شملہ معاہدے کی مصیبت

Simla Agreement

Simla Agreement

گزشتہ ایک ہفتے میں بھارت کے ساتھ معاملات، تعلقات، مذاکرات سمیت کئی پہلوئوں سے سرگرمیاںعروج پر رہیں لیکن اسلام آباد میں جاری حصول اقتدار کے کھیل نے ملکی دفاع اور ملکی سلامتی کے حوالے سے ان تمام اہم ترین موضوعات کو ہر لحاظ سے پس پردہ رکھا۔یہ سب تکلیف دہ بھی ہے اور پریشان کن بھی کہ ملک کے اقتدار پر قبضے سے پہلے ملک کی بقاو سلامتی کی کسی کو فکر نہیں۔اس ایک ہفتے میں بھارتی وزارت خارجہ نے کشمیر کے مسئلہ کے حوالے سے ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعہ ہے لہٰذا اس میں صرف دو ممالک کے بیچ بات ہو سکتی ہے۔

اس مسئلہ میں کسی تیسرے فریق کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔ (صاف مراد حریت قیادت ہے) بھارتی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے کہا کہ شملہ معاہدے کے تحت اور اس کے بعد اعلان لاہور میں یہ طے کیا جا چکا ہے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان و بھارت کے مابین قضیہ ہے جسے وہ مل بیٹھ کر حل کریں گے، لہٰذا کسی تیسرے فریق کو شامل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے اس بیان پر کشمیری حریت رہنمائوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا جو ان کا حق اور ہر لحاظ سے جائز تھا۔ بھارت کا یہ کہنا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان و بھارت کے درمیان دو ملکوں کا سرحدی جھگڑا ہے، سراسر جھوٹ ہے کیونکہ تقیسم ہند کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے باعث کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملنا تھا لیکن بھارت نے اس پر قبضہ جما لیا۔ پھر جب وہاں تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر بھارت خود دوڑتا ہوا اقوام متحدہ پہنچا جہاں بے شمار قراردادوں میں یہ طے پایا کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے گا۔مانا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کروایا جائے گا۔

تاکہ کشمیر کے لوگ اپنے مستقبل کا تعین خود کر سکیں۔ یہ قراردادیں 1972ء کے بدنام زمانہ شملہ معاہدہ سے بہت پہلے بار بار منظورہوئیں، جن کی ساری دنیا گواہ ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ اقوام متحدہ جن طاقتوں نے بنائی تھی وہ انہی کے اشاروں پر وہی مسئلے حل کرتی ہے جن کی اسے ہدایت ملتی ہے۔ اس لئے تو اس نے اپنے قیام کے ساتھ ہی اسرائیل کو جبری طور پر عالمی نقشے پر آزاد ملک تسلیم کر کے فلسطینیوں سے ان کی زمین چھین لی تھی۔ چند لاکھ یہودیوں کو کئی ملین اہل فلسطین پر ترجیح دیتے ہوئے ارض فلسطین کا 55 فیصد حصہ دے دیا گیا۔

پھر اس اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں فلسطین کا وجود ہی مٹا ڈالا لیکن اسے کسی نے کچھ نہ کہا۔ آج بھی اسرائیل نے غزہ کے 18 لاکھ لوگوں کا ناطقہ بند کر کے انہیں بدترین حالات سے دوچار کر رکھا ہے لیکن اس پر کوئی نہیں بولتا۔ اسی اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو ان کی مرضی کا فیصلہ کرنے کا حق دیا۔ اب یہ تو کشمیری قوم پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ بھارت تو خود سے بھی تسلیم کردہ قابض قوت ہے، بھلا اسے یہ کیسے اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ کشمیریوں کے بارے میں یہ کہتا پھرے کہ ان کی قسمت کا فیصلہ پاکستان یا بھارت آپس میں مل بیٹھ کر کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔

Kashmiris

Kashmiris

اس میں کسی کو نہ کل شک تھا، نہ آج ہے۔ بھارت نے ان کی گردن پر 10 لاکھ فوج مسلط کر کے انہیں دبا کر رکھا ہوا ہے۔ اس پر ساری دنیا اس کی ہمنوا ہے تو اس کا مطلب یہ تو قطعاً نہیں ہو سکتا کہ کشمیریوں پر ہم اپنی مرضی مسلط کرتے پھریں۔ اگر پاکستان کے کسی سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے اپنی قوم کی مرضی کے بغیر کسی دستاویز پر ”شملہ معاہدہ” کی شکل میں دستخط کر بھی لئے تھے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پاکستان کا تو اس وقت فرض اولین یہ بنتا ہے کہ وہ شملہ معاہدہ کو کالعدم قرار دے دے کیونکہ یہ معاہدہ تو سراسر ذاتی رائے اور شخصی مرضی پر ہوا تھا۔ اسے کے لئے پاکستانی پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ پھر یہ معاہدہ کیسے پاکستان کے لئے حرف آخر یا ناقابل تردید و ناقابل تبدیل دستاویز بن سکتا ہے۔

