تحریر : محمد راحیل معاویہ پیکر تدبر و سیاست سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اسم نامی، معاویہ، کنیت ابو عبدالرحمان ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر محبوب کبریا جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے، جو کہ یہ ہے : معاویہ بن ابوسفیان بن صخر بن حرب بن عبدالشمس بن عبد مناف قریشی۔ لغت کی کتابوں میں لفظ ( معاویہ) کے معنی ،قوت والے پنجے، شیر کی دھاڑ، عالم شباہت کو پہنچ جانا، صبح کے وقت سب سے پہلے نمودار ہونے والے ستاریہ آتا ہے۔
آپ رضی اللہ تعالی ہجرت سے تقریبا پندرہ سال پہلے مکہ میں عرب کے مشہور رئیس اور سردار سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی کے گھر پیدا ہوئے ،اعلان نبوت کے وقت آپ کی عمر چار برس تھی۔ حلیہ مبارک گورا رنگ، چہرہ کتابی، آنکھیں موٹیں، داڑھی گھنی، وضع قطع چال ڈھال میں بظاہر شان و شوکت، طبیعت میں زہدو تواضع فروتنی، حلم، بردباری اور چہرہ ہمیشہ ذہانت و فطانت سے چمکتا رہتا تھا۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اس ناخواندگی کے دور میں چند گنے چنے افراد میں سے ایک تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اسی لیے انہیں منجانب اللہ وحی کی کتابت جیسے عظیم کام کے لیے چنا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا سیکرٹری نامزد فرمایا۔اس کے علاوہ حضور ۖ سے آپ کی سب سے زیادہ قریبی رشتداری یہ ہے کہ آپ کی بہن ام حبیبہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہونے کا شرف حاصل ہے۔
اللہ رب العزت نے آپ کو مختلف صفات سے سرفراز فرمارکھا تھا،جرات، بہادری اور بے باکی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ نے تقریبا پچیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا لیکن اس کا اظہار فتح مکہ کے موقع پر فرمایا، جیساکہ مشہور مرخ محمد بن سعد رح رقمطراز ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رض فرمایا کرتے تھے کہ میں عمرہ القضا سے پہلے ہی اسلام قبول کرلیا تھا (طبقات ابن سعد ) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اک عظیم کمانڈر اور جنگی ماہر ہونے کے باوجود کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف کسی بھی جنگ میں نہ حصہ لیا اورنہ اس کے حامی ہوئے، بیرون ممالک سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری آپ کے سپرد تھی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے بھائی یزید بن ابوسفیان کو شام کے محاذ پر بھیجا تو حضرت معاویہ بھی انکے ہمراہ تھے۔
عہد فاروقی میں آپکو دمشق کا حاکم مقرر کیا گیا، رومیوں کے خلاف جنگوں میں قیساریہ کی جنگ آپ کی قیادت میں لڑی گئی جس میں اسی ہزار رومی قتل ہوئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو دمشق اردن اور فلسطین کا والی مقرر کیا اور اس پورے علاقے کو شام کا نام دیا گیا، آپ کا شمار اپنے زمانہ کے پانچ بڑے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔آپ تلوار سے زیادہ اپنی زبان سے اپنے ہامی وہمنوا پیدا کر لیتے تھے.۔آپ اک بہترین فصیح و بلیغ خطیب تھے جو اپنی فصاحت وبلاغت میں یکتا تھے۔آپ اک پرکشش شخصیت تھے، لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔تدبر فہم و فراست اور سیاست میں آپ رض کا کوئی ہم پلہ نہیں تھا۔آپ اک ماہر فوجی تھے رومیوں کے خلاف شاندار فتوحات اس صفت کی شاہد ہیں۔آپ کی فراست ہمیشہ آپ کی سیاست کو کامیاب کرتی تھی۔انہی اوصاف کی بدولت آپ نے اک مضبوظ حکومت کی تاریخ لاثانی رقم کی ہے ۔آپ خورد و نوش، رہائش، لباس، عادات و اطوار شاہانہ طرز زندگی گزارتے تھے۔
حاجت مند خواہ آپ کا دشمن ہی ہوتا آپ اسے خوب نوازتے تھے. رعایا کے کمزور اور غریب لوگوں کے حال سے باخبر رہتے تھے اور مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کے مسائل حل کیا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ بارگاہ الٰی میں آپ کے حق میں مستجاب دعاہئں مانگی ۔
(1)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! معاویہ کو ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔(جامع ترمذی )(2)اے اللہ معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اسکو عذاب سے بچا(کنزالاعمال ) ایک موقعہ پر فرمایا :معاویہ میرا رازدان ہے جو اس سے محبت کرے گا وہ نجات پائے گا جو بغض رکھے گا وہ ہلاک ہوگا ۔(تطہیرالجنان) قیامت کے دن جب اللہ معاویہ کو اٹھائیں گے تو اس پر نور ایمان کی چادر ہوگی (تاریخ اسلام از علامہ ذہبی رح ) میری امت میں معاویہ سب سے زیادہ بردبارو حلیم ہے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ :جب امت میں تفرقہ اور فرقہ برپا ہوتو تم لوگ معاویہ کی اتباع کرنا اور اسکے پاس شام چلے جان۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ :سیدنا امیر معاویہ رض اصحاب رسول کے درمیان پردہ ہیں جو یہ پردہ چاک کرے گا وہ تمام صحابہ رضی اللہ تعالی عنھم پر لعن طعن کرسکے گا۔ پیران پیر شیخ عبدالقادر شاہ جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :میں سیدنا امیر معاویہ رض کے راستے میں بیٹھا رہوں کہ سامنے سے انکی سواری آجائے اور انکے گھوڑے کے پاں کی دھول اڑ کر مجھ پر پڑ جائے تو میں اس کو نجات کا وسیلہ سمجھوں گا ۔(غنیہ الطالبین) شاہ ولی اللہ محدث دھلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :تم لوگ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بدگمانی سے بچو۔ وہ اک جلیل القدر صحابی ہیں اور زمرہ صحابیت میں بڑی فضیلت والے ہیں خبردار انکی بدگمانی میں پڑ کر گناہ کا مرتکب نا ہونا.۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انتہائی احسن انداز میں آدھی دنیا پر حکمرانی کرکے ایک مثال قائم کی،جسے رہتی دنیا یاد رکھے گی۔ 19سال کے قلیل عرصے میں 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کئے گئے۔