تحریر : عمران چنگیزی ضیائی آمریت کے تحفظ و بقا کیلئے پھیلایا جانے والا تعصب و لسانیت کا زہر قوم کی رگوں میں اس قدر رچ بس چکا ہے کہ آج پاکستان کا کوئی بھی خطہ اور شاید کوئی بھی فرد اس سے محفوظ نہیں جبکہ انتظامی نظام کی خامیوں اور سیاستدانوں و حکمرانوں کی مفادپرستانہ پالیسیوں اور عوامی استحصال کے باعث پھیلنے والی مایوسی و منافرت آج اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں چاروں صوبوں کو ایکدوسرے سے شکایات لاحق ہونے کے ساتھ صوبوں کے اندر سے بھی محروم اقوام علیحدہ صوبے کیلئے آواز اٹھاتی دکھائی دے رہی ہیں اور گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیئے جانے کے بعد جنوبی پنجاب کے عوام بھی علیحدہ صوبے کا مطالبہ کررہے ہیں اور سرحد میں بھی ہزارہ صوبے کی تحریک زور پکڑ چکی ہے جبکہ حکمرانوں کی استحصال و ناانصافی کی روایت کے باعث سندھ کی شہری آبادی بھی اپنے لئے الگ صوبے کا مطالبہ کرتی دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے سندھ میں پیپلزپارٹی کی موروثی سیاست خطرے میں پڑ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی تقسیم کیخلاف قوم پرستوں کے ساتھ یکجا ہوتی دکھاتی دے رہی ہے جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)جنوبی پنجاب صوبے کی سب سے بڑی مخالف ہے اور خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی ہزارہ صوبے کی تشکیل کو قومی وحدت کیخلاف قرار دے رہی ہے ۔دوسری جانب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سندھ میں اپنے عوامی اثرورسوخ کے حصول کیلئے سندھ کی تقسیم اور کالا باغ ڈیم کی مخالفت کا عندیہ دے چکے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں نئے صوبوں کے قیام اور مخالفت کا کارڈ کھیل رہی ہیں اور کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس نہ تو عوامی و قومی مسائل کا قابل عمل حل موجود ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت میں قومی وحدت کو برقرار رکھنے کی اہلیت ہے۔
ان مایوس کن حالات میں گزشتہ دنوںمحب وطن روشن پاکستان پارٹی کے چیئرمین امیر علی پٹی والا نے اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کیا جس کے مطالعہ اور اس پر غور و فکر کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا کہ امیر پٹی پاکستان کی وہ واحدقیادت اور محب وطن روشن پاکستان پارٹی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس کے پاس پاکستان و عوام کے موجودہ مسائل کے حل کا قابل عمل فارمولہ موجودہے مگر چونکہ اس سیاستدان کا تعلق غریب و متوسط عوامی طبقے سے ہے اور اس کی سیاسی جماعت بیرونی و غیر ملکی امداد کے ساتھ سرمایہ داروں ، تاجروں ،صنعتکاروں اور جاگیرداروں کی مفاد پرستانہ ڈونیشن وحمایت سے محروم ہے اس لئے اس جماعت کیلئے پارلیمنٹ میں عوامی نمائندگی کا حصول طویل عرصہ ممکن دکھائی نہیں دیتا شاید یہی وجہ ہے کہ تنظیم محب وطن روشن پاکستان کے قائد امیر پٹی نے دیگر سیاسی قیادتوں کی طرح اقتدار میں آکرعوام کیلئے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعوے اور وعدے کرنے کی بجائے وطن عزیز کی تمام سیاسی قیادتوں اور جمہوری جماعتوں کو اپنے منشور کے مطالعہ اورمتفقہ شقوں پرعملدرآمد کیلئے مشترکہ جدوجہد کی دعوت دیکر یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کا مقصد حصول اقتدار نہیں بلکہ ترقی وطن اور فلاح عوام ہے۔ امیر علی پٹی والا کا کہنا ہے کہ مقامی خود مختاری کے ذریعے عوام الناس کو شراکت اختیار واقتدار اور حق احتساب کی فراہمی سے عوام کے احساس محرومی و مایوسی کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے اور بد امنی و دہشتگردی کو بھی جڑ سے اکھاڑ کر قوم کو ہمیشہ کیلئے اس سے نجات دلائی جاسکتی ہے جبکہ با اختیار و خود مختار ڈویزنل کونسلوں کی تشکیل کے ذریعے ملک کے ہر خطے اور عوام کے ہر طبقے کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرکے نہ صرف حب الوطنی کو فروغ دیا جاسکتا ہے بلکہ صوبائیت ولسانیت کے زہریلے اجگرکا سر بھی کچلا جاسکتا ہے اسلئے ہم تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہمارے منشور کا مطالعہ کریں اور اگر اسے واقعی پاکستان و قوم کے مسائل کا قابل عمل حل پائیں تو بلاشک ہمارے سیاسی رفیق بنیں یا نہ بنیں اپنے طور پر اس نظام کو رائج کرکے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کریں۔
مقامی خود مختاری کے قیام کیلئے مجتہد محب وطن روشن پاکستان پارٹی کے چیئرمین امیر پٹی کا کہنا ہے کہ ہمارے پیش کردہ فارمولے و منشور کے مطابق مقامی خود مختاری فارمولے کے تحت قومی پالیسی تشکیل دیکر ڈویزنوں کی سطح پر مرکز اور صوبے کی مداخلت سے پاک مگر چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے تحت ایسے چھوٹے انتظامی یونٹس تشکیل دیئے جاسکتے ہیںجو اپنی حدود میں موجود عوام کی امنگوں اور خواہشات کے مطابق فیصلوں کیلئے آزاد و خودمختار ہوں اور دیانتداری سے اپنے وسائل کا استعمال اور ان پر انحصار کرتے ہوئے اپنی عوام کو تعلیم ، علاج ، روزگار اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے پابند ہوں جبکہ قومی پالیسی کے تحت ہر ڈویزن کونسل کو اپنی حدود میں قومی پالیسی کے مطابق ٹیکس وصولی کا مکمل اختیار ہواور وہ حاصل شدہ ریونیو میں سے 20فیصد مرکز ،20 فیصد صوبے ، 5فیصد دفاعی فنڈ اور 5فیصد قومی ترقی فنڈ میں فراہم کرنے کے بعد اپنا جمع کردہ باقیماندہ 50فیصد ریونیو اپنی علاقائی ترقی اور فلاح عوام کیلئے خرچ کرنے اور ترقیاتی منصوبے بنانے کیلئے مکمل آزاد و خود مختار ہو البتہ صوبہ اور مرکز اس کے خرچ کردہ بجٹ کے آڈٹ کے اختیار کے حامل ہوں۔
Political Parties
اس نظام کے تحت اشتراکیت کو فروغ دیا جائے اور ہمہ اقسام ٹیکسز کا خاتمہ کرکے ادارے کے خالص منافع پر 30فیصد ون ونڈو ٹیکس نافذ کیا جائے تاکہ ٹیکس چوری سے نجات ممکن ہوسکے جبکہ قانون سازی کے ذریعے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ ذرعی پیداوار ہو یا صنعتی ،بنکوں کا منافع ہو یا تجارتی کمپنیوں کا ،خدمات کے ادارے ہوں یا تحفظ پر مامور شعبے ان تمام کے اخراجات اور ادائیگیوں کے بعد بچنے والے خالص نفع کو تین حصوں میں اس طرح سے تقسیم کیا جائے کہ 30فیصد ٹیکس کی مد میں حکومت کو حاصل ہو، 40فیصد پر سرمایہ دار یا جاگیردار کا حق ہو اور باقی 30فیصد کو ادارے سے وابستہ محنت کشوں ، مزدوروں ، ملازمین اور افسران میں بطور بونس یکساں تقسیم کرکے آجر و اجیر کے درمیان خوشحالی کا باہمی و مربوط رشتہ قائم کیا جائے ۔ محب وطن روشن پاکستان پارٹی چاہتی ہے کہ آئینی ضمانت و تحفظ کے ساتھ تمام ڈویزنل کونسلوں کو خود مختار و بااختیار بنایا جائے اور ہر ڈویزنل کونسل کو آبادی و رقبے کی بنیاد پر یونین کونسلوں میں تقسیم کرکے ہر یونین کونسل میں کونسلرز کے مساوی حلقے بنائے جائیں اور تمام یونین کونسلز پر مشتمل ڈویزنل کونسل تشکیل دی جائے جس کے میئر کا انتخاب یونین کونسل کے کونسلرز کے ووٹ سے کیا جائے ۔ ڈویزنل کونسل اپنے علاقے میں موجود عوام کو روزگار کے مواقع ، تعلیم و علاج اور بہتر رہائشی ماحول کی فراہمی کے ساتھ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے بھی اقدامات کرنے کی پابند ہو جن میں پینے کا پانی جمع کرنے کیلئے برساتی ڈیموں کی تعمیر ، بجلی پیدا کرنے کے یونٹس کی تنصیب ، گھریلو اور گاڑیوں میںاستعمال ہونے والی گیس پیدا کرنے کے متبادل ذرائع سے استفادہ حاصل کرنا ، باصلاحیت افراد کی تربیت کیلئے فنی اور تحقیقاتی ادارے قائم کرنا ، امن و امان کی بحالی ، قانون پر مکمل عملدرآمد ، عوام الناس کو انصاف کی فراہمی اور مساوات کا معاشرہ قائم کرنا ڈویزنل کونسل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا۔
محب وطن روشن پاکستان پارٹی کے پیش کرد ہ فارمولے کے تحت خود مختار ڈویزنل کونسلوں کے قیام سے صوبوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ انتہائی کم ہوجائے گا اور صوبے کی ذمہ داری صوبائی محکموں کی نگرانی اور انہیں یکساں طور پر تمام ڈویزنوں کے مفادات کا نگہبان بنانے کے ساتھ تمام ڈویزنوں کے درمیان ذرائع نقل و حمل کو یقینی بنانا ، رابطوں کو موثر کرنا ، تعلقات کو فروغ دینا اور پسماندہ ڈویزنوں کی ترقی و خوشحالی کیلئے ان کی مددو معاونت کرنا رہ جائے گی جبکہ مقامی خودمختاری کے انتظامی نظام کے تحت صوبوں پر ڈویزنوں کی کفالت کا بوجھ بھی نہیں ہوگا بلکہ خود مختار ڈویزنیں صوبے کو اپنی آمدنی میں سے 40فیصد کی فراہمی کے ذریعے صوبوں کیلئے کماوپوت کا کردار ادا کرینگی اسلئے صوبائی حکومت چلانے کیلئے قومی خزانے پر بوجھ بننے والے بیشمار ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج کی ضرورت بھی نہیں ہے گی بلکہ تمام ڈویزنوں سے مساوی منتخب نمائندے لیکر صوبائی حکومت تشکیل دی جاسکتی ہے اور وزارتوں کی بندر بانٹ کی بجائے ڈویزنوں ہی کی طرز پرصوبائی حکومت کے تمام معاملات چلانے کیلئے مساوی نمائندگی کی بنیاد پر کمیٹیاں بنائی جائیںاور تمام متعلقہ صوبائی محکموں کے سربراہ براہ راست اپنے محکمے کے کارکردگی کیلئے متعلقہ کمیٹی کو جوابدہ ہوں جبکہ کمیٹیاں صوبائی حکومت کو جوابدہ ہوں گی۔
