جدا کر دیا ہے دین کو ہم نے سیاست سے

Election 2018

Election 2018

تحریر : حاجی زاہد حسین خان

یہ ایک حقیقت ہے کہ سلطنت امویہ کا نوے سالہ دور اور سلطنت عباسیہ کا پانچ سو سالہ طویل ترین دور اسلامی اصولوں پر سختی سے کاربند ہونے اور مذہب و سیاست کے ساتھ ساتھ چلنے ہی کی مرہون منت تھا۔ خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کی مدت خلافت تک تمام شعبہ جات زندگی سے کار حکمرانوں تک کلیاةسلامی رنگوں میں رنگا ہوا تھا۔ بعد کے عباسی خلفاء کے ادوار میں ایرانی نسل اور کرکی اور عجمی نسل جنرلوں وزیروں مشیروں کا عمل دخل بڑھنے سے تمام اداروں میں اسلامی رنگ پھیکا پڑنے لگا۔ اور عجمی رنگ چڑھنے لگا۔ مذہب کا عمل دخل کار حکمرانی میں کمزور تر ہوتا گیا۔ نئے خلیفے بے بس کر دیئے گئے۔ فرقہ واریت اپنا رنگ دیکھانے لگی۔ مجوسیوں ۔ اسماعیلیوں اور معتزلہ کی فتنہ گریاں اسلام دشمنیاں مسلم معاشرے اور عباسی خلفاء سے چن چن کر اپنے بدلے لینے لگیں۔ حتی کہ ہلاکو اور اس کی افواج کی صورت دیکر عباسی طویل ترین خلافت کا دھڑن تختہ کر ادیا گیا۔ بغداد کا سقوط ہو گیا۔

سولہ لاکھ مسلمانوں کا خون دجلہ اور فرات کے دریائوں میں بہا دیا گیا۔ بچے کھچے علماء صلحا اور اولیا ء اپنی بے بسی پر ماتم کرنے لگے یہ تھا وہ جرم مذہب سے سیاست کو علیحدہ کرنے اور نت نئے نظاموں کا کار حکمرانی میں تجزیہ تھا ایک لاکھ مربع میل سے زائد مسلم دنیا پر طلوع سورج غروب ہونے لگا۔ خلافت عباسیہ اسلامیہ ہی ختم نہیں ہوئی اندلس پر بھی عبدالرحمن کے طویل دور کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ مصر پر فاطمیوں کے بچے کھچے مسلم حکمرانوں کے خلاف صلیبیوں کی مدد کے جرم میں حکومت سے نکال باہر کر دیا گیا۔ ذلت آمیز شکست و ریخ کے بعد خوش قسمتی سے حکمرانی کا قرعہ عمادالدین زنگی ، نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی جیسے باکردار مذہب پرست حکمرانوں جرنیلوں کے نام نکلا جنہوں نے مذہب و سیاست کو یک جان دو قلب کر کے امت کی بچی کھچی عزت بحال کر دی۔ صلیبیوں کی نو جنگوں کا بھرپور مقابلہ کیا۔ اور یورپ سے مقابلے کے لئے لائی گئی لاکھوں کی افواج کو ہماری مسلم افواج نے عبرت ناک شکست پر شکست کھانے پر مجبور کیا اور اکیانوے سالہ مقبوضہ بیت المقدس کو صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں آزادی نصیب ہوئی قارئین عجب تو یہ ہوا کہ ہمارے مسلم حکمران تو دین کو سیاست سے علیحدہ کرنے اور سر پر تاج سجانے کے تجربات کرتے رہے۔ مگر سارے یورپ کے عیسائی حکمران اپنے راہبوںپادریوں پوپوں کی سرکردگی میں مسلمانوں کو تہہ و تیغ کرتے رہے اور قبلہ اول پر قبضہ جمائے رہے۔

