تحریر : شاہ بانو میر آزاد تجزیہ کار کی حیثیت سے انشاءاللہ تمام سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر بے لاگ تبصرہ لکھنا ہےـ انشاءاللہ اپنے قلم کا فرض سمجھتے ہوئے اس حق کو ادا کرنا ہے میں بہت معذرت کے ساتھ لکھنا چاہوں گی کہ تبدیلی کے نام پر ہم نے پارٹی کو نظام کو لیڈر کو ساتویں آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا کیونکہ ہم سب ترسے ہوئے لوگ تھے ـ جھوٹے لُٹیروں کے ہاتھوں مرتی عوام کیلیۓ یہ پُکار ہمیں کسی نجات دہندہ کی لگی ـ لیکن افسوس صد افسوس سوائے اس پارٹی کے رہنما کی سوچ اور اس کی اپنی تنہا ذات کی ذات اور بیانات کے علاوہ کوئی ایسا عمل نہیں ہےـ جسے ہم دوسری سیاسی جماعتوں سے الگ کر سکیںـ۔
اندرونی تیزی سے پھیلتا ہوا نظام وہی ہے جو بغیر شعور کے اس عوام نے ہمیشہ پھیلایا اندھی تقلید ـ یہی نظام آج تک دوسری سیاسی جماعتوں کا ہےـ شائد وجہ اس کی یہ ہے کہ لوگ وہی تھے جو پرانی سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھے ان کی سوچ ان کا عمل وہی روایتی تھا جو وہاں سے مایوس ہو کر یہاں آئے اور یہاں لیڈر کیا کہتا ہے اس کے برعکس انہوں نے پرانی سوچ اپنی فطرت کے ساتھ ویسا ہی پُرانا نظام جاری رکھاـ۔
ایک بات یاد رکھیں الیکشن اب ہوں یا مدت پوری ہونے پر کام کا گراف کاؤنٹ ہوگا اور کام نیک نیتی سے اس وقت سب جماعتیں حسب طاقت کر رہی ہیں ـ ہمیں اب زبان پر زور دے کر اس کمزور ملک کو مزید کمزور کرنے کی بجائے اس کے نظام کو اور اس نازک وقت میں درپیش چیلنجز کو ایک قوم کی طرح فیس کر کے ملک کو بحران سے نکالنا ہے ـ ایک درد مند رہنما نے پوری سوچ کے ساتھ دو دہائی پہلے نظام کو اسٹڈی کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اتنی کرپشن اتنا جھوٹ اتنا فراڈ ہے کہ وہ کسی بھی شعبے پر کبھی بھی اس کی کارکردگی پر انگلی اٹھائیں گے تو وہ بات سچ ہوگی ـ جھوٹے سیاسی قائدین یہاں مار کھا گئے ـ اس ہمدرد رہنما نے جو جو کہا جس جس پر تنقید کی وہ سو فیصد سچ ثابت ہوئی اور عوام نے راتوں رات اسکا ساتھ دینے کی ٹھان لی یہ صورتحال دوسرے سیاسی قائدین کی روایتی سیاست کی نیندیں اڑا گئی ـ اس ساری ہوتی تبدیلی نے ان کو سمجھا دیا اس بار اس ملک کے پیسے کی لوٹ مار ممکن نہیںـ۔
اگر سامنے والے دلیر باہمت انسان سے مقابلہ کرنا ہے جس کے پاس حکومت میں رہ کر کسی قسم کی بے ایمانی کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ہے ـ اس لئے سمجھدار بن کر طریقہ کار کو تبدیل کر کے اس ملک کی سوئی ہوئی قسمت کو ان لوٹنے والے ہاتھوں سے اس بار عوام کا مال ان کے اوپر لگانا ہوگا ـ یہ کڑوا گھونٹ سب کو بھرنا پڑا اور یوں بہتری کا عمل اس بس نصیب ملک کو خوش نصیبی کی طرف لے جانے کا سبب بنا ـماضی میں پاکستان کے پاس سوائے لوٹ مار