سیاست میں حریف کو عوام کی ظاقت حاصل ہو تو بوکھلاہٹ میں ذہن کام کرنا چھوڑ جاتا ہے لالہ طاہر کا خوف بشارت رندھاوا سے زیادہ نوں کوٹ کے سردار اور اس کے حواریوں پر طاری ہے یہ شعبدہ باز اپنی پٹاری سے طاہر رندھاوا کیلئے ہر روز نیا شوشہ چھوڑتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ وہ سرکاری گاڑی پر ڈرائیور ہے کبھی اسے بلدیہ کا ملازم بنا کر عوام کے سامنے اپنا رونا روتے ہیں اور گزشتہ روز تو بوکھلاہٹ میںساری حدیں پار گئے کہ 22 جولائی کو طاہر رندھاوا کی پیشی ہے ان مداریوں کو یہ شوشہ چھوڑتے وقت یہ بھی یاد نہ رہا کہ 22 جولائی کو تو اتوار ہے بالفرض اگر نواں کوٹ کے جعلی سردار کا یہ شوشہ درست بھی ہو کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ اپیل دائر کرنے کی الیکشن کمیشن کے پاس ایک آخری تاریخ ہوتی ہے جس کا وقت گزر چکا اب عوام اتنے بے وقوف نہیں کہ انہیں کسی بات کا علم نہ ہو اب محسن کش عوام کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپ سکتے جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے
حلقہ پی پی 282کیلئے طاہر رندھاوا کیوں ضروری ہے ؟ یہ سوال مجھے عوام کے آگے رکھنا ہے اسمبلی کے فورم پر اگر آپکا کوئی نمائندہ اپکے حلقہ کے سلگتے ہوئے مسائل اُجاگر کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اُسے ووٹ دینے کا کوئی حق حاصل نہیں اور آپ کے مسائل کا ادراک وہی نمائندہ کر سکتا ہے جسے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے صاحبانِ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے حلقہ کا حق لینا آتا ہو یہ بھی حقیقت ہے کہ آپکے مسائل کا ادراک بھی وہی شخص کر سکتا ہے جو آپ میں سے ہو آج تک آپ کے ووٹوں کی طاقت سے اسمبلی میں وہی نمائندے پہنچے جن کا تعلق آپکے طبقہ سے نہ تھا جو منتخب ہوئے تو اُنہوں نے لاہور کے پوش علاقہ میں محل خرید لیئے اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے ان لوگوں نے لوٹ مار کی ایسی تاریخ رقم کی کہ آج وہ منہ چھپاتے پھر رہے ہیںنیب میں ان سرداروں کی فائلیں پڑی ہیں اور الیکشن کے بعد ان پر نیب کا شکنجہ ٹائیٹ ہونے والا ہے
بشارت رندھاوا کے دروازے پر وہی لوگ آتے ہیں جن کے پائوں میں جوتے نہیں ہوتے ،تھانہ سے انصاف لینے کیلئے جو پیسے دینے کی استطاعت نہیں رکھتے جو تحصیلدار کو رشوت دیکر اپنی سکنی اراضی کانتقال نہیں کرا سکتے ،جو عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک گئے اور اُنہیں کسی سردار کا ”مالشی ”اتنا کنگال کر چکا کہ اب کچہری کا رخ کرنے کی وہ سکت سے محروم ہے جن کے پاس غیرت ہے اور وہ کسی سردار کے پائوں چھونے کی جسارت نہیں کرتے اب بشارت ہی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرے گا
مجھے آج نواں کوٹ کے سردار کے حواریوں سے کہنا ہے کہ جیتے گا وہی جس کے ساتھ عوام کھڑے ہونگے اور آج عوام کی عدالت میں بشارت رندھاوا سرخرو ہے چور دروازے سے تحریک انصاف میں داخل ہونے والوں کو عوام نے قبول نہیں کیا پی ٹی آئی کے نظریاتی ووٹرز کی نفرت نواں کوٹ کے سردار کے سامنے مزاحمت بن کر کھڑی ہے اس لیئے کہ پی ٹی آئی کیلئے گراس روٹ لیول تک تنظیم سازی کا کام بشارت رندھاوا نے کیا اور آج گراس روٹ لیول تک عوام بشارت رندھاوا کے ساتھ کھڑے ہیں ربنواز خان کھتران ،چوہدری طارق اولکھ سے لیکر شکیل چیمہ اور تجمل حسین بلگن تک کندھے سے کندھا جڑا نظر آتا ہے دس سال تک چوبارہ کے مظلوم لوگ اگر انصاف کی اُمید کا کوئی در دیکھ کر آئے تو وہ بشارت رندھاوا کا دروازہ تھا اب تھل کے ریگزاروں میں بیٹھے لوگ بشارت رندھاوا کو ہی اپنا مسیحا جان چکے کوٹ مراد سے لیکر نواں کوٹ کی دیواروں تک بشارت رندھاوا کا نام گونج رہا ہے جن لوگوں تک بشارت نہیں پہنچا وہ لوگ بھی بشارت کے ساتھ کھڑے ہیں بشارت رندھاوا کا الیکشن ایک تحریک میں بدل چکا ہے جس میں حلقہ پی پی 282کے کسی فرد کے پاس اگر 100روپے ہیں تو وہ 90روپے بشارت رندھاوا کی الیکشن مہم میں جھونک رہا ہے بشارت رندھاوا کا کردار اپنی جگہ ،مظلوم عوام کیلئے آواز اُٹھانا اپنی جگہ ،لوگ ان جذبات کے ساتھ کبھی بھی کھڑے نہیں ہوتے اپنی ذات سے بڑھ کر کوئی کسی کا نہیں سوچتا حلقہ پی پی 282کے عوام کے پاس اعتماد کی جو دولت ہے وہ اُنہوں نے بشارت رندھاوا کی جھولی میں ڈال دی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ بشارت رندھاوا کی جنگ دو طبقات کی جنگ ہے ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کے پاس ناجائز دولت کے انبار ہیں اور ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کی قیادت بشارت رندھاوا کر رہا ہے۔