محب وطن روشن پاکستان پارٹی کے پیش کردہ فارمولے کے تحت پائیدار جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ عوام میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے جس کیلئے اختیارات کی مرکزیت کا خاتمہ ناگزیر ہے چونکہ وفاق ملکی سالمیت کی علامت اور صوبوں کے درمیان باہمی ربط کا ذریعہ ہوتا ہے اور اس کا کردار نگران و محافظ کا ہے اسلئے مرکز میں عوام پر جمہوری پارلیمان کی طرز پر استحصالی ٹولہ مسلط کرنے کی بجائے ہر ڈویزن کونسل سے ایک نمائندہ لیکر تمام ڈویزنوں کی مساوی نمائندگی پر مبنی قومی اسمبلی تشکیل دی جائے جو تمام ڈویزنوں کی مساوی نمائندگی پر مبنی ایسی کمیٹیاں تشکیل دے جو اپنے اپنے متعلقہ اداروں سے جواب طلبی کریں اور خود قومی اسمبلی کو جوابدہ ہوں۔ اس طرح مرکز کا کردار نگرانی اور حفاظت کرنے والے دانا و دانشمندباپ جیسا ، صوبوں کا کردار تمام صوبوں کے ساتھ انصاف کرنے اور ان میں خلوص کے رشتے کو فروغ دینے کے ساتھ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور ان کی تربیت کرنے والی مہربان و مشفق ماں جیسا اور ڈویزنوں کا کردار ماں اور باپ کی خدمت کرنے والی فرمانبردار و کما و اولاد جیسا ہوگا اور وطن عزیز ایک ایسے جنت نظیر گھر کی شکل اختیار کر جائے گا جہاں فیملی کے تمام ممبر باپ کی نگرانی اور ماں کی محبت کے سائے میں باہم مربوط رہیں گے اور ایکدوسرے کے دکھ درد میں خلوص سے کام آئیں گے جبکہ مرکز کے پا س قومی پالیسیاں بنانے کے اختیار کے علاوہ کمیونیکیشن ، کرنسی ، خارجہ پالیسی اور دفاع کی ذمہ داریاں ہونی چاہئیں اور اسے اپنی تمام تر توجہ اس جانب مرکوز رکھتے ہوئے داخلی و خارجی محاذ پر ملک و ملت کوترقی و خوشحالی کی جانب گامزن رکھنا چاہئے۔
محب وطن روشن پاکستان پارٹی جانتی اور مانتی ہے کہ کسی بھی مملکت کے تحفظ کیلئے اس کی فوج اور دفاعی قوت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور مضبوط ممالک ہمیشہ بین الاقوامی برادری میں اپنا سر اٹھاکر چلتے ہیںجبکہ کمزور ممالک استحصالی قوتوں کے تابع بن کر شکست و ریخت کا شکار ہوجاتے ہیںاسلئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ دفاعی قوت کا حصول ممکن بنایا جائے مگر دور جدید میں جب دنیا ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کہ مقولے کی تصدیق کرچکی ہے تو فوج کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ضروری ہے جبکہ دفاعی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے خارجی ذرائع پر انحصار کرنے کی بجائے دفاعی پیداوار میں خود کفیل ہونا بھی ضروری ہے جس کیلئے ایسے تحقیقاتی ادارے قائم کئے جائیںجہاں دور جدید کے تقاضوں کے عین مطابق جدید ترین سامان حرب تیار کیا جائے جو ہماری دفاعی قوت کو مضبوط سے مضبوط ترین بنانے کے ساتھ ہمیں ترقی یافتہ اقوام میں شامل کرنے کیلئے معاشی خوشحالی بھی فراہم کرے ساتھ ہی ملکی فوج کو قومی فوج بنانے کیلئے فوج میں تمام ڈویزنوں سے نمائندگی کو یقینی بنایا جائے اور قد کاٹھ کی بجائے قابلیت و لیاقت کو معیار بنایا جائے۔