پاکستان خداوند برتر و بالا کی وہ عظیم نعمت جسے دوستانِ وطن رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہیں اور دشمن کے سینے پر ہر لمحہ بڑے سے بڑا سانپ لوٹتا ہے۔27 رمضان المبارک کی سعادت نشان مقبول ساعتوں میں نورانی ماحول کا مظہر پاکستان لاکھوں کلمہ پڑھنے والوں کی جانی و مال قربانیوں کے بعد نقشہ عالم پر ابھرا ہے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ کونسی نعمت نہیں ہے ہمارے پاس؟زندگی، شعور، انسانیت، معاشرت، تہذیب، صحت، تعلیم، والدین، گھر، روٹی، کپڑا، مکان غرض زندگی کی ہرنعمت سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے۔آسمانوں اورزمین کو ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے تسخیر کردیا ہے۔کائناتوں کا علم ہمارے سامنے یوں پھیلادیاگویاہم ہی اس ساری کائنات کے اکیلے وارث ہیں۔
ہم دنیا میں پہلی سانس لیتے ہیں تو ہم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی بارش برسنا شروع ہوجاتی ہے۔ہمارے والدین اس وقت تک اپنی شفقت، عنایت اور اپنی مہربانی کا سایہ کیے رکھتے ہیں جب تک ہم کسی کام کے اہل نہیں ہوجاتے۔ماں کے پیٹ میں ایک ندی سے خوراک مل رہی ہوتی ہے اور دنیا میں آتے ہیں اللہ رب العزت اپنی رحمتوں کے دریاؤں کی فراوانی کریتے ہیں۔
رہا سوال کہ کیا پا کستا ن ایک غر یب ملک ہے ؟۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معیشت کا اتار چڑھاؤ عدم استحکام کا شکار ہے جو اصل اور بنیادی مسئلہ ہے۔پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ گداگری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں، جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج دن بہ دن ختم ہوتا جا رہا ہے۔پالیسیوں میں مسلسل ناکامی سے ملک کے حا لات بدتر ہوتے چلے گئے ا و ر ماضی سے از حال تک کوئی خاطر خوا ہ تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے اب موجودہ صورت حالت مزید سنگین ہوگئی ہے۔ملک میں سب سے بڑا مسئلہ غربت کا ہے جو حکمرانوں کی نا اہلی ، جرائم اور سماجی کمزوری کی وجہ سے ہے۔
غربت کی ایک اور وجہ کرپشن ہے،کرپشن کی ہمارے معاشرے میں مختلف اقسام ہیں جس کی وجہ سے نظام کا بنیادی ڈھانچا بیرونی طور پر مضبوط مگر اندرونی ساخت کو دیمک چاٹ چکی ہے،اوپر سے نیچے تک ادارے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔عالمی شماریاتی ادارے کیمطابق پاکستان کرپشن کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔اس پورے منظر نامے میں کچھ کرپٹ لوگوں کا وسائل پر قبضہ کرنااور عام مزدور طبقے کو متوسط رکھنا ہے۔ سابق حکومت کے خود کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے بنیادی تجویز کردہ پالیسیوں کا کامیا ب نتیجہ حاصل نہیں ہوتا تھا،ایک پالیسی کی ناکامی کے بعد سابق حکومتوں نے اسکی ناکامی پر غور ہی نہیں کی ا ور نئی پالیسی کا اعلان کردیاجاتا تھا۔بھاری ٹیکسوں سے کچل کر بیروزگاروں کو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پرمجبور کر دیا جاتاہے۔ مزدور طبقہ اور عام آدمی کو بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔خصوصی طو ر پر صحت و علاج، پانی، انصاف کی فراہمی ،مہنگائی ،ملازمت ،قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب کرپٹ، بدعنوان عناصر جو آج کل سڑکوں پر مارچ اور احتجاج کی کال دے رہے ہیں ۔ان میں سے بیشتر سابق اراکین قومی وصوبائی اسمبلی صنعت و تجارت کے شعبے سے وابستہ تھے اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے صرف ایسے ہی کاروباری منصوبے میں دلچسپی رکھتے تھے جس کا فائدہ ملک و قوم کی ترقی کی بجائے انکی ذات تک محدود ہوتا ۔ سابق حکومتیں اداروں کو منظم کرنے میں ناکام رہی ہے۔حکومت کی جانب سے چلائے جانیوالے اداروں کو غیر ملکی سرمایہ داروں کو بیچا جاتارہا ہے،مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیاء کو مہنگا کردیا جاتا ہے، اجارہ داری کے منصوبوں کے تحت کمیشن لے کر ڈیل کی جاتی ہے اور آخر میں تمام بوجھ صارف کو ہی اٹھانا پڑتا ہے یہی وجہ مہنگائی اور غربت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان خداوند برتر و بالا کی عظیم نعمت ہے اور پاکستانی دنیا میں ایک عظیم اور بہادرقوم کے نام سے پہنچان رکھتے ہیں۔ ہمیں بطور پاکستانی شہری ذمہ داری کے ساتھ ان بے ضابطگیوں کو غور طلب فیصلوں سے حل کرنا ہوگا۔ہماری قوم کی خوش قسمتی ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا حل موجود نہ ہو،مگر بد قسمتی اس بات کی ہے کے ہم اپنی اصلاح کرنا ہی نہیں چاہتے ۔اگر آج بھی ہم نے کوئی سنجیدہ قدم نہ اٹھایا تو ہم لوگ کبھی بھی مہنگائی ، غربت ،احتجاج اور موروثی سیاست سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