تحریر : سجاد گل بہو بالکل کام نہیں کرتی تھی، ماں اور بیٹے نے مشورہ کیا کہ ہم ایک گیم کریں گے تا کہ بہو کام کرنے لگے،لہذا بیٹے نے کہا امی آپ جھاڑو لگانا میں کہوںگا امی آپ رہنے دیں میں لگا دیتا ہوں،اس طرح بہو شرم کے مارے کام شروع کر دے گی، جب ماں جھاڑولگانے لگی تو بیٹے نے ایسا ہی کہا، امی جی آپ رہنے دیں اس بوڑھاپے میں آپ کیوں کام کریں ؟میں جھاڑو لگا دیتا ہوں،امی نے کہا نہیں نہیں بیٹا لڑکے گھر کا کام کرتے اچھے نہیں لگتے مجھے ہی کرنے دو، اتنے میں بہونے دخل اندازی کر دی،اور کہا،او ۔۔او ۔۔اتنی سی بات پہ بحث کی کیا ضرورت ہے ایک دن ماں جھاڑو لگا دیا کرے اور دوسرے دن بیٹا۔ بس جناب ہمارے سیاست دان بھی اس بہوکی طرح کے ہیں، اور سارے کے سارے ایک ہی کِلے پر باندھنے کے قابل ہیں، کون ٹھیک اور کون غلط، کون اچھا اور کون برا،فرق کرنا مشکل نہیں بلکہ مشکل تر ین ہے، سب اس محاورے کا مصداق نظر آتے ہیں”حمام میں سب ننگے”ایک سے بڑھ کر دوسرا سکینڈل، دوسرے سے بڑی تیسری سٹوری، تیسری سے اونچاچوتھا قصہ،اور چوتھے سے بڑا پانچواں افسانہ اور اللہ ہی حافظ ان داستانوں کا جو منظر عام پر آنے سے پہلے ہی ہضم کر دی جاتی ہیں۔
سب سے پہلے ن لیگ کا ذکر خیر کرتے ہیں جو اس وقت اقتدار کی جماعت ہے، نواز شریف کو ہی لے لیجئے کیا اب بھی وہ اس قابل ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم رہیں،ایک ایسا شخص جو کاروبار میں قدم رکھتاہے تو اسکے حصے میں ناکامی اور نامرادی کے سوا اور کچھ نہیں آتا ، مگر جب یہی میاں صاحب سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو سیاست انہیں ایسی راس آتی ہے کہ مال ہی مال، شہرت ہی شہرت، عزت ہی عزت، یہ فیکٹری وہ کارخانہ،یہ مِل اور وہ کمپنی،پھر ایسی کامیابیاں جیسے میاں صاحب کے ہاتھ گیدڑ سنگی لگ گئی ہو، سمجھ نہیں آتا کہ اسے نواز شریف کی کامیابیوں کا نام دیا جائے یا پھر عوامِ پاکستان کے اعمال کی سزا،یا پھر نواز شریف کی بھی آزمائش اور پاکستانیوں کی بھی آزمائش،یہاں تک کہ میاں صاحب اُس ملک کے تین دفعہ وزیراعظم بن جاتے ہیں جو ملک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔
Sharif Family
جسکا وزیراعظم کوئی بے ایمان فاسق، فاجر اور گناہِ کبیرہ کا عامل نہیں بن سکتا،پھر کبھی قوم کو قرض اتارو ملک سنواروکا چونا لگایا جاتا ہے،تو کبھی سپریم کورٹ پرحملے کئے جاتے ہیں،کبھی فوج کو برا بھلا کہا جاتا ہے،تو کبھی ملکی خزانہ غائب ہو جاتا ہے،کبھی منی لانڈرنگ کے سکینڈل سامنے آتے ہیں، تو کبھی ان میاں صاحب کو لٹیرا اور چور کہہ کر فوجی بوٹ کا ٹھڈا لگا کر ملک بدر کردیا جاتا ہے،بغیر بالوں والے صاحب سر پر جعلی بال لگائے دوبار میدان سیاست میں کود پڑتے ہیں،اور لٹی پٹی غریب اور لاچار عوام کو خوب سبز باغ دیکھا کر دھوکہ دیتے ہیں،پھر کبھی ماڈل ٹائون میں لہو اور خون کا کھیل کھیلا جاتا ہے،تو کبھی لاشوں کی سیاست کی جاتی ہے، پھر میٹرو اور موٹروے کے منصوبوں کی آڑ میں عوام کاخون پسینے کا پیسہ لوٹا جاتا ہے۔