یاد رہے کہ صلیبی جنگ او ل و دوم میں راہب پیڑ نے تیرا لاکھ عیسائی فوج کی قیادت کر کے قبلہ اول پر چڑھائی کی جرمنی کے پوپ انوسینٹ نے اڑھائی لاکھ اور راہب گائوس نے باقی کی صلیبی جنگوں میں دس لاکھ صلیبی افواج کی قیادت کی دشمنان اسلام تو اپنے مذہب کو سیاست اور قیادت سے جوڑتے رہے مگر ہمارے آنے والے نادان حکمران دین کو سیاست سے جدا کر کے جابر حکمرانی کا مزہ لوٹتے رہے۔ قارئین آج یہ بھی حقیقت ہے کہ صلیبیوں نے اسلامی دنیا پر گرفت مضبوط کر کے عسکری گرفت معاشی گرفت نظریاتی گرفت اور اپنے کلچر کو بھی کسی قدر گرفت کر کے مسلمان حکمرانوں میں سے اکثر کو اپنا دم چھلا بنا کر اپنے پادریوں لائبوں پوپوں کو چرچوں تک پابند کرکے اپنے مذہب مسیحیت کو اپنی سیاست اور اقتدار سے علیحدہ کر دیا۔ کہ اب آپ کی تقریروں تبلیغوں اور قیادتوں کی ضرورت نہیں رہی جس کا نتیجہ گزشتہ نصف صدی سے ان بدبختوں یہود ونصارا کی چنگیزیت نے وہ گل کھلائے کہ شیطان بھی ان چنگیزوں سے پناہ مانگ رہا ہو گا۔ جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم گرایا جرمنی کا تیاہ پانجہ کر دیا گیا۔ عراق کی تباہی بغدا د کا پھر سقوط پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ لیبیاء کی بربادی ۔ اور پھر افغانیوں کا تورا بورا کر دیا ۔ یہ تھی انکی اپنے دین کو سیاست سے علیحدہ کرنے کے بعد انکی چنگیزیت حیوانیت ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے مسلم حکمران بھی ان سے کہیں پیچھے نہ رہے۔

سوائے پاکستان اور سعودی مملکت کے سو سے زائد دیگر مسلم ممالک نے اپنے دین اسلام کو اپنی سیاست اور حکمرانی سے علیحدہ کر دیا اور اپنے ہی عوام پر انکی چنگیزیت جاری و ساری کی ۔ مذہب کی حکمرانی نہ رہی ۔ انصاف عدل نہیں رہا۔ دیانت و امانت کا تصور تک نہیں رہا۔ خدمت و اخوت نہیں رہا ہر طرف ہر ادارے میں ہر شعبے میں چنگیزیت ہی چنگیزیت اور بشار الاسد جیسے شیطان صفت مسم حکمران جس نے اپنی کرسی اقتدار کے لئے چنگیزیت میں ہلاکو کو بھی پیچھے چھوڑ دیااپنے ہموطن بچے بوڑھے عورتیں لاکھوں کی تعداد کا قتل عام کرادیا۔ اقبال نے اسی لئے پہلے ہی فرمایا تھا (جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی) قارئین سعودی مملکت گزشتہ نصف صدی سے سیاست کو مذہب کے تابع رکھا ۔ تمام شعبہ زندگی میں اسلامی شرعی اصولوں کو اپنے اقتدار کا لازم و ملزوم بنایا۔ مملکت میں امن و امان کا ڈنکا بجایا اور معیشت کو چار چاند لگا یا۔ یہ سب دین کو سیاست اور اقتدار سے جوڑے رکھنے کا نتیجہ تھا۔ مگر اب وہ بھی کسی قدر مصلحت کو شی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ نتیجہ اب وہاں اقتدار کی رسہ کشی اور امن و امان کی دن بدن زبوں حالی اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو۔ قارئین رہا ہمارا ملک تو گزشتہ ستر سالوں سے ہماری اسلامی ریاست اسلامی تو نہ بنی سیاست دین کے تابع تو نہ ہوئی مگرخوش قسمتی سے دین اور سیاست کسی حد تک ساتھ ساتھ چلتے رہے ہمارے علماء بھی سیاست میں آکر اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ ایک مضبوط کردار رہے۔

