تحریر : اختر سردار چودھری محتاج کون ہوتے ہیں سیدھا سا جواب ہے ضرورت مند یا جن کے پاس وسائل کم ہوں لغت میں اس کا ترجمہ ضرورت مند، حاجت مند، خواہش مندر، طلب گار،دوسرے کا ہاتھ تکنے والا، دست نگر، دوسروں کے رحم و کرم پر جینے والا۔ غریب، مفلس، نادار بھکاری، فقیر، منگتا، ناقص الخلقت، وہ شخص جس کے کسی عضو میں نقص آ گیا ہو جیسے لنگڑا، لولا، اندھا،پابندوغیرہ ہے۔محتاجوں کا عالمی دن 9 اگست کو ہر سال منایا جاتا ہے ۔اِس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں محتاجوں کے حقوق کا تحفظ اور اْن کی دیکھ بھال کے لیے اقدامات کرنا ہے ۔ محتاجوں کے عالمی دن کاآغاز 1994ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک قرار داد کی منظوری کے بعد ہوا۔ اس دن کی مناسبت سے محتاجوں کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دینے والے ا داروں ، سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام تقاریب ، سیمینار ز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں محتاجوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں حالانکہ محتاجوں کی خدمت میں ،ان کی اس حالت زار کا سبب یہ ہی ادارے ،تنظیمیں ہیں جو فائیو سٹار ہوٹلوں میں غربا َ،یتیم،محتاجوں کے دن مناتے ہیں اور اس کی بدولت مخیر حضرات سے چندہ،فنڈ اکھٹا کرتے ہیں ۔لیکن یہ فنڈ خوردبردکر جاتے ہیں۔دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہزاروں این جی او ز محتاجوں ،غربا َکی فلاح کے لیے کام کر رہی ہیں کام کیا غربا کے نام پر دام اکھٹے کر رہی ہیں ۔اس بات کا خیال رہے کہ سب این جی اوز ،خدمت خلق کے ادارے ،سماجی تنظیمیں ایسی نہیں ہیں کچھ ایسی بھی ہیں جو خدمت خلق کر رہی ہیں مثلاََ ایدھی صاحب کا ادارہ ،عمران کا کینسر ہسپتال ،جماعت الدعوة ،جماعت اسلامی اور دیگر ایسی بہت سی جماعتیں ،ادارے ،تنظیمیں وغیرہ لیکن اکثریت ایسے خیراتی، فلاحی، سماجی، اداروں اور این جی اوز کی ہے جو سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ضرورت مندوں تک امداد و خیرات پہنچنے میں ۔اسلام میں محتاجوں کی مددکی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔
اس موضوع پر چند آیات قرآنی اور احادیث نبوی پیش ہیں۔ ” اگر تم صدقہ و خیرات اعلانیہ طور پر دو تو یہ بھی درست ہے ، لیکن اگر پوشیدہ طور پر حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے ۔ اس سے اللہ تمہارے گناہ دور کردے گا اور اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے ۔”سورة بقرہ کی اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اپنے صدقات پوشیدہ طور پر محتاجوں(ضرورت مندوں) کو دو ۔ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں نام نہ ہو،کوئی مفاد نہ ہو،شہرت نہ ہو،لوگ واہ واہ کرنے والے نہ ہوں وہاں ہم کب کسی کی مدد کرتے ہیں ۔اور اگر کرتے ہیں جب بھی موقع ملے اس کو احسان جتاتے ہیں۔ جن کی مددہم کرتے ہیں ہماری سوچ ہوتی ہے کہ پھر وہ ہمارے احسان مند رہیں، ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر ہم کسی کی مدد کرتے ہیں ورنہ نہیں کرتے (مفہوم حدیث ہے کہ ) ایسے لوگوں کو آخرت میں اس نیکی کا کوئی اجر نہیں ملے گا۔
Dua
اس رمضان شریف میں ایک مسجد میں جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا ،خطبے کے بعد مولوی نے چندے کی اپیل کی ،رمضان کا جمعہ تھا مسجد بھری ہوئی تھی ،مولوی نے اتنے دلگیر لہجے میں ،اور قرآنی آیات سنا کر مسجد کے لیے چندے کی اپیل کی اور کہا صرف دس صاحب دل (لمبی تعریف) کھڑے ہو جائیں جو دس دس ہزار دیں گے ۔دس کی بجائے پندرہ کھڑے ہوئے ۔ (اللہ نیتوں کو دیکھتا ہے وہ بہتر جانتا ہے میں تواپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہوں جو غلط بھی ہو سکتا ہے )لیکن اس کے پانچ پانچ ہزار دینے والے بیس افراد بائیس کھڑے ہوئے الغرض ایک ہزار اور آخر میں پانچ سو دینے والے بھی ۔مشا ہدہ یہ ہے کہ اکثر لوگ نمود ونمائش کے لیے چندے ،خیرات دیتے ہیں اور جہاں مشہوری نہ ہو وہاں سے گزر جاتے ہیں۔
اس دن جمعہ کے بعد میں نے دیکھا مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھے فقیروں ،غریبوں ،محتاجوں کو خیرات دینے والوں میں ان میں سے کوئی نہیں تھا جنہوں نے اندر دس دس ہزار دیئے تھے ۔اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں “بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور چشموں میں عیش کریںگے ” اْن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا حصہ ہوتا تھا ” سور الذاریات کی ان آیات میں نہ مانگنے والے محتاج کا ذکر ہے ایسا سفید پوش جو ضرورت مند ہوتا ہے لیکن کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا ،ایک اور آیت مبارکہ میں ہے کہ ان کے چہرے سے تم ان کو پہچان لو گے۔
سورة المعارج میں بھی ” اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے ، مانگنے والے کا بھی اور نہ مانگنے والے محتاج کا بھی” ہمارے ملک میں جو کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اس میں اکثریت ایسے مال داروں کی ہے جن کا مال بیرون ملک بینکوں میں جمع ہے اور وہ اپنے ووٹروں(عوام جن کی نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یعنی محتاجوں) پر خرچ نہیں کرتے اور اس بات کو دکھ سے لکھ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ملازموں کے ساتھہ جانورں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔کہنے کو حاجی بھی ہوتے ہیں عمرے بھی لا تعداد کیئے ہوئے ہوتے ہیں مگر عملی زندگی میں وہ پتھر دل بلکہ اس سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔
Facebook
چند دن قبل فیس بک پر ایک پوسٹ نے بہت پذیرائی حاصل کی جس میں دکھایاگیا ہے مالک اپنے نوکروں کو(دوسرے کا ہاتھ تکنے والا، دست نگر،محتاج ،ملازم) اچھے ہوٹلوں میں لے جاتے ہیں لیکن اپنے ساتھ کھانا نہیں کھلاتے ۔نوکر ایک طرف کھڑے ان کو حسرت سے دیکھتے ہیں ۔ایسا مالک تب بھی کرتے ہیں جب ان کے ہاں کوئی مہمان آ جائے تو نوکر مجال ہے جو ساتھ بیٹھ کر کھا سکیں ۔حالانکہ اسلام میں اپنے غلاموں کو (جی ہاں غلاموں کو ،اور نوکر غلام نہیں ہوتے ) اپنے ساتھ کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ہمارے ہاں اکثریت اپنے ملازموں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ۔سارا دن ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے اور اس سے ملنے والی مزدوری سے ان کا گھر کا چولہا جلے یا نہ جلے جلی کٹی ضرور سننا پڑتی ہے۔ان کے بچوں کے کپڑے ہوں یا نہ ہوں ۔آج کی مہنگائی کے دور میں انسان پیٹ کا دوزخ نہیں بھر سکتا تو کپڑے اور علاج معالجہ تو بہت دور کی بات ہے ۔اس سے ان سرمایہ داروں کو کوئی غرض نہیں ہوتی اس لیے بھی کہ وہ جانتے ہیں ان کی مجبوری نے ہی ان کو ملازم ،نوکر،غلام بنایا ہوا ہے۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے خادم (محتاج )تمہارے بھائی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے ان کو تمہارے ماتحت کردیا ہے ۔پس جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو جو کھانا خودکھائے اس میں سے اسے کھلائے اور جو کپڑا خود پہنے وہی اسے پہنائے اور ایسی مشقت نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اوراگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کوئی کام اس کے سپر د کر ے تو خود بھی اس کی مدد کر ے ۔ (بخاری ،مسلم)ہم اسلام کے ایک اہم رکن زکوة کو دیکھتے ہیں زکوٰة بارے قرآنی آیات و احادیث کا مصرف غریب و نادار مفلس و محتاج ہے ۔ زکوٰة کا اولین ہدف معاشرہ سے غربت و محتاجی دور کرنا ہے۔
پاکستان میں زر دار زکوٰة ادا نہیں کرتے ،جو کرتے ہیں، تو اس کا مصارف دیگر ہیں اصل مصرف قرض دار کا قرض ،غربا َکی زندگی میں آسانی ،مجبور و لاچار ،محتاج کی خبر گیری اور ان کی مدد جو سوال کرنے سے شرماتے ہیں ،حالات کے ماروں کو سہارا دینا وغیرہ ہے اور زکوة ان ہی پر خرچ نہیں ہوتی دل کڑھتا ہے ،سینے میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ اللہ کے فرمان کو مال و دولت کے پجاری کیسے نظر انداز کر رہے ہیں ۔دین اسلام نے مکمل لائحہ عمل دیا جس پر عمل کرنے سے ملک میں کوئی محتاج نہیں رہ سکتا ۔ ان دولت مندوں کو یاد رکھنا چاہیے اللہ کی آزمائش ہے یہ اس کا انجام آخرت میں بہت برا ہے ۔جنہوں نے اس بات کو سمجھا تھا ان کے دور حکومت میں ایسا نظارہ بھی فلک نے دیکھا ہے جب دور دور تک خیرات لینے والا نہیں ملتا تھا ۔(حضرت عمر فاروق کا دور حکومت)