بھارت پہلے تو مذاکرات کرتا ہی نہیں۔ شملہ معاہدہ تو 1972ء میں ہوا جبکہ کشمیر کا مسئلہ 1947ء سے چلا آ رہا ہے۔ آخر بھارت کو 1972ء تک یعنی شملہ معاہدے سے پہلے کس چیز نے مسئلہ کے حل سے روک رکھا تھا ۔ شملہ معاہدہ ہو جانے کے بعد آج 42 سال کے عرصہ میں اس نے مذاکرات میں بھی اس پر کتنی پیش رفت کی ہے ،سب کے سامنے ہے۔

بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے۔ اس کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لئے ہر ممکنہ و ناممکنہ حربہ استعمال کر رہا ہے۔ بھارت میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر جناب عبدالباسط نے کشمیری حریت رہنمائوں سے ملاقات کر کے بہت اعلیٰ اقدام کیا ہے جس کی بھارتی ایوانوں میں زبردست ہلچل بلکہ زلزلہ ہے اور بھارت نے کمینگی کی انتہا کرتے ہو ئے ہمارے سفیر پر مقدمہ تک بنا ڈالا ہے۔ بھارت نے ان ملاقاتوں کو بنیاد بنا کرخارجہ سیکرٹریز کے مذاکرات بھی منسوخ کر دیئے جو کہ بھارت کی بدنیتی کی واضح مثال ہے۔ سوہمیں بھارت نہیں بلکہ کشمیری قوم کے اعتماد کو ہر صورت بحال رکھنا چاہئے ۔اس میں بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ ساری کشمیری قوم اور اس کی قیادت پاکستان پر جان چھڑکتی ہے۔ وہ پاکستان کے بغیر جینے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس لئے کشمیری عوام کا اعتماد ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

اسی ایک ہفتے میںپاکستان میں جاری سیاسی بحران اور ہلچل کا فائدہ اٹھا کر بھارت نے کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ ورکنگ بائونڈری اور بین الاقوامی بارڈر پر بھی زبردست گولہ باری اور فائرنگ شروع کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے کئی شہری شہید اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے مکانات اور املاک کی تباہی کا سلسلہ بھی جاری ہے جس کے باعث لوگ سرحدی علاقے چھوڑ رہے ہیں۔یوں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔ بھارت نے اس سب کے ساتھ ساتھ پاکستانی سرحد پر بھاری اسلحہ اور توپ خانہ وغیرہ بھی پہنچانا شروع کر رکھا ہے جس سے اس کی نیت کا کھوٹ واضح ہے کہ پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات کا فائدہ اٹھا کر بھارت پاکستان کو دبائو میں لانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان بھارت سے اپنا کوئی حق بھی طلب کرنے کے قابل نہ رہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جو بھی تنازعات جاری ہیں، ان سب میں لینا پاکستان نے ہے اور دینا بھارت نے ہے کیونکہ وہ ہی ہمارے ہر حق پر قابض ہے۔ بھارت یہی چاہتا ہے کہ پاکستان اس قدر دبائو میں رہے کہ وہ اپنے کسی حق کا نام بھی نہ لے سکے۔ پاکستان آج کل بھارت کی آبی جارحیت کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے۔ کیونکہ بھارت نے ہمیشہ کی طرح پانی کے سنگین ترین مسئلے پر مذاکرات میں پاکستان کی کوئی بھی بات یااعتراض ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جانے کا اعلان کیا ہے لیکن بھارت چونکہ کسی کی کوئی بات کبھی خاطر میں نہیں لاتا اس لئے یہاں بھی معاملہ سندھ طاس معاہدے کے ضامن عالمی بنک کے فیصلوں کے اثرات سے آگے جاتا معلوم نہیں ہوتا۔بھارت نے تمام تر پاکستانی کوششوں کے باوجود کسی آبی منصوبے پر کبھی کام نہیں روکا بلکہ وہ تو اطلاع بھی اس وقت کرتے ہیں جب کام 70فیصد تک مکمل ہو چکا ہوتا ہے اور ہمارے شور مچانے یا مذاکرات کرنے کا فائدہ بھی سے سے نہیں ہوتا۔ہم بھارتی آبی یلغار میںبری طرح پھنس چکے ہیں جس کا کوئی سیاسی پارٹی نام تک نہیں لیتی۔آخر کیوں؟ بھارت کی یہ ساری جارحیت ہماری قوم کی آنکھوں سے اوجھل کر دی گئی ہے جس کا فائدہ صرف اور صرف بھارت اٹھائے گا۔

سیاست اور اقتدار کا کھیل اپنی جگہ اور یہ ہمیشہ جاری رہتا ہے لیکن ملکی سرحدوں کا دفاع ہمیشہ اولین و مقدم ہوتا ہے۔ہم کیوں بھول گئے کہ ہمارے اس طرح کے سیاسی کھیل تماشوں کا بھارت نے 1971ء میں فائدہ اٹھا کر ہمارا ملک دو ٹکڑے کیا تھا۔آخر ہم کب آنکھیں کھولیں گے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین