سیاست و مذہب

 Pakistan

Pakistan

پاکستانی معاشرہ میں مذہب و سیاست کا انضمام ایک بے حد حساس اور دل میں سوئی چُبھا دینے والا مسئلہ نظر آتا ہے۔ آج کے اس جدید اور پر تعیش دور میں مذہب و سیاست در حقیقت دو مختلف موضوعات بن چکے ہیں۔

مذہب کی بنیاد خدائے وحدہ’ لا شریف کی وحدانیت کا اقرار اور نظامِ کائنات میں اس کے ساتھ کسی دوسرے کی شرکت کا انکار ہے۔ مذہب نام ہے اس یقین اور اعتماد کا جو انسان کو اس کی اہمیت و افادیت کا احساس کراتا ہے۔

مذہب سے انسان میں پاکیزگی و طہارت، حق گوئی و حق ادائیگی ، خود فراموشی و خدا شناسی، صلہ رحمی و ہمدردی، ایمانداری و تقویٰ آتا ہے۔ مذہب انسان کو انسان سے محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔

باعزت و با شعور زندگی گزارنے کی تربیت ہمیں مذہبی درسگاہوں، اسکولوں، کالجوں اور جامعات سے ملتی ہے۔ مذہب قلبی و روحانی سکون کا مرکز ہوتا ہے۔ مذہب کے سبزہ زار میں شادمانی و مسرت کی بہاریں اپنی نغمگی و رعنائی سے مغموم دلوں کے درد و کرب کافور کرنے کا ہنر رکھتی ہیں۔

دنیا کی مادی رنگینیاں و عیش پرستیاں انسان کے ظاہر و باطن کو متزلزل کرتی ہیں تو مذہبی تعلیمات اسے تسکین عطا کرتی ہیں۔ اس کے برعکس آج کی سیاست ایک ایسا کھیل ہے جو انسان کو اقتدار حاصل کرنے کے دائو پیچ سکھاتا ہے۔ فی زمانہ سیاست اخلاقی زوال کا شکار ہوتی نظر آئی ہے۔ ایک جانب قدریں پامال ہو رہی ہیں تو دوسری جانب خود غرض رجحان برق رفتاری سے فروغ پا رہا ہے۔

اقتدار کے حصول کے بعد انسان ذاتی ترقی و ترویج کے لیئے کوشاں ہو جاتا ہے۔ فرقہ پرست اپنی کامیابی کے لیئے مذہب کو ایک آلہ کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں۔ نفرت و عداوت کے بیج بو کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرنا ان کا نصب العین ہوتا ہے۔

اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ عوام کے جذبات کو بر انگیختہ کرتے رہنا ان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے۔ سیاست کے دوسرے پہلوئوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر سیاست کو عبادت کی نیت سے کیا جائے تو یہ روح کی تسکین کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ سیاست میں مذہبی رواداری ایک اہم مقام کی حامل ہے۔

 Aurangzeb Alamgir

Aurangzeb Alamgir

مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی مذہبی رواداری کو فرقہ واریت کے سبب فراموش کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ نے ہندوئوں کو بے شمار جاگیریں عطا کیں اور تحائف سے بھی نوازا۔ متعصبانہ عینک اتار کر جب ہم تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ اورنگزیب کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ سرکاری خزانے کا تصرف بذات خود نہیں کرتے بلکہ قرآن کریم کے نسخے لکھ ک اور ٹوپیاں بُن کر اپنے ذاتی اخراجات پورے کرتے تھے۔ آج ہمارے سیاسی رہنمائوں کو غبن، رشوت، دغا بازی سے فرصت ہی کہا ہے ؟ بدعنوانی کے واقعات اور کرپشن کی کثرت اس بات کی دلیل ہے کہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ روپئے کی طاقت روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت حد تک اضافہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے مزدور پیشہ طبقے کو فاقہ کشی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ غریب کی غربت میں کثرت سے اضافہ ہو رہا ہے۔ امیروں کی امارات کی بلندیاں مزید بلند ہو رہی ہیں۔

آزادی سے قبل ملک کا ہر ایک باشندہ خواہ وہ کسی بھی مذہب و مسلک کا معتقد ہو اپنی صلاحٰت کے اعتبار سے جنگِ آزادی میں پیش پیش تھاخاص کر مسلمانوں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اتحاد و اتفاق، خلوص و محبت، ایثار و قربانی کا دور دورہ تھا۔ اس دور میں مسلمانوں کے حیرت انگیز کارنامے اظہر من الشمس ہیں۔ مسلمانوں کی جہدِ مسلسل سے جب آزادی کا وقت قریب ہوا تو باشندگانِ وطن ایک عجب کشمکش کے شکار نظر آئے۔

