کئی بار سوچا کہ سیاست کو گولی ماروں اور کالموں شالموں سے پرہیز کروں کہ زیست میں سکون کے لیے ضروری۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو پھر بھی تھوڑی بہت سچائی کا دامن تھامتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر سوائے جھوٹ کی آڑھت کے اور کچھ نہیں جو نفسیاتی مریض بناتا رہتا ہے۔ پھر یہ سوچ کر ارادہ ترک کر دیتے ہیں کہ ہمارے ”افلاطونی تجزیوں ” کا ایک زمانہ معتقد۔ اگر ہم نے کالم لکھنا چھوڑ دیئے تو کئی دِل ٹوٹ جائیں گے اورہم کسی کا دل نہیں توڑ سکتے کیونکہ ”جیڑے توڑدے نیں دِل برباد ہون گے”۔ کالم لکھنے کی ایک وجہ یہ کہ ہمیں اپنی سونامی سے پیار ہے۔ یہ الگ بات کہ اب ہمارے کپتان نے سونامی کا ذکر چھوڑ کر ”نہیں چھوڑوں گا” کا نعرہ اپنا لیا ہے۔ ہماری لیگیوں سے چِڑکی وجہ بھی سونامی ہی ہے کیونکہ وہ جابجا اِسے نشانۂ تضحیک بناتے رہتے ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے ایک لیگیے سے ”مَتھا” لگا تو کوئی سلام نہ دعا، کھٹاک سے بولا ”ہُن آرام جے”۔ ہم نے چِڑ کر کہا ”کیا مطلب”؟۔ کہنے لگا کہ مہنگائی نے پوری قوم کے ”وَٹ” نکال دیئے ہیں پھر بھی آپ پوچھتی ہیں کہ کیا مطلب۔ ہم نے کہا ” خانِ اعظم کا فرمان ہے”گھبرانا نہیں”۔ کہنے لگا ”گھبرانا نہیں کی گردان سُنتے سُنتے اڑھائی سال بیت چکے۔ اب تو جو نہیں گھبراتے تھے، وہ بھی گھبرانے لگے۔ ویسے آپ کے خانِ اعظم سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی قوم کو کہا تھا ”گھبرانا نہیں”۔ آج گھبراہٹوں کی ماری امریکی قوم نے ٹرمپ صاحب کو ”لَم لیٹ” کر دیااور وہ کہتے پھرتے ہیں ”میں تاریخی کامیابی حاصل کر چکا ہوں لیکن مجھے دھاندلی اور مِلی بھگت سے ہرایا جا رہاہے”۔ ہم نے کہا کہ واقعی اُس بیچارے کے ساتھ دھاندلی ہو ئی اور وہ جیتی بازی ہار رہا ہے۔
یہی کچھ 2013ء میں ہمارے ساتھ ہوا۔ خانِ اعظم تو جیت کے لیے پُراعتماد تھے۔ وہ ٹی وی اینکرز کو لکھ کر دینے کو تیار تھے کہ اگلے وزیرِاعظم وہی ہوںگے۔ اُنہوں نے تو اپنے بیٹوں کو بھی کہا تھا کہ اب اُن سے اگلی ملاقات بطور وزیرِاعظم ہوگی لیکن جب نتائج آئے تو تحریکِ انصاف کو پیپلزپارٹی سے بھی کم نشستیں ملیں ۔۔۔۔۔”۔ لیگییے نے ہماری بات کاٹتے ہوئے کہا ”یقیناََ ٹرمپ کے ساتھ بھی ایسی ہی دھاندلی ہوئی ہوگی جیسی آپ کے ساتھ ہوئی۔ ابھی تک تو ٹرمپ نے پینتیس پنکچروں کی بات کی ہے، نہ پینٹاگون کے کسی بریگیڈئیر کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے اور نہ ہی کسی جج کو کہا ہے کہ کتنے میں بِکے؟۔ اُمید ہے کہ عنقریب وہ ایسے ہی الزامات دہراتے نظر آئیں گے”۔ ہم نے کہا کہ ٹرمپ ججز پر الزام کیوں لگائیں گے، امریکی سپریم کورٹ کے 9 میں سے 6 ججز تو ٹرمپ کے اپنے ہیں۔ اب سپریم کورٹ ہی جوبائیڈن کی ساری دھاندلیوں کو بے نقاب کرکے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ لیگیا بولا ”بالکل درست کہا آپ نے۔ آپ کے خانِ اعظم کے پاس اِس کاوسیع تجربہ بھی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں اُن کی اُمیدوں کا محورومرکز ”خلائی مخلوق” ہی تھی۔ وہ ٹرمپ کے دوست بھی ہیںاِس لیے حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے اُنہیں امریکہ جا کر ٹرمپ کو ”طریقۂ واردات” سمجھانا چاہیے”۔ ہم نے اُسے تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی باتوں سے گریز تمہارے لیے بہتر ہو گا۔
گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں میاں نواز شریف نے جو کچھ کہا اگر نواز لیگ اُسے ہی ہضم کر لے تو بہت ہے۔ جس پی ڈی ایم پہ تم لوگ اکڑ رہے ہو ، اُس کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ ابھی کل ہی بلاول زرداری نے کہا کہ اُسے میاں نوازشریف کی تقریر پر دھچکا لگاکیوں کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں کسی کا نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ پر بات کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ وہ تنک کر بولا ”اگر اللہ آپ کو توفیق دے تو پوری بات کیا کرو۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اِس بیان کے ساتھ ہی بلاول زرداری نے یہ بھی کہا تھا کہ میاں نوازشریف تین بار وزیرِاعظم رہ چکے ہیں، یقیناََ اُن کے پاس مسلمہ ثبوت ہوں گے جن کی بنا پر اُنہوں نے نام لیا۔ ویسے بھی اطلاعاََ عرض ہے کہ پی ڈی ایم کے گیارہ جماعتی اتحاد میں ہر جماعت کا اپنا منشور ہے اور اِن کا اتفاق اِس بات پر ہے کہ اِس سلیکٹڈ حکومت کا خاتمہ ہو اور کسی بھی بیرونی مداخلت کے بغیر نئے غیرجانبدار الیکشن کروائے جائیں۔
ہم نے کہا ”مُنہ سنبھال کے بات کرو، ہم سلیکٹڈ نہیں، الیکٹڈ ہیں اور اگر سلیکٹڈ ہوں بھی تو پھر بھی تم تو ریجیکٹڈ ہی ہو اور رہو گے۔ ایک دفعہ ذوالفقار علی بھٹو نے مفتی محمود سے پوچھا کہ سنا ہے پہلے ایک سال کے روزے اور سارے دن کی نمازیں فرض ہوئی تھیں۔ کیا یہ سچ ہے؟۔ جواباََ مفتی محمود نے اثبات میں سر ہلایا تو بھٹو صاحب نے بڑی حسرت سے کہا ”کاش کہ ایسا ہی ہوتا، آپ لوگ نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے رہتے اور ہم آرام سے حکومت کرتے”۔ آج ہم بھی کہتے ہیں کہ تم لوگ ”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ لگاتے رہو اور ہم حکمرانی کے مزے لوٹتے رہیں۔ اب 2023ء کے انتخابات میں ہی ملاقات ہوگی، تب بھی تم لوگوں نے ہمیں سلیکٹڈ ہی کہناہے۔ اُس نے کہا ”یہ آپ کی بھول ہے، 2023ء کس نے دیکھی ہے، آپ رونا دھونا بند کرکے بستر بوریا سمیٹیں اور چلتے بنیں کیونکہ جس ہاتھ کے سہارے تحریکئیے اُچھلتے کودتے رہتے تھے ”وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دَھرے”۔ پھر اُس نے کہا کہ خُدا کے واسطے وزیرِاعظم کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ مہنگائی پر ایکشن کا اعلان نہ کیا کریں کیونکہ جب بھی وہ ایسا اعلان کرتے ہیں، مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اُنہوں نے مہنگائی پر بارھواں ایکشن لیا تو مہنگائی 10 سے 30 فیصد تک بڑھ گئی۔
لیگیا تو جلی کَٹی سنا کر چلا گیا لیکن ہم تب سے یہ سوچ رہے ہیں کہ ”بات تو سچ ہے مگر ۔۔۔۔۔ ”۔مہنگائی کی موجودہ لہر سے صرف راشن کی مَد میں 3 سے 6 ہزار روپے ماہانہ تک اضافہ ہو چکا۔ بجلی، پانی، گیس کے بِل اِس کے علاوہ ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا ہے کہ اب تو پیناڈول کو بھی ہاتھ لگاتے ہوئے ڈَر لگتا ہے، جان بچانے والی ادویات کوئی کیا خریدے گا۔ صحت کارڈ پر وزیرِاعظم صاحب کی نیت نیک سہی لیکن یہ کارڈ بھی مفلسوں کی بجائے ارکانِ اسمبلی کے چاچوں، ماموں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کی بات چھوڑتے ہیں کہ اب لوگ اِسے بھول چکے لیکن مہنگائی کے عفریت سے تو اُن کا ہر روز سامنا ہوتا ہے اِس لیے ہم لوگوں کو یہ درس بھی نہیں دے سکتے کہ رونا منع ہے۔ وزیرِاعظم صاحب یقین کر لیں کہ نوبت اب گھبرانے سے رونے تک آن پہنچی ہے اور جب ایسی صورتِ حال ہو تو پھر حکومت کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہتی ،عوام ہی کافی ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وزیروں شزیروں کی چیخوں کے باوجود اپوزیشن کے جلسے کامیاب ہو رہے ہیں اور بیوروکریسی دور بیٹھی تماشہ دیکھ رہی ہے۔ جب صرف 2020ء کے پہلے 300 دنوں میں وفاقی بیوروکریسی میں 513 تبادلے ہوںگے تو بیوروکریسی کیوں اور کیسے کام کرے گی۔ یہی حالت وزیروں مشیروں کی ہے۔ اُن کی بھی آئے دن اُکھاڑ پچھاڑ جاری رہتی ہے۔ چند دن پہلے پنجاب حکومت میں 3 وزیروں کی چھٹی ہوئی۔ طُرفہ تماشا یہ کہ فیاض چوہان سے اطلاعات و نشریات کی وزارت چھین کر فردوس عاشق اعوان کو دے دی گئی۔ سوال یہ کہ کیا گالم گلوچ میں فیاض چوہان فردوس عاشق اعوان سے کم تھا جو اُس سے یہ وزارت چھین لی گئی۔ اب جہانگیر ترین بھی ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے پاکستان پہنچ چکا، اُس نے اکھاڑے میں اُترنے کا اعلان بھی کر دیا۔ آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