ہو کر پرویز مشرف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ پرویزمشرف بیچارہ بھی کیا کرتا کہ پورے پاکستان سے تحریکِ انصاف کو کم وبیش ڈیڑھ لاکھ ووٹ ملے اور قومی اسمبلی کی صرف ایک سیٹ حصّے میں آئی اور وہ بھی کپتان کی اپنی۔ 2008ء کے انتخابات سے کپتان نے راہِ فرار اختیار کی ۔ تب تک شاید زورآور بھی کپتان کو محض ایک کھلاڑی ہی سمجھتے رہے۔ پھر لندن پلان بنا، نوک پلک درست ہوئی، میمنہ میسرہ تیار ہوا اور 30 اکتوبر 2011 ء کو مینارِ پاکستان کے سائے تلے زورآوروں کا پہلا ”پاورشو” ہوا۔ ہم اِسے زورآوروں کا پاور شو اِس لیے کہتے ہیں کہ اِسی شو میں کپتان نے ایک ایسا انکشاف کیا جو کسی کے سان وگمان میں بھی نہیں تھا۔ اُنہوں نے پہلی مرتبہ امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی کے اُس خط کا ذکر کیا جس کی بنیاد پر ”میموگیٹ سکینڈل” سامنے آیا جس کا براہِ راست تعلق اسٹیبلشمنٹ سے تھا۔ ظاہر ہے کہ کپتان کے پاس یہ خبر وہیں سے پہنچی ہوگی کیونکہ بعد میں پیش آنے والے واقعات اِسی کی تصدیق کرتے ہیں۔
2013ء کے انتخابات میں زورآوروں کا وار خالی گیا حالانکہ 2002ء میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی تحریکِ انصاف 2013ء میں چھیاسی لاکھ ووٹ لے گئی۔ یہیں سے احتجاج کی سیاست شروع ہوئی، غیرپارلیمانی زبان اپنے عروج کو پہنچی اور پاکستان نفرتوں کی آماجگاہ میں ڈھلتا چلا گیا۔ 2014ء کے طویل دھرنے میں کپتان ہر روز امپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی نوید سناتے رہے۔ تب بھی کچھ ”مہربان” حکومت کا تختہ اُلٹنے کے مشورے دیتے رہے لیکن جنرل راحیل شریف آڑے آئے۔ دھرنے کے ابتدائی ایام میں تو تقریباََ سارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا حکومت کے جانے کی خبریں دیتا رہا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ حکومت اَب گئی کہ اب گئی۔ اگر اُس وقت تمام اپوزیشن سیاسی جماعتیں نوازلیگ کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی نہ ہو جاتیں تو شاید کوئی سانحہ رونما ہو جاتا۔ پھر طاہرالقادری مایوس ہوکر دھرنا چھوڑ گئے لیکن ”ضِدّی کپتان” ڈَٹے رہے۔ تب دھرنے کی صورتِ حال یہ تھی کہ ”گلیاں ہو جان سُنجیاں وِچ مِرزا یار پھرے” ،کپتان اپنے چند حواریوں کے ساتھ کنٹینر پر اور حاضرین اُس سے بھی کم۔ تحریکِ انصاف کو سانحہ اے پی ایس کا بہانہ ملا اور دھرنا ختم ہوا۔ سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ سنا دیا کہ انتخابات شفاف تھے۔
زورآوروں کا یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا لیکن ہمت جواں، نئی منصوبہ بندی شروع کہ میاں نوازشریف کو بہرصورت مائنس کرنامقصود۔ پانامالیکس کا غلغلہ اُٹھاتو بجھتے دیے پھر سے لَو دینے لگے، تنِ مُردہ میں جان پڑی، اتنی جان کہ محض ایک اقامے کی بنیاد پر میاں نوازشریف ”مائنس” ہوگئے لیکن حقیقت یہی کہ ”مائنس نوازشریف” وزیرِاعظم نوازشریف سے کہیں زیادہ مقبول اور کہیں زیادہ خطرناک۔ سوائے چند لوٹوں کے آج بھی نوازلیگ کا ہر فرد اپنی جگہ پر ڈَٹ کر کھڑا ہوا اور ووٹر پہلے سے زیادہ پُرعزم۔ وہ لوگ جنہوں نے کبھی ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کی یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اب کی بار میاں نوازشریف کو ووٹ دینے نکلیں گے۔ جب اُن سے یہ کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب تو نااہل ہو گئے تو وہ کہتے ہیں کہ ووٹ تو میاں صاحب کا ہی ہے، وہ جس کی طرف اشارہ کریں گے، اُسے دے دیں گے۔ دِلوں پر ایسی حکمرانی پہلے دیکھی نہ سُنی۔ زورآور بھی حیران ہوںگے کہ اُن کی ہر تدبیر اُلٹی کیوں پڑ رہی ہے۔ یہ یقین کہ اب کوئی نیا حربہ استعمال کیا جائے گا۔ الیکشن تب تک نہیں ہونے والے جب تک نوازلیگ کی بُری ناکامی کا یقین نہ ہوجائے لیکن نوازلیگ تو قومی اور بین الاقوامی سرویز میں اب بھی سب سے آگے۔
ہم نے اپنا کالم بیگم کلثوم نواز کی تشویشناک حالت سے شروع کیا اور اب اِسی پر ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اختلافِ رائے بجا، باہمی مکالمہ بھی مستحسن لیکن نفرت کی سیاست نہیںکہ یہ ایسا زہر ہے جو رَگوں میں سما جائے تو پھر اِس کا کوئی تریاق نہیں، ملک تباہ ہو جاتے ہیں اور نسلیں برباد ۔ بیگم کلثوم نواز واقعی بیمار ہیں جس کا عالمی میڈیا بھی گواہ۔ اِس لیے اُن کی صحت یابی کے لیے دُعا کرنی چاہیے نہ کہ نفرت کے تیروں کی بوچھاڑ۔