کے ماضی میں کوئی بھی محب الوطن رہنما نہیں تھا ـ لیکناب دیگر سیاسی جماعتوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہو چکا ہے ـ وہ جان چکے کہ اگر انہیں آخری دور میں خود کو تاریخ میں اچھے نام سے زندہ رکھنا ہے تو اس بار صرف حقیقی عوامی جماعت بن کر ان کو واقعی سہولیات دے کر ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہوگا ـ اور اس کی کوشش ان کی پوری جماعت دن رات کرتی دکھائی دے رہی ہے جس کو ہم حرفوں سے مٹا نہیں سکتے ختم نہیں کر سکتےـ اس وقت صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہےـ ایک تو جماعت کی اندرونی بد نظمی دوسرے دولتمندوں کی لگاتار پارٹی میں شمولیت یعنی پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے ـ جس میں پرانا سیاسی نظام ہے ـ صرف کاروباری روابط کی وجہ سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر پارٹی میں پوری دنیا سے شمولیت اختیار کر رہےـ اور ایک پیسے والے کے پیچھے اس کے پاس کام کرنے والوں کی قطار کو ہم پھیلاؤ کا نام دے کر بھِیڑ اکٹھی کر رہےـ۔
Election
ایسے وقت میں عام نظریاتی ورکر جو سادگی اور تبدیلی کے ساتھ پارٹی میں آتے ہے وہ اس پارٹی کے اندر داخل ہو کر سامنے وہی طاقتور لوگ دیکھتے ہیں ـ جن کو ان کا رہنما جاگیر دار وڈیرا چوہدری کہتا تھا وہی سب اپنی روایتی سوچ کے ساتھ پورے کرو فر کے ساتھ سامنے کھڑےـ اور ان کا وہی حال جو دوسری سیاسی جماعتوں میں عام غریب ورکر کا دوسری سیاسی جماعتوں میں ہے ـ یہ بد دلی اب عام ہو رہی ہےـ مایوسی کا دور شروع ہو چکا ہے ـ ایک طرف زبانی دعوےٰٰ اور دباؤ کی سیاست ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ِکسی ادارے پر کمزور پاکستان میں نکتہ اٹھائیں گے وہ سچ ثابت ہوگا اور وہ اپنی بات کو منوانے میں کامیاب ہوں گے ـ دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گےـ۔
اب موجودہ حکومت کالی بھیڑوں کو بھانپ کر ایک ایک کر کے چھانٹی کر رہی اور توجہ صرف اپنے منصوبوں کی تکمیل پر کر رہیـ تا کہ کل کو الیکشن میں عملی کام سامنے ہو صرف لفاظی نہیں ـ نواز حکومت کی سب سے اہم اور طاقت اس کی پختہ خیال رہنما ہیں جو منجھے ہوئے سیاستدان ہیں ـ ان کی طرف سے صبر کے ساتھ حکمت کے ساتھ مشکل وقت کو برداشت کرنے کے بعد جمہوریت کو ناقابل تسخیر ثابت کرتے ہوئے نہ صرف خود کو بچا کر جمہوریت کے چمپئین بن گئےـ بلکہ جمہوریت کو بچا کر مضبوط رہنما بن گئے ـ اور ایک جماعت کو سر عام پارلیمنٹ میں اس طرح باقاعدہ تنقید کا ہدف بنایا کہ اب وہاں رہنا رہنما کیلیۓ قابل عزت بات نہیں ہے ـ یعنی کلین بولڈ کردیا اسی کو سیاست کہتے ہیں ـ ملک کے انتہائی حساس معاملات پر اس وقت حکومتِ وقت تمام کے تمام صوبوں کو اعتماد میں لےکر خوبصورت جمہوریت کی داغ بیل ڈال رہیـ۔