عمران خان کے ہر سوال و اشکال اور لعن تعن کا تو جواب ضروری سمجھا جاتا ہے ،مگر انڈیا کی دھمکیوں اور ریشہ دوانیوں کاان حکمرانوں کے پاس کو ئی جواب اور حل نہیں، انڈیا کوساڑیاں اور آم دئیے جاتے ہیں اور عوام کو لولی پوپ، اب پانامہ لیک میں شریف خاندان کے نام آنا،ان حکمرانوں کی اس روش کی وجہ سے لگنے لگتا ہے جیسے ان کا مقصدِحیات ہی یہ ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے،پاکستان کو لوٹنا ہے،اسکی جڑوں کو کھوکھلاکرنا ہے،عوامِ پاکستان کو متنفر کرنا ہے۔
اف تمہاری کرپشن، توبہ تمہاری چوریاں، ہائے تمہارا اندازِ حکمرانی۔ رہے دھرنے والے صاحب تو لگے ہاتھوں انکا بھی افسانہ سنتے جائیے،برطانیہ میں مئیر شپ کے الیکشن میں ایک پاکستانی صادق حسین امید وار ہیں اسی طرح دوسری طرف عمران خان کی سابقہ اہلیہ کے بھائی گولڈ سمیتھ بھی اسی منصب کے امیدوار ہیں،مگر ہمارے لاڈلے اور انوکھے محبِ وطن خان صاحب صادق حسین کے بجائے گولڈ سمیتھ کی الیکشن مہم چلا رہے ہیں،یہ ہے کھلا تضاد اور کھلی منافقت،صاحب اپنے گریبان میں جھانکنے سے قاصر ہیں مگر تبدیل کرنے چلے پاکستان کو،جناب کے دل و دماغ پر اب بھی پرانی شریک ِ حیات کا پورا کنٹرول ہے، اورحضرت نکلے ہیں نیا پاکستان بنانے، اف تمہارے نعرے،توبہ تمہارے دعوے ،ہائے تمہارا عمل۔ ادھر پی پی والے اپنی آخری سانسیں گننے کے باوجود ڈھول تھاپتے پھر رہے ہیں، کبھی انکے کپتان ایک زداری سب پہ بھاری، فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے ہیں تو کبھی انکے وکٹ کیپراعتزاز صاحب فوج کے خلاف کوٹ بی ہائین کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔
Imran Khan
کبھی بارہویں نمبر کے وہ کھیلاڑی جو عموماََ پچ پر کھڑے کھیلاڑیوں کو پانی پہنچانے کا کام سر انجام دیتے ہیں، وہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر فوج کو للکارتے ہیں،میری مرا د بلاول (اصل زرداری اور نقل بھٹو )ہیں،جب کہ مشرقی پاکستان کے سانحہ سے لے کر آج تک پی پی نے جو گُل کھیلائے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں،یہی وجہ ہے پاکستان کی سب سے بڑی جماعت آج ٹنڈوآدم خان کے صحرائوں تک محدود ہو کر سسکیاں لے رہی ہے،اف تمہارے لیڈر ،توبہ تمہاری سیاست ،ہ ائے تمہارے پانچ سال۔ سچ تو یہ ہے کہ ان تمام سیاست دانوں میں اس قابل کوئی ہے ہی نہیں جس پر اعتماد کر کہ اسے اتنے عظیم ملک کی حکومت دے دی جائے ، بلکہ ان ٹیکس چوروں کو تو پاکستان میں کاروبار بھی نہیں کرنے دینا چاہئے۔
ان کے بچے باہر،ان کے بنگلے باہر،ان کی دولت باہر،ان کا علاج باہر، کیا پاکستان سے انکا تعلق صرف اتنا ہے کہ آئیں حکومت کریں اور مال جمع کرکے بائے بائے؟ڈاکٹر دانش سے کسی نے پوچھا کہ پاکستان کا غریب شہری کیا سوچتا ہے اور امیر آدمی کیا سوچتا ہے، تو ڈاکٹر دانش نے ایک تاریخی جواب دیا، کہ غریب شہری سوچتا ہے مہنے کے آخر میں وہ پانچ سو روپے کس طرح بچا ئے،اور امیر آدمی سوچتا ہے کہ وہ غریب آدمی کے بچائے ہوئے پانچ سوروپے کس طرح اسکی جیب سے نکالے،ان حالات میں ایک بندہِ خدایہی کہہ سکتا ہے،اف ..توبہ..ہائے ..یہ سیاستدان۔
Sajjad Gul
تحریر : سجاد گل (دردِ جہاں) dardejahansg@gmail.com Phon# +92-316-2000009 D-804 5th raod satellite Town Rawalpindi