تحریر: سید انور محمود کسی زمانے میں پاکستان میں نظریاتی سیاست کا رواج تھا، لیکن اب پاکستان میں نظریاتی اور اصولوں کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ اب صرف شدت پسندی، مفاد پرستی اور منافقت کی سیاست ہوتی ہے۔ ہمارئے ہاں دہشتگردوں کے ہامی جوسیاسی میدان میں اکثر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ڈاکٹر سلمان حیدر اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری پر جس طرح سے خوش ہوئے ہیں بلکل ایسا لگ رہا ہے کہ ایک بھانج عورت کے ہاں غیر متوقع طور پرلڑکا پیدا ہوا ہے۔ مذہب فروش منہ بھر بھر کے لبرلز کو گالیاں دئے رہے ہیں۔ ان میں سےاکثریت کو شایدیہ پتہ بھی نہیں ہوگا لبرلز کہتے کسے ہیں۔
لبرلز کو گالیاں دینے والے مذہب فروش دراصل وزیراعظم نواز شریف کو گالیاں دئے رہے ہیں کیونکہ چار نومبر 2015 کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیراعظم نوازشریف نے کہا تھا کہ “عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے” اور اس کانفرنس کے چند روز بعد ہی کراچی میں دیوالی کے موقعے پر وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ “میں مسلمانوں کے علاوہ ہندووں، سکھوں، عیسائیوں اور پارسیوں کا بھی وزیراعظم ہوں۔ میں آپ کا ہوں، آپ میرے ہیں۔ مجھے ہولی پر بلائیں اورجب میں آوں تو مجھ پر رنگ ضرور پھینکیں”۔ اُن کا کہنا تھا کہ قوم میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا میرا مشن ہے، تمام مذاہب کے لوگ ہم آہنگی کو فروغ دیں، ظالم کے خلاف آپ کے ساتھ کھڑاہونگا۔ لہذا دہشتگردوں کے حامی اورمذہب فروشوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے لبرل وزیراعظم کا کچھ علاج کریں۔
ایسے بہت سارئے معصوم پاکستانی ہیں جن کو صرف یہ معلوم ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور اسلام ان کا دین ہے لیکن مذہب کے بارئے میں ان کی معلومات کچھ نہیں ہوتیں۔ مذہب کے ٹھیکیدار ان معصوم لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ یہ جوشخص یا یہ جو لوگ حقوق کی بات کرتے ہیں دراصل یہ مذہب کے خلاف ہیں اور ہم ان کو لبرل کہتے ہیں اور یہ مسلمان بھی نہیں ہیں، لازمی بات ہے یہ بیچارئے لبرل سے نفرت کرتے ہیں اور انہی میں ان کم عمر بچوں کو جنہوں نے ابھی دنیا بھی ٹھیک طرح سے نہیں دیکھی ہوتی ہے دہشتگرد بناکر کہیں بھی پھٹ کر اور دوسرئے بے گنہاوں کو مار کر سیدھا جنت میں بھیج دیا جاتا ہے۔ آج ایسے ہی دوستوں کےلیے تھوڑی سی وضہات ضروری ہے کہ لبرل کسے کہتے ہیں اور لبرل ازم کیا ہے۔ ایک بات ذھن میں رکھیے گا کہ پاکستان میں لبرل ازم کے حامیوں میں نہ تو صرف مذہب سے بیزار لوگ شامل ہیں اور نہ ہی مادر پدر آزادی کے حامی، کیونکہ یہ سب ایک ایسے معاشرئے میں رہتے ہیں جو مذہب کا بہت احترام کرتا ہے، اور سماجی اقدار کی اہمیت سے بھی آگاہ ہیں۔
ذیشان ہاشم اپنے مضمون “لبرل ازم کیا ہے؟” میں لکھتے ہیں کہ “لبرل ازم سیاسی، سماجی اور معاشی تصورات کا ایسا مجموعہ ہے جس کی بنیاد شخصی آزادی، انصاف اورمساوات پرقائم ہے، اس کا دائرہ کارمحض سیاست سماج اور معیشت تک ہی محدود ہے۔ لبرل ازم میں جمہوریت، شہری حقوق، آزادی اظہار رائےاورحق اجتماع کا ہونا لازمی ہے۔ اس کے علاوہ لبرل ازم میں مذہبی آزادی ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے، ہر فرد کو آزادی حاصل ہے کہ وہ جس مذہب یا نظریہ کو اپنی عقل و بصیرت سے بہتر جانے، اس پر عمل کرے ۔ مذہبی آزادی کے بغیر لبرل ازم کی بنیادیں قائم نہیں رہ سکتیں، دوسرے ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ جو چاہے خریدے یا بیچے۔ جائیداد رکھنے کا ہر فرد کو حق حاصل ہے۔ ریاست انتظامی اخراجات کے لیے لوگوں سے ٹیکس وصول کر سکتی ہے مگر وہ اس کے خرچ میں جوابدہ ہے ۔ ٹیکس کا مصرف محض شہریوں کی فلاح و بہبود اور ملکی دفاع ہونا چاہیئے” ۔ ان تمام باتوں سے اتفاق رکھنے والے فرد کو لبرل کہا جاتا ہے۔
Missing Persons Protest
