ایک بے ریا فقیر خواجہ فقیر محمد باروی رحمتہ اللہ علیہ

Khwaja Faqir Muhammad Barvi

Khwaja Faqir Muhammad Barvi

تحریر :صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
بندہ ناچیز عرصہ دراز سے داتا کی نگری لاہور میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہے ادبی، صحافتی اور سماجی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اب روحانی اور دینی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں لاہور کے پو ش ایریا اعوان ٹائون میں ایک مرکزی جامع مسجد مدینہ میں جمعة المبارک کی خطابت کے ساتھ ساتھ روزانہ نماز فجر کے بعد درس ِ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا ہوا ہے اِ ن تمام مصروفیات کی وجہ سے اپنے آبائی شہر اب کم ہی حاضری کا موقع ملتاہے مگر پوری دنیا کی طرح ضلع لیہ میں بھی روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی تمام تر سر گرمیوں سے پوری طرح آگاہ رہتا ہوں 27دسمبر کی نہایت ہی سرد اور ٹھٹھرتی رات کے پچھلے پہر اچانک موبائل کی گھنٹی بجی جس نے مجھے چونکا دیا اورمنہ سے نکلا ”اللہ خیر کرے”اس وقت خیر کی ہی خبر ہو، موبائل آن کیا تو دوسری طرف دیرینہ دوست پروفیسر احمد رضا اعظمی نہایت ہی رُندھی ہوئی آواز میں پڑھ رہے تھے ”اِن َ لِلَہِ وَ اِنَ اِلیہِ راجِعون” دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں بمشکل وہ کہہ سکے کہ ”قبلہ خواجہ فقیر محمد باروی ”اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔۔میرے ہاتھ کی گرفت کمزور ہوگئی اور ہاتھ سے موبائل گر گیا بس پھر کیا آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی ،بے ریا فقیر واقعی ”اللہ کو پیارے ہو گئے ‘یقیناََ وہ اللہ تعالیٰ کے کامل ولی تھے اور ہر کامل ولی اللہ کو پیارا ہی ہوتا ہے ، ولایت ایک دینی اور اسلامی اصطلاح ہے اور دین کا سرچشمہ یا تو کلامِ الہٰی ہے یا پھر سنت و سیرت پیغمبرۖ بعد ازاں فقہ ہو یا علم کلام، تصوف ہو یا منطق و فلسفہ ان میں سے جو چیز قرآن و حدیث اور کتاب و سنت سے ماخوذ یا ہم آہنگ ہو وہ درست اور باقی ”محل نظر” اسلام میں سند یا حجت کوئی فقیہہ ، متکلم، امام، صوفی ، فلسفی، مفسر اور محدث نہیں بلکہ آخری اتھارٹی اللہ اور رسول ۖ ہیں جس بات کی سند اور تصدیق ان دو بارگاہوں سے مل جائے وہ سر آنکھوں پر اور اُن سے ہٹ کر کوئی قول یا فعل ہوگا وہ ترچھی نگاہ کے قابل بھی نہیں اولیاء اللہ وہ ہوتے ہیں جو اپنی خواہش کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر چکے ہوں جو بندگی کے مطلوب درجے پر فائز ہوں جن کا وجود لوگوں کے لیے آیت الہٰی ہو جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے جن سے مل کر زندگی کا ڈھب بدل جائے جن کی صحبت میں بیٹھ کر دنیا کم تر اور دین برتر نظر آئے جن کی باتیں علم کی خوشبو دیتی ہوں جن کا کردار گردو پیش کے لیے خدا کی نعمت لگے جن سے مخلوق آزار نہیں آرام پائے اور جو خوف خدا کا پیکر اور اطاعت پیغمبر کا مظہر ہوں یہی نشانیاں ہمیں ”کشف المحجوب””قوت القلوب ” ”رسالہ قشیریہ ””کیمیا ئے سعادت ””فتوح الغیب” اور”التعرف” میں لکھی ملتی ہیں یہ ساری کتابیں تصوف کی ”امہات کتب” کہلاتی ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کے بندوں اور اس کے پیاروں کا تفصیلی ذکر اللہ کی کتاب قرآن مجیدمیں ملتا ہے ْنہ جانے کیوں میری فطرت میں اولیاء اللہ سے محبت کرنا شامل ہے یہ تو بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اولیاء سے تو اللہ تعالیٰ اور اس کا محبوب ۖ بھی محبت کرتا ہے تو پھر میں کیوں ناں ”اُن”سے محبت کروں،وطن عزیز کی مقتدر خانقاہوں پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔

اس لیے کہ قیام پاکستان کے حصول کیلئے ان جید مشائخ عظام نے اپنی فہم و فراست، حکمت و دانش اور بہتر حکمت عملی سے اپنے مریدین کے ہمراہ ان تھک جدوجہد کی جس کے نتیجے میں وطنِ عزیز کا قیام عمل میں آیا ۔زندگی میں بہت کم شخصیات نے مجھے متاثر کیا ہے ان میں ایک شخصیت انسان دوست، دوست شناس، شناسائے کوئے محمدۖ حضرت قبلہ پیر خواجہ فقیر محمد باروی رحمة اللہ علیہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ پیر بارو شریف فتح پور تھے جن سے پہلی ملاقات ہی متاثر کن تھی، آہستہ آہستہ میں بھی قبلہ پیر صاحب کے ”متاثرین”میں شامل ہوتا گیا نہایت ہی خلیق، ملنسار، ہنس مکھ، خدمت انسانیت کے جذبہ سے سرشار ، سادگی کا پیکر، لباس میں نفاست، سوچ میں نظافت، فکر میں لطافت، جو ایک نظر دیکھ لے بس دیکھتا ہی رہ جائے۔حضور قبلہ خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے تمام صاحبزادگان بھی حسن ِاخلاق کا مجسمہ ہیں البتہ خواجہ صاحب رحمة اللہ علیہ کے چند مرید(اِلا ما شا ء اللہ )نہایت بے مروت اور اکھڑ مزاج ہیں یوں توں اس کائنات میں کروڑوں انسان آئے اور چلے گئے مگر بعض نفوس قدسیہ ایسے ہوتے ہیں جن کے چلے جانے کے بعد ایسا خلا پیدا ہوتا ہے جس کا صدیوں تک پر ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

انہی یگانہ روزگار ہستیوں میں ایک ہستی خواجہ فقیر محمد باروی ر رحمتہ اللہ علیہ تھے بلاشبہ آپ ان بزرگوں، ہادیوں اور راہبروں میں سے ہیں جن کی عقیدت کے پرچم آج بھی لوگوں کے سروں پر ہی نہیں بلکہ دلوں میں بھی لہرارہے ہیں

الٰہی یہ ہستیاں کس دیس بستی ہیں
جنہیں دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں

آپ روحانیت کے آفتاب، تقوی و پرہیز گاری کا جیتا جاگتا ثبوت، عجز و انکساری کا پیکر، لطف و کرم کا مجسمہ، علم و عمل کا روشن مینار تھے جو ہمیشہ کے لئے ہمیں داغ ِمفارقت دے کر عالم فنا کو چھوڑ کر عالم بقا کی طرف نقل مکانی فرما گئے وہ کتنے پیارے محبوب تھے جو چلے گئے

وہ دکھا کے رخ جو چل دیئے دل ان کیساتھ رواں ہوا
نہ وہ دل رہا نہ دل ربا رہی زندگی سو وبال ہے

قبلہ خواجہ فقیر محمد باروی رحمة اللہ علیہ اپنے زمانے کے عارف کامل اور شہبازِ ولایت تھے سلوک و معرفت کے میدان میں شاہسوار اور مملکت طریقت کے شہریار تھے

آپ طریقت کے بلند مقام پر فائز تھے
شاداب ہے جن کی برکت سے طریقت کا چمن

آپ کی چھوٹوں پر شفقت، ہر کسی پر رافت اور غیروں پر محبت لٹانے کا عمل، دل کو موہ لینے کا اندازِ گفتگو، لہجے میں نرمی و مٹھاس، چہرے پر شفقت آمیز روشنی، رُخِ انور پر تلاوتِ قرآن کی بہار، وعظ و نصیحت پر شگفتہ بیانی اور معتدل ظرافت آپ کے اخلاقِ کریمانہ کے زندہ ثبوت ہیں۔ جب کلام فرماتے تو رنگا رنگ پھول جھڑتے

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑگئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستان بنادیا

یہ بوریا نشین مرد کامل کتنے کریم تھے ،فیوض و برکات کے خزانے لٹاتے ،عیب پوشی فرماتے ہم سیاہ کاروں کو گلے لگاتے کرم پہ کرم فرماتے، دُکھیوں کے دکھ دور فرماتے، مریدوں کی بگڑی بناتے، عقیدت مندوں کے کام سنوارتے، سلسلہ طریقت کا حُسن نِکھارتے اچانک ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ وہ چاند بدلیوں میں چھپ گیا جس کی پربہار چاندنی اور وہ سورج غروب ہوگیا جس کی پروقار روشنی آفاق عالم طریقت کو تابندہ اور درخشندہ کررہی تھی وہ محبوب جو زندگی کا قرار تھا روحوں کی غذا جس کا دیدار تھا اور ہم شکستہ دلوں کی بہار تھا اس محبوب نے ہم سے کیوں پردہ فرما لیا ہماری بے تاب نگاہوں سے کیوں منہ چھپالیا بقول پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ

مطلب یہ ہے کہ اور ہو حیران چشم شوق
پردے میں چھپ گیا ہے کوئی مسکراکے یوں

یادوں کے چراغ محبت کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں جب کسی سے پیار ہوتا ہے اس کے اطوار و اخلاق کو محبت ہی سے جانچا جاتا ہے دل میں بٹھایا جاتا ہے پھر انس بڑھتا ہے پیار کی لگن ابھرتی ہے دل میں ایک مقام پیدا ہوتا ہے آہستہ آہستہ اُسی کا ہوجاتا ہے۔ ”من احب شیأً اکثر ذکرہ” جس سے آدمی کو محبت ہوتی ہے اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے ہم کو پسند یار کی بانکی ادا لگی وہ ہمارے کریم، شفیق اور مہربان تھے مونس و غم خوار تھے دیدار کراتے دل موہ لیتے جب بھی آپ کی خدمت عالیہ میں حاضری کا شرف نصیب ہوتا دلی سکون نصیب ہوتا عقیدت مند دور دراز سے سفر کرکے حاضر ہوتے تو قبلہ خواجہ صاحب کا پوچھتے پوچھتے دیوانے بن جاتے جب تک دولت دیدار سے مالا مال نہ ہوتے طبیعت بے چین رہتی، پیرو مرشد کا نام مبارک لبوں پر جاری رہتا اور جب دیدار ہوتا، دل کو قرار ہوتا، تھکن دور ہوتی، روح مسرور ہوتی، جان کو جان ملتی اور ایمان کی چاشنی میسر آتی۔ ہر عقیدت مند یہی سمجھتا کہ سب سے زیادہ مجھ سے ہی پیار ہے، سب سے زیادہ مجھ ہی پر کرم ہے۔

Allah

Allah

حدیث شریف میں ہے کہ ولی کی نشانی یہ ہے کہ جس کو دیکھنے سے اللہ یاد آجائے آپ کی زیارت باسعادت اس حدیث کی تفسیر بن جاتی۔ آپ کے حسن و جمال کی تجلیاں اب بھی نگاہوں میں تیر رہی ہیں انوار ربانی چہرہ انور میں چمکتے تھے بقول پیر

نصیر الدین نصیر گولڑوی رحمتہ اللہ علیہ
جلوئوں نے تیرے دی ہے دل و جاں کو وہ رونق
دیدار کی حسرت کا مزا یاد کریں گے