ملک کی داخلی سلامتی اور عوامی عدم تحفظ کیلیۓ سنجیدہ حاکم کی طرح بار بار صوبوں میں جا کر وہاں کی حکومت کو ساتھ لے کر صوبوں کے معاملات پر گہری سنجیدگی کے ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں کی حکومت ہونے کے باوجود وفاق کی جانب سے بڑے رہنما جیسا رویہ مزید ذہنوں کو تبدیل کرنے کا موجب بن گیا ـ اپنی توجہ باہمی مشاورت کے ساتھ صرف اور صرف پاکستان کی سلامتی پر مرکوز کر کے عملی اقدامات کرنے کی وجہ سے وہ مقبولیت کی جانب بڑھ رہے ہیںـتاریخی اقتصادی راہداری پے ہر بڑے سے بڑے سیاسی مُخالف کواس ملائمت کے ساتھ ساتھ ملایا کہ سیاسی دور کی نئی ابتداء ہےـ اور یہی یکجہتی اس وقت وقت کی اہم ترین ضرورت ہےـ کامیاب سیاستی عمل اسی کو کہتے ہیں ـ الیکشن میں ہونے والی بے قاعدگیاں ہونی تھیں ـ ظاہر ہے عوام ابھی تک سو فیصد تو تبدیل نہیں ہوئی ـ ماضی میں سخت رویہ بار بار وفاقی حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ اس وقت آپکو سبق سکھانے کیلیۓ مشترکہ طور پر آپ کے اپنے انداز میں مکمل دباؤ ڈال کر تمام کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول آپکی اتحادی جماعت یہی مطالبہ دہرا رہی ہے ـ اس سے سبق یہ ملتا ہے کہ آج اس جماعت کو اپنے سیاسی رویےّ میں نرمی اور دباؤ کا عنصر کم کرنے کی اشد ضرورت ہےـ۔
پنجاب میں سندھ میں دہشت گردی ہو تو فوری طور پے صوبائی حکومتوں کو مستعفیٰ ہونے کا کہ کر 141 بچوں کے قتل عام پر صوبائی حکومت اس وقت کنٹینر پر حکومت پر اپنے مطالبات کیلیۓ دباؤ ڈالنے پر مصروفِ عمل تھی ـ یہ قتل عام تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ـ اور آج بھی ان بچوں کے وارث ماہی بے آب کی طرح تڑپ کر ٬صوبائی کے پی کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ـسیاسی بہت بڑی بڑی غلطیاں ہو رہی ہیں اور دوسری جانب موجودہ حکومت گھاگ شکاری کی طرح جال پھینکے اس طلسم کو توڑنے میں مسلسل عمل سے مصروف ہے ـ طاقتور ہمیشہ نظام میں رہ کر ہوتا ہے ـ نظام سے باہر رہ کر بہت دانشمندی اور اندرونی طور پر پہلے گھر کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر کے پھر نظام سے پوری طاقت سے حکمت سے ٹکرایا جاتا ہے ـ یہی اس وقت ضروری امر ہے اپنی جانب اور اپنی مسلسل ہوتی غلطیوں سے سیکھا جائے ـ دباؤ کی سیاست اور گھیراؤ کی سیاست کو بتدریج کم کر کے اصلاحی اور مستحکم سوچ پر مبنی نرم انداز گفتگو اپنا کر نئے انداز میں سامنے آکر اسی عام انسان کو ساتھ ملایا جائے جس کے ساتھ اسکی زندگی کو حیرت انگیز طور پے بدلنے کا عہد کیا گیا تھا ـ اے اللہ اس آرٹیکل کے ایک ایک حرف کو حق کی پکار اور بےلاگ بنا دے پڑھنے والے پر مقصد عیاں ہو ـ کسی قسم کی بد دلی یا مایوسی طاری نہ ہو ـ اور نہ ہی تخریبی سوچ جنم لے آمین۔