جہاں ایک طرف ملک کے آزاد ہونے کی خوشی تھی تو دوسری جانب اپنا گھر بار چھوڑ کر، اپنی صدیوں پرانی وراثت کے تقسیم کا سوچ کر بھی نالاں تھے۔ مگر نیا ملک، آزاد وطن کی خوشی دیدنی تھی۔انسان سے انسان کی دشمنی کی بنیاد ان فرسودہ خیالات پر مبنی تھی جس میں اپنے مذہب کے تقدس اور اس کے لیئے اپنی عقیدت کا معیار دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا تو ہو سکتا ہے مگر محبت اپنی جگہ قائم تھی۔ اس پورے منظر نامے میں سب کیا دھرا انگریزوں کا ہی لگتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ آزادی کے آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی ملک میں متعصبانہ ذہنیت رکھنے والوں پر قدغن عائد نہیں کی جا سکی ہے۔ ملک کا اکثریتی طبقہ خود کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے درجہ کا شہری تصور کرتے ہیں۔ زیادہ تر ذہن اسی غلط فہمی کا شکار کے شکار ہیں۔ بے گناہ لوگ پکڑے جاتے ہیں اور قصور وار لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ویسے بھی اپنا پیٹ بھرنے کی فکر میں مبتلا رہن والے کبھی دوسوں کا پیٹ نہیں بھر سکتے اسی لیئے تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفاد اور اپنی ترقی کو مقدم رکھ کر عوام کی خوشحالی کے لیئے بھی حقیقتاً کچھ کریں۔ عوام کی خوشحالی اس طرح نہیں ہو رہی ہے جس طرح کہ سیاسی جماعتوں کی ہو رہی ہے، وجہ یہ ہے کہ ایماندارانہ اور مخلصانہ کوششیں نہیں کی گئیں، عوام کو بیوقوف بنا کر ان سے ان کے ووٹ لے لیئے جاتے ہیں پھر ان کی پریشانیوں اور دقتوں پر نظر بھی نہیں کی جاتی ہے کہ اگر ایسا ہوگا تو پھر اپنی خوشحالی ممکن نہ ہو سکے گی۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں کمی ہے تو ایمانداری و دیانت داری کی، ہمدردی کی، محنت کی، عزت کی، انصاف اور بے لوثی کی۔ یہاں کرپشن ہے، لوٹ ہے، خود غرضی ہے ہوس اور لالچ ہے، حسد ہے، رقابت ہے، نفرت ہے، عداوت ہے یا پھر عظیم بے خبری اور بے حسی ہے۔ یہ اور اس جیسی کتنی ہی باتیں ان موضوعات پر لکھی جا چکی ہیں، مگر ارباب کا دھیان ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی کسی اور طرف ہے۔ خیر اس مقصد زیادہ کیا بولنا اس شعر پر اکتفا چاہتا ہوں کہ:

زیادہ بولنے سے تو بہت بہتر ہے چُپ رہنا
ادب کی حد میں رہنے سے سخن میلا نہیں ہوتا

پاکستان کی ترقی و بقائے دوام کی توقع تب ہی کی جا سکتی ہے جب سیاست کو مذہب سے الگ کرنے کا عزمِ مصمم کیا جائے۔ مذہب نے جو امن و امان کی تعلیم دی ہے اسے عام کیا جائے۔ معاشرے کو امداد باہمی ، ذہنی کشادگی، دور اندیشی، صبر و تحمل وغیرہ زیورات سے مزین کیا جائے۔ قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے والے شر پسند عناصر کو بروقت گرفت میں لے کر ان کے ناپاک عزائم کو ناکام کیا جائے۔ ان سب سے بڑھ کر انسانیت کا درس عام کیا جائے تاکہ اس کے فیوض و برکات سے ساری دنیا مستفیض ہو سکے۔ ہم پاکستانی یہ عزم کریں کہ آئین پاکستان نے جس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم کرنے کی تاکید کی اگر اسے اپنانے کی حتیٰ الامکان سعی کریں گے تو سسکتی اور کراہتی ہوئی انسانیت کو صرف نرم گفتاری سے ہی نہیں بلکہ اپنے اعلیٰ کردار سے تسلی و تشفی بخشیں گے۔ اس طرح ایک خوش حال معاشرہ کی تشکیل عمل میں آجائے گی پھر وہ دن دور نہیں ہوگا کہ جب پاکستان اپنی کھوئی ہوئی رفعت و برتری حاصل کر لے گا۔

Jawed Siddiqi

Jawed Siddiqi

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی