کئی مرتبہ ایسے ہی مضامین سے اخبار کا صفحہ سیاہ کر چکا ہوں دیگر اخبارات میں بھی اوور بلنگ کی آوازیں آتی ہیں مگر کچھ نہیں ہوتا، اس تحریر کا بھی کوئی نتیجہ نہیں ہوگا کہ، اِس ضمن میں غریب کی اپنے حکمرانوں سے اپیل ہے کہ، برائے غریب پروری، اوور بلنگ کی روک تھام کے لئے حکومت موثر کاروائی کرے، کہ اوور بلنگ کے ان حملوں سے خصوصاً غریب عوام مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے اور پریشان ہیں۔
زائد بلوں سے عوام کے توجہ ہٹانے کے لئے غیر اعلانیہ اور اعلانیہ پورا دن بجلی غائب رکھی جاتی اور عوام شہر شہر شدید احتجاج کرتے ہیں …..عام عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ لوڈ شیڈنگ حقیقی یا مصنوعی، بظاہر تو یہ مصنوعی دکھائی دیتی ہے اکثر خاص مواقعہ پر حکومت اعلان کرتی ہے کہ لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی سو ایسا ہی ہوتا ہے، جیساکہ عید الفطر سے قبل وزیر آعظم نے حکم دیا تھا کہ عید کے دنوں میں لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی سو،٢٨ جولائی شام پانچ سے اگلے ٩٠ گھنٹوں تک بحکم وزیر آعظم بجلی موجود رہی ،جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ١٢ بجے رخصت پر گئی اور دو گھنٹے بعد ٢بجے صبح واپس آگئی اور تادم تحریر صبح دس بجے ،٢ ،اگست ٢٠١٤بجلی موجود ہے۔
کل پھرو ہی کھیل ہو گا میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں اور آج بھی ٢٨ سے پہلے سارا سارا دن بجلی غائب رہتی ،پھر کیسے ہزاروں میگا واٹ یکسرپورے ہوگئے اور کون یہ سوال حل کریگا؟ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے چئیر مین زاہد خان ،نے وزارت پانی و بجلی اور متعلقہ محکموں کی کار کردگی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ صارفین کو سبسیڈی کے نام پر لوٹا جارہا ہے وائس چئیرمین نیپرا خواجہ نعیم نے بتایا کہ حکومت کا فی یونٹ ٹیرف ٨روپئے ٧٣،پیسے اور سبسیڈی ٥،روپئے ٤،پیسے دی جاتی ہے۔
جبکہ وزارت کے جوائنٹ سیکرٹری زرغام اسحاق نے بتایا کہ ١٣ ،روپئے٧٧،پیسے بجلی فروخت کر کے نقصان نہیں ہورہا، نقصان کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ،لفظوں کا ہیر پھیر عوام کو بے وقوف بناناہے، ……سینٹ کی قائمہ کمیٹی کی کاروائی ١٩ فروری ٢٠١٤کے اخبارات میں رپورٹ ہوئی ،اس رپورٹ میں بار بار سبسیڈی کا زکر ہے جو بظاہر حکومت عوام کو دے رہی ہے مگر یہ سچ بھی کہا کہ سبسیڈی کے نام پر صارفین کو لوٹا جا رہا ہے ….مگر یہ وضاحت کبھی نہیں ہوئی نہ ہی کسی عوام کے ہمدرد نے بتایا کہ یہ سبسیڈی در اصل عوام کی جوتیا ں ہیں جو عوام کے سر پر ماری جاری ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت اس کا کریڈٹ بھی کیش کراتی ہے کہ عوام کو سبسیدی دی جاتی ہے۔
مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ سبسیڈی کے لئے پیسہ کہاں سے اور کن زریعوں سے آتا ہے … اور یہ سبسیڈی ہے کیا ؟ کئی بار یہ لکھا ہے کہ یہ پرسو بنئے کا عوام کو لوٹنے کا طریقہ جو ہر حکومت اپنا رہی ،کہ ایک روپیہ بجلی کا اور ایک روپیہ بجلی والا ایک روپیہ تیل کا ،ایک روپیہ تیل والا ، ایک روپیہ گیس کا، اور ایک والا ،اور یہ جو ”والا ” ہے یہی۔
وہ جوتے ہیں جو عوام کے سر پر مارے جارہے ہیں اور دو روپئے فی یونٹ قیمت میں اضافہ، جو جنوری ١٤ سے …..،ہر دوسرے چوتھے ماہ قیمتوں میں اضافہ اپنی جگہ مگر اسکے ساتھ ہی حکومتی جگا ٹیکسز جو بلا امتیاز خواہ صارف ارب پتی،کروڑ پتی یا لکھ پتی اور یا پھر ایسا صارف جس کے بچے کبھی بھوکے بھی ….مگر یہ اشرافیہ حکمرانوں کی نظروں میں نہیں…. ، مثال کے طور پر،ایک ایسے گھر کا بل صرف شدہ یونٹ ١٨٠،(فروری) قیمت بجلی ،٨٠۔١٢٢٧ روپئے،اگر دو روپئے یونٹ اضافہ تو یہ ٣٦٠،روپئے ہونگے ١٢٢٧+ ٣٦٠= ١٥٨٧…مگر اب یہی ٨٠۔١٢٢٧ کا بِل بشمول جگا ٹیکسز ٣٠۔ ١١٧١روپئے= ۔٢٣٩٩ روپئے واجب الادا ہیں ،غریب کی جیب سے آخری روپیہ نکلا جاتا، اور شائد اِسے ہی سبسیڈ ی کہا جاتا جس سے در پردہ صارف کو لوٹا جا رہا ہے۔
Pakistan
لفظ ” لوٹا ”یا لوٹنا یہ ڈکیتی کی زیل میں آتے ہیں مگر اِ س ڈکیتی کی پاکستان پینل کوڈ میں کوئی تعزیر نہیں … قیمتوں میں اضافہ کا یہ جواز بتایا جاتا ہے کہ تیل مہنگا ہے جس سے بجلی کی پیداوار مہنگی ہوتی ہے لیکن جو بجلی منگلا، تربیلا،جبن کے قدیم بجلی گھر سے حاصل ہو رہی ، اور دیگر آبی زرائع سے جو بجلی کی پیداوار ہے اس کی قیمت میں اضافہ کا کیا جواز ہے۔
قیمتوں میں اضافہ سے پیٹ نہیں بھرتا کیونکہ دس بارہ اور چودہ گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ کے باوجود ،بلوں میں بے تحاشہ زائد یونٹ شامل کئے جاتے ہیں اس ایک تیر سے دو شکار کئے جاتے ،اول چوری کئے ہوئے یونٹ پورے ہوتے ہیں دوسرے لوڈشیڈنگ کی وجہ ان کمپنیوں کا ریوینیو کم نہ ہو بلکہ ….. اور جگا ٹیکس بھی حکومت کوملیں،اب یہ سب لوٹ مار وزارت پانی و بجلی کی آشیر باد ہی سے ممکن .. ،یہ جولائی ٢٠١٤ کا بل ہے تاریخ میٹر ریڈنگ بل پر ٤جولائی درج اور جو ریڈنگ درج تب یہ ٥٦٤٢٥ ،اور استعمال شدہ یونٹ ٣٠١… ١٨ جولائی کو صارف کو بل ملتا ہے اس دن کی ریڈنگ (یہ تصویر بتا رہی ہے۔
کون اس کی جوضاحت کرے ….) کہ٥٦٤١٩،اس طرح ٥٦٤٢٥ کے ہندسہ تک پہنچنے کے لئے جو ٤ جولائی کو تھی چودہ دن کے بعد بھی ابھی ٦،یونٹ کم تھے،یہ تکنیکی ڈکیتی ہے اور قانون کے مطابق ،کوئی اسے چیلنج نہیں کرسکتا ،چونکہ انصاف کا حصول پیچیدہ اور مہنگا ہی نہیں عام آدم پہنچ سے دور، قانون میں اس ڈکیتی کی کوئی تعزیر بھی نہیں اسلئے غریب صارف کو قہر درویش بر جاں درویش ،یہ زائد بل ادا ہی کرنا پڑتا ہے ،ڈکیتی کی یہ وارداتیں صرف خدا کی بستیوں میں ہوتی ہیں اشرافیہ کی ماڈرن بستیوں میں نہیںکہ وہاں سو،پچاس یونٹ زائد درج ہوں تو پتہ ہی نہی چلتا ،لیکن چیخیں تو غریب کی نکلتی ہیں جب دو کی بجائے چار ہزار کا بل آئے، آپ خود حساب لگائیں۔
جس سب ڈوژن کا یہ بل ہے یہاں کے ١٩،ہزار میٹر بتائے جاتے ہیں اگر ہر صارف کو سو یونٹ زائد بھیجے جائیں تو کتنا ریونیو ماہا نہ غریب کی جیب سے نکالا اور پرائیویٹ کمپنیوں کی جیب میں منتقل کیا جاتا۔ Badar Sarhadi