اسلام آباد (جیوڈیسک) چند پاکستانی مبصرین نے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں انہوں نے پاکستان سے ممکنہ جوہری پھیلاؤ کو امریکی سلامتی کے لیے خطرہ کہا ہے۔ اس بیان پر وضاحت کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے یہ بات ایک امریکی ریڈیو کو انٹرویوکے دوران کہی تھی، جس میں انہوں نے ایک بار پھر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا تذکرہ کیا اور اسلام آباد سے مزید اقدامات کا بھی مطالبہ کیا۔ پومپیو کے اس بیان کے بعد پاکستان کے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مبصرین کے خیال میں پاکستان کو اس بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور تمام سطحوں پر اس کو اٹھانا چاہیے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے اس مسئلے پر سخت بیان آنا چاہیے، ’’یہ بیان امریکا کی طویل المدتی اسٹریٹیجی کا حصہ ہے، جس کے تحت روس اور چین اس کے دشمن اور بھارت اس خطے میں اس کا دوست ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’امریکا چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنا چاہتا ہے، جب کہ بھارت کا کہنا یہ ہے کہ وہ چین کے خلاف اس وقت تک نہیں لڑ سکتا جب تک پاکستان کو کمزور نہ کیا جائے۔ تو اس طرح کے بیانات سے امریکی ارادے واضح ہوتے ہیں۔ ایک امریکی صحافی نے بھی اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ بھارت عموماً امریکا سے یہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کرے اور پاکستان کو کمزور کرنے کا ایک طریقہ اس کے جوہری پروگرام پر الزامات لگا کر ، اسے بدنام کرنا ہے۔‘‘
کئی مغربی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کا جوہری پروگرام دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ پرویز مشرف کے دور میں، جب پاکستان میں دہشت گردانہ حملے عروج پر تھے، اس خدشے کا بار بار اظہار کیا جاتا تھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ سکتے ہیں۔
تاہم امجد شعیب ان سارے خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں،’’پاکستان دہشت گردوں کو شکست دے چکا ہے اور دور تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت والے ہمارے میزائلوں سے کسی یورپی ملک کو خطرہ ہے اور نہ ہی شارٹ رینج کے میزائل دہشت گردوں کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں۔ جوہری پروگرام کے پھیلاؤ کا واویلا کر کے پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان چین کا اسٹریٹیجک پارٹنر ہے اور یہ بات ان ممالک کو پسند نہیں، جو بھارت کو خطے میں اہم کردار دینا چاہتے ہیں۔‘‘
دنیا کے کچھ ممالک میں تاثر ہے کہ پاکستان سعودی عرب سے دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر قدامت پسند بادشاہت کو جوہری طاقت بننے میں مدد کر سکتا ہے۔ سعودی عرب نے کچھ عرصے پہلے روس سے ایٹمی ری ایکٹرز خریدنے کا معاہدہ کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ اگر تہران جوہری طاقت بنتا ہے تو ریاض بھی طاقت بنے گا۔
نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں پاکستان سعودی عرب کی اس حوالے سے مدد نہیں کر سکتا،’’پاکستان کے پاس چینی ٹیکنالوجی ہے جب کہ سعودی عرب جوہری توانائی کے حوالے سے روس سے ساز و سامان یا متعلقہ چیزیں لے رہا ہے۔ تو پاکستان ان کی اس سلسلے میں مدد نہیں کر سکتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ پومپیو کے بیان کا سیاق وسباق کیا ہیں،’’امریکا میں سیاست دان مختلف حلقوں کو خوش کرنے کے لیے مختلف بیانات دیتے رہتے ہیں۔ تاہم یہ بیان امریکا کے سب سے بڑے سفارتکار کی طرف سے آیا ہے، جس کو نئی دہلی توڑ مروڑ کر استعمال کر سکتا ہے۔ لہذا پاکستان کو چاہیے کہ وہ دانشمندانہ طریقے سے اس مسئلے کو امریکی حکام کے ساتھ اٹھائے تا کہ کوئی اس بیان کو لے کر پاکستان کے خلاف بین الاقوامی رائے عامہ ہموار نہ کر سکے۔‘‘
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
اے کیو خان کے نیٹ ورک کے حوالے سے ماضی میں پاکستان پر بہت انگلیاں اٹھی ہیں لیکن کئی مبصرین کے خیال میں اب پاکستان اس حوالے سے محتاط ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کہتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں،’’پاکستان کی ریاست جوہری پھیلاؤ کی بات نہیں کر سکتی اور اگر کوئی ملک اس حوالے سے تعاون چاہتا بھی ہے، تو اسلام آباد کبھی تعاون نہیں کرے گا۔ پاکستان نے اس معاملے میں بہت ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ تاہم یہ افسوناک امر ہے کہ شمالی کوریا کو تو جوہری پھیلاؤ کے حوالے سے کلین چٹ دی جاتی ہے اور پاکستان پر دشنام طرازی کی جاتی ہے۔ میرے خیال میں اسلام آباد کو اس بیان کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے اور امریکا سے وضاحت طلب کرنی چاہیے۔‘‘
واضح رہے کہ حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آئے تھے اور امریکی حکام نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اسلام آباد افغانستان کے استحکام کے لیے تعاون کر رہا ہے اور یہ کہ اس نے طالبان کو بھی مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کی ہے۔ لیکن اس طرح کے بیان نے کئی مبصرین کا حیران کر دیا ہے اور ان کے خیال میں واشنگٹن کے ارادوں پر شک کرنا اب منطقی بنتا ہے۔