یہ جنوبی پنجاب کے ایک ضلع بننے کے ایک سال بعد کی بات ہے۔ ضلع لیہ میں ایک بڑا کنونشن ہوا جس میں راولپنڈی کے راجہ ظفرالحق خاص طورپر مدعوت ھے، شریک کنونشن ایک ایسا شخص بھی تھا جو اپنے ضلع سے کرائے کی گاڑی پر اس کنونشن میں بطور خاص شامل ہوا۔
یہ شخص اور ملک غلام محمد سواگ مرحوم، راجہ ظفر الحق کے منظور نظر افراد میں شامل تھے ملک غلام محمد سواگ مرحوم کا خمیر چونکہ ورکر کلاس سے اٹھا تھا سووہ ایم پی اے شپ سے آگے نہ جا سکے مگر ان کی موت پنجاب بھر میں(ن)لیگ کے ورکروں کے ماتھے پر یتیمی کا ایک داغ ثبت کر گئی۔
ملک منظور حسین جوتہ سیاست کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں ملکی سطح کے سیاستدانوں کا ان کے پاس اکثر اکٹھ ہوتا ہے وہ ضلع لیہ کے واحد سیاست دان ہیں جہاں آپ کو بلاتفریق ہر سیاسی جماعت کاورکر، کارکن اورلیڈر نظر آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ راجہ ظفرالحق کے اس کنونشن میں جو شخص کرایہ کی گاڑی پر آیا 83ء میں اس کے پاس صرف ایک موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی مگر وہ شخص 85ء کے غیر جماعتی الیکشن میں قومی سیاست میں ان ہوا اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو بڑے ظرف والی سیاسی لیڈر تھیں ورکروں کے گلے شکوے سنتے ہوئے انہیں ہمیشہ فخر محسوس ہوتا اور یہ ان کا ہی ظرف تھا کہ انتہائی عام اور نظریاتی ورکروں کو انہوں نے اپنے شانوں کے برابر لاکھڑا کیا اس شخص کو بھی محترمہ بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب کرایا اوراسمبلی میں ایک اعلیٰ نشست پر فائز کیا یہی نہیں وہ شخص صدر زرداری کے دورِ حکومت میں بھی وطن عزیز کے ایک اہم عہدے پر متمکن رہا۔
83ء میں جس شخص کے پاس ایک موٹر سائیکل تھی آج وہ اربوں کے اثاثے رکھتا ہے ملک منظور حسین جوتہ سابق تحصیل ناظم کی گفتگو کا محوربھی یہ نقطہ تھا کہ بدقسمتی سے 85ء کے بعد سیاست میں جب ایک صنعتکار اور سرمایہ دارنے نقب لگائی تو جمہوری قدروں کے ساتھ ساتھ سیاسی قدریں بھی تباہی سے دو چار ہوئیں، پیسے کی سیاست متعارف ہوئی تو اس نے عوام کے حق خودارادیت کا قتل کر ڈالا پیسے کے بل بوتے پر سیاست کرنے والے سیاستدانوں نے ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عوامی مفادات کو پس پشت ڈال دیا عوامی نمائندگی کا تاج ایسے سروں پر سج گیا جن پر عزت کی کوئی دستارنہ تھی۔
Corruption
ایک بڑا زمیندار اور جاگیردار گو اپنے مزارعوں، ہاریوں اورعلاقائی لوگوں پر حکمرانی کرتا تھا مگر جب وہ عوامی نمائندہ بن کر اسمبلی میں جاتا تو کرپشن کو وہ اپنے لیے گالی تصور کرتا کرپشن کے پیسے کو خاندانی شملے پر بدنما داغ تصور کرتا اور یہ تصور 85ء تک قائم رہا آپ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار کو اٹھا کر دیکھ لیں ان کے دور کا کوئی ایم این اے یا کوئی ایم پی اے، احتساب، نیب یا این آر او کی بھٹی سے گزرتا آپ کو نظر نہیں آئے گا بھٹو دورکے کسی عوامی نمائندے کی نمائندگی پر کرپشن کی کوئی مہرثبت نہیں 85ء کے بعد جمہوریت اورسیاست میں ایک ایسا گروہ متعارف ہوا جس نے پیسے سے عوامی رائے یرغمال بنالی اور سیاست کو ایک منفعت بخش صنعت بنا ڈالا۔
85 ء کے بعد ہی کرپشن کی بنیادوں پر سرے محل اور رائے ونڈ محلات کی تعمیر ہوئی مگر اس کے باوجود این آر او کی جو فہرست آئی اس میں وطن عزیز کی جڑوں میں کرپشن کا ڈائنامائیٹ لگانے والے چند سیاستدان نہیں ہزاروں بیوروکریٹس ہیں۔ مجھے ملک منظور حسین جوتہ سابق تحصیل ناظم کی باتوں سے اتفاق کرنا پڑا کہ جب سے صنعت کار، سرمایہ دار نے وطن عزیز کی سیاست میں قدم رکھا، سیاست کا لفظ گالی بن گیا۔
میں 85ء سے پہلے ادوار کا موازنہ کرنے لگا تو مجھے بھٹو دور کا وہ سیاسی ورکر یاد آیا جس کی عزت نفس کو قائد عوام نے بام عروج پر پہنچایا جو ایک ورکر ہو کر عوامی نمائندے سے زیادہ طاقت رکھتا تھا مگر کرپشن کو گالی سمجھتا تھا مجھے امیر محمد خان کا دور یاد آیا جب وہ گورنر تھے تو چینی کے بحران پر ان کی طرف سے جو ایکشن ہوا عوام آج بھی اسے یاد کر کے ان کی عوام دوستی کی یاد تازہ کرتے ہیں مگر اُس کے بعد جس چینی کا بحران اس صنعت کارنے پیدا کیا وہ اسمبلیوں میں بیٹھا تھا۔
77 شوگر ملیں ان صنعتکار سیاستدانوں کی تھیں عوامی مفادات کا سودا جنہوں نے ذاتی مفادات اور دولت کی ہوس کی خاطر کر ڈالا مجھے وہ واقعہ بھی یاد آیا جب امیرمحمد خان نے گورنری کے دوران اپنے بیٹے کو گورنر ہائوس میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی اوراپنی جیب سے ہوٹل کے کمرہ کی ادائیگی کر کے اسے وہاں ٹھہرایا۔ مجھے وطن عزیز کا وہ وزیراعظم یادآیا جس نے بغیر کسی دبائو کے اپنے عہدے سے استعفی دے دیاتھا جس کی امانت، دیانت، منصف مزاجی کا درجہ بھی اعلی تھا وزات اعظمی سے سبکدوشی کے بعد جس نے نہایت صبر و خاموشی سے زندگی گزاری اور ایک بار جب علاج کیلئے بیرون ملک جانا ضروری ہو گیا تو وسائل کی کمی اس کے راستے میں حائل ہوگئی۔
وقت کے صدر پاکستان کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو اس نے خود جا کر کوشش کی کہ وہ اخراجات کیلئے حکومتی امداد قبول کر لے لیکن وہ نہ مانا اس مستعفی وزیراعظم کا موقف تھا کہ میں نے حکومت کیلئے جو خدمات سرانجام دی ہیں اس کا مجھے پورا پورا معاوضہ ملتا رہا ہے اب میں پاکستان کے خزانے پر بوجھ نہیں بنتا چاہتا مگر یہ واقعات 85ء سے پہلے کے ہیں جب سیاست ایک عبادت تھی ایک مفاداتی صنعت نہیں۔