وہ لوگ یقیناانسانی معاشرے کے ماتھے کا جھو مر اور انسانیت کا وقار ہو تے ہیں جو خدمت خلق کے ساتھ ساتھ خالق کی بندگی کا فریضہ بھی احسن انداز سے سر انجام دے رہے ہوتے ہیں آج کے اس ما دیت زدہ دور میں روحانی اقدار کے احیاء کے لیے جدو جہد کرنے والے خراج تحسین کے مستحق ہو تے ہیں یہ وہ دور ہے کہ جس دور میں رب کی بندگی اور خدمت انسانیت کی بات کرنا گو یا خطرات کو دعوت دینے کے مترادف سمجھاجا تاہے ۔دُکھیاروں کی بھلائی ہو یابے سہاروں کی راہنمائی اس بے ریا اور بے لوث جذبوں کے حامل مرد در ویش نے شب و روز دیوانہ وار کام کیا اور اتنا کام کیا کہ ,,خدمت،، کو بھی ان پر رشک آنے لگا ،میں نے تو ان کو اپنی شعوری زندگی میں ہمیشہ فروغ دین اور خدمت انسانیت ہی میں کمر بستہ دیکھا ذاتی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر ہر وقت انسانیت کے مفاد کے لیے سو چنا یہ کسی کسی کا خاصہ ہو تا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ فتح پور کے نواحی علاقے آستانہ عالیہ پیر بارو رحمة اللہ علیہ میں صُبح سے لے کر رات گئے تک دور دراز سے آئے ہوئے دُکھوں کے مارے اور ڈھونڈتے سہارے بے کس و بے چَس لو گوں کو سہارا مہیا کرنا اور ان کے اندر فروغ دین کا جذبہ پیدا کرنا یہ محض رب تعالیٰ کے فضل کے بغیر نا ممکن ہے اور جن پر رب کریم کا خاص فضل ہو جائے وہ پھر زندگی کے کسی میدان میں بھی شکست نہیں کھاتے اور کام یابی و کامرانی ان کی دہلیز پر ہا تھ با ندھے کنیزوں کی طرح کھڑی ہو تی ہے ،رب کریم کا فضل اور ہے اور ,,فضلِ کریم ،، اور ہے ۔وادی خدمت انسانیت کے بے لوث اور بے غرض مکیں جناب خواجہ فقیر محمد باروی رحمة اللہ علیہ والہانہ جذبوں سے لیس ہو کر محض رب تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے شب و روز مصروف عمل تھے
ضلع لیہ کی د ھرتی کا سپوت جس نے آندھی و طوفان ،گرمی و سردی ،دھوپ و چھا ئوں ،شام و سحر اور شب روز کی پر واہ کیے بغیر اپنے سر پر ایک ہی دھن سوار کیے رکھی کہ دکھی انسانیت کی خدمت کیسے کی جا سکتی ہے اور بے سہارا انسانیت کا سہا را کیسے بنا جا سکتا ہے ؟پانچ دریا ئو ںکی سر زمیں پنجاب ہو یا رحمن با با کی دھرتی خیبر پختونخواہ ،شاہ عبد الطیف بھٹائی کا مسکن سندھ ہو یا محبتوں کی آما جگاہ بلوچستان ،مقبوضہ وادی ہو یا آزادخطہ، جنابِ پیر صاحب نے ہر جگہ خدمت انسانیت کے جھنڈے گا ڑھے اوراپنا آپ منوایا ،یقینایہ بہت بڑا کام ہے اور ابھی تک کسی بھی پیر اور خانقاہ نے اس پہلو پر کام تو در کنار سوچا بھی نہیں ہے کہ بے سہارا انسانیت کے لیے کچھ کر گزریں ،اس با برکت اور با سعادت کارِ خیر کی خیرات یقینا خواجہ صا حب کی جھو لی میں آنی تھی اور انہو ں نے اس سو غات اور خیرات کو سمیٹنا تھا سو انہوں نے خوب سمیٹا اور دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی عقبیٰ کو بھی سنوار ڈالا ,,یہ بلند رتبہ جسے ملنا تھا اسے مل گیا ،،اپنے دل میں عشق رسول ۖ کی لگن اور اہلبیت کرام کی محبت کی جوت جگائے اور اولیاء اللہ کی عقیدت کی چمک اپنی پیشانیوں پر سجائے خدمت انسانیت کا یہ عظیم کاررواں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔سیاستدانوںکی بے راہ رو جواں نسلیں او ر پیروں کی بگڑی اولادیںخدمت انسانیت تو کجا انسانیت کا وجود بھی اپنی دہلیز پر بر داشت نہیں کر پاتیں اور اپنے آپ کو ماورائی مخلوق تصور کرتے ہو ئے خوامخواہ کے زعم ِبد میں مبتلا ہو تی ہیں حالانکہ یہی ما فوق الفطرت مصنوعی مخلوق اسی انسانیت کے ٹکڑوں پر شب وروز زندگی بسر کرتی ہے اگر مریداپنے پیروں کو نوٹ کے نذرانے دینے اور عوام سیاستدانوں کو ووٹ کے نذرانے دینے بند کر دیں تو انہیں دن کو تا رے نظر آنا شروع ہو جا ئیں گے ،مگر جب ہم پیرصاحب کے شب وروز خدمت انسانیت اور فروغ دین میں صرف ہوتے ہوئے دیکھتے تھے تو دل سے دعا نکلتی کہ ,,اے رب قدیر ،تو اس شخصیت کو اپنی حفظ و اماں میں رکھ ،،عاجزی و انکساری کا مرقع اور خلوص کا پیکر یہ سپوت اگر شام کو”مشاہدہ حق ” میں مصروف نظر آتا تو دن کو تسبیح و تہلیل میں مگن دکھا ئی دیتا تھا لگتا ہے کہ پیر خواجہ محمد عبد اللہ المعروف پیر بارو رحمة اللہ علیہ نے اپنے روحانی لخت ِ جگر کی تر بیت ہی اس انداز سے کی تھی کہ انہوں نے ان میں غرور ، تکبر،نخوت اور کبر نام کی کوئی چیز پیدا نہیں ہو نے دی اور ہو نا بھی ایسا ہی چا ہیے کہ سجا دہ نشینوں کی رو حانی اور نسبی او لادوں کو عجز و انکساری کا مر قع ہو نا چا ہیے بہت کم ایسے لوگ ہیں جن کی اولاد میں عجز و انکساری پا ئی جا تی ہے ،پیر خواجہ محمد عبد اللہ رحمة اللہ علیہ کیو نکہ خود عجز و انکساری کے سانچے میں ڈھلے ہو ئے تھے اور آگے ان کے مرید ِ خاص میں بھی یہ خاصیت نظر آرہی تھی اسی دھرتی کے علاقہ پیر آف جگی شریف کے سجادگان جنہوں نے اپنی اپنی گردنوں میں 8, 8انچ کے موٹے اتفاق فونڈری کے سریے ڈالے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی آنکھوں پر بے حسی کی پٹی باندھی ہوئی ہے اور کا نوں پر کاگ چڑھا رکھے ہیں جن کو نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سُجھائی دیتا ہے یہ عقل کے