جمہوری ادوار ہوں یا مارشل لائی ادوار ہمارے علماء نے مذہب اور سیاست کو ہم پیالہ ہم نوالہ بنائے رکھا۔ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنائے اسکا آئین وقانون خصوصا 73 کے آئین کو متوازن بنانے میں اہم رول ادا کیا ۔ کرتے رہے۔ خوش قسمتی سے ہمارا مذہب دوست اسلام پسند معاشرہ اور پاکستان کے عوام نے بھی گزشتہ دہائیوں میں علماء کو اسمبلیوں میں پہنچانے میں اپنا رول ادا کرتے رہے۔ علماء نے بھی انہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ امانت دیانت اور صادق و آمین کی کسوٹی میں پورے کے پورے اترتے رہے۔ عوام کے حقوق اور اسلامی ضابطوں اصولوں پر پہرہ دیتے رہے۔ اس بات پر کسی کی دو رائے نہیں ہو سکتی گزشتہ سالوں میں یہاں مذہب بیزار قوتوں نے اور آزاد خیال حکمرانوں نے اپنے دونوں ہاتھ ملکی دولت پر صاف کئے ککھ پتی سے ارب پتی بنتے رہے مگر ہمارے اسمبلیوں میں پہنچنے والے علماء کا ہاتھ صاف رہا یہ صادق و آمین رہے مگر آج میں بڑے کرب سے درد سے لکھ رہا ہوں کہ موجودہ الیکشن 2018 میں ملک بھر میں علماء برادری کو عوامی نمائندگی سے محروم کر دیا گیا۔ نظر انداز کر دیا گیا۔ ٹھکرا دیا گیا۔ بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کی پالیسی اختیار کی آزاد خیال سیاستدانوں حکمرانوں کی ترغیب و ترحیص پر مادر پدر آزاد خیال روشن خیال معاشرے مخلوط معاشرے کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ ہنود و یہود و نصاری کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے علماء برادری کو دین اسلام کے چوکیداروں کو قانون ساز اداروں سے دور کر دیا گیا ہے۔ دین کو سیاست سے جدا کر دیا گیا۔ علماء برادری کو مسجد و منبر تک پابند کر دیا گیا۔ جس کا انجام بڑا بھیانک نظر آرہا ہے۔

ہماری نوجوان نسل تو مغربی معاشرے کی تقلید میں رخت سفر ہے ہی مگر ہمارا پورا معاشرہ بدیانتی بد کرداری بے حیائی کا عملی ثبوت بن کر خاندانی او ر اسلامی حدود و قیود کا باغی بن کر رہ جائے گا۔ اور چنگیزیت کا دور دورہ شروع ہو کر رہے گا ۔ جب معاشرے سے قانون ساز اداروں سے اہل علم مصلح اور عالم فاضل لوگوں کو نکال دیا جائے نظر انداز کر دیا جائے تو چنگیزیت آسمانی اور زمینی آفات اور بدیانت نا اہل حکمرانوں کی صورت میں عذاب بن کر مسلط ہوکر رہتے ہیں۔ عوامی تحفظات کے پیش نظر آج جب تمام مذہبی جماعتیں تمام مسالک کا ایک سٹیج پر جمع ہونے کے باوجود اہل پاکستان کا انہیں نظر انداز کر دینا ٹھکرا دینا ملکی تمام اداروں سے دونوں ایوانوں سے باہر کر دینا۔ مذہب کو سیاست سے الگ کر دینا امت کے لئے ہمارے معاشرے کے لئے ہمارے پاکستان کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ اس کی سزا اللہ نہ کرے ہمیں ہماری نسلوں کو مل کر رہے گی۔ آج ہمارے دونوں مقتدر ایوان علماء برادری سے محروم ہو گئے جس کے نتیجے ہمارے ایوان ابتداہی سے مچھلی بازار بنتے نظر آرہے ہیں۔ اور مستقبل میں بھی ان روشن خیالوں کی دال جوتوں میں بٹتی رہے گی۔ اللہ خیر کرے اللہ خیر کرے اللہ ہماری اور پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com