ذیشان ہاشم اپنے اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں کہ”لبرل ازم زمان و مکان کے بارے میں بہت حساس ہے۔ ہر ملک کا لبرل ازم اپنی تشریحات میں مختلف ہے مگر شخصی آزادی، انصاف، اور مساوات کی بنیادیں ہر جگہ مشترک ہیں۔ اس میں ہر عہد کے اعتبار سے ارتقا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں لبرل قوتیں ویلفیئر اسٹیٹ کی حامی ہیں تو یورپ میں لبرل قوتوں کا موقف یہ ہے کہ حکومت محض ادارہ جاتی انتظام قائم کرے، ہر شخص اپنی محنت اور ذہانت سے اپنے لیے ویلفیئر کا خود ہی بندوبست کرسکتا ہے۔ پاکستان میں بھی لبرل ازم یہاں کی تاریخ ثقافت اور شہریوں کی امنگوں کے مطابق ہی عملی و فکری بنیادوں پر قائم ہو سکتا ہے جن کی بنیاد ہر صورت میں شخصی آزادی، انصاف، اور مساوات پر قائم ہوگی۔
واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ اس ملک میں کرپشن کا یہ حال ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والے لاپتہ افراد سے متعلق قومی کمیشن میں تعینات افسران ڈھائی کروڑ روپے لاپتہ افراد کے نام پر لے اڑئے۔ کمیشن کا مقصد تھا کہ ملک میں طاقت کے زور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کیسے کی جائے، یہ کمیشن وزارت داخلہ کے زیر اثر کام کرتا ہے جس کے انچارج وزیر داخلہ چوہدری نثار ہیں۔پارلیمانی کمیشن کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق کمیشن کو نیشنل کرائسنس مینجمنٹ نے 27 ملین روپے فراہم کیے تھے، اس رقم کو کمیشن میں تعینات اعلیٰ افسران ہڑپ کرگئے۔ انکوائری کمیٹی نے جب کمیشن کے افسران سے اخراجات کی تفصیلات جن میں اہلکاروں کی تفصیلات گاڑیوں کی معلومات ، بیرونی ملک کے دوروں کا ریکارڈ اور اخراجات کے ووچر شامل ہیں تو متعلقہ حکام نے یہ معلومات دینے سے انکار کردیا۔ دوسری طرف گذشتہ سال اوکاڑہ میں بھارتی بلے بازویرات کوہلی کے پاکستانی پرستار عمر دراز نے اپنے گھر پربھارت کا پرچم لہرایا تو اس کی ناسمجھی کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھا گیا۔ ایک مثال بنگلہ دیش کی لےلیتے ہیں ۔ عوامی لیگ کی حسینہ واجد سیکولر جمہوریت کی نام لیوا ہیں اور پارلیمنٹ میں بھرپور اکثریت کی مالک ہیں لیکن اندر سے اتنی کمزور کے ایک لبرل اور سیکولر صحافی محفوظ انعام کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرادیا۔ غداری اور ملک دشمنی کا الزام سیاسی مخالفین کیخلاف ایک ہتھیار بن چکا ہے۔ مہذب قومیں پرامن انداز میں ریاست سے اختلاف کرنیوالوں کو غدار قرار دے کر پھانسی لگاتی ہیں، نہ ان کا ماورائے عدالت قتل کرتی ہیں۔ بوڑھے پاکستانی ماما قدیر بلوچ کے بارے میں سوچئے۔ اس نے صرف یہ کہا تھا کہ لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اسے اور اس کی آواز میں آواز ملانے والوں کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔ کیااس الزام سے ریاست مضبوط ہوئی؟ شاید آپکا بھی جواب دوسروں طرح یہ ہی ہوگا کہ ’’نہیں‘‘ ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ائے ارباب اختیارآپ کیوں لوگوں کو لاپتہ کرتے ہو؟، جبکہ ریاست تو خود ایک ماں کہہ کر پکاری جاتی ہے۔
حکومت کے پاس سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک شاعر، مصنف، ماہر تعلیم اور حقوق انسانی کا سرگرم کارکن کیا اتنا بےوقوف ہوسکتاہے کہ ریاست کے قاعدئے اور قانون سے واقف نہ ہو اور اسلام اور پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پراظہار کرئے گا۔ حکومت یا جس ادارئے کے پاس ڈاکٹر سلمان حیدر ہیں انہیں جلد از جلد رہا کردیں کیونکہ ان کی وجہ سے پاکستان بدنام ہورہا ہے۔ ڈاکٹر سلمان حیدر اور ان کے دس ساتھیوں کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد بہت سے بدنصیب لاپتہ افراد کے اہل خانہ میں پہلے سےزیادہ مایوسی پھیلی ہوگی ، وہ پہلے سے زیادہ رو رہے ہونگے کیونکہ انہیں آج بھی یہ نہیں پتہ کہ کبھی انکے پیارئے ان سے ملینگے یا نہیں ائے ارباب اختیارآج سیاست نہیں انسانیت آپکو پکار رہی ہے، کوشش کریں اب کوئی اور ماں مبن مبن پکارتی ہوئی سسک سسک کر نہ مرئے۔ ہر لاپتہ فرد اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا، نہیں دیکھنا اُنھیں غور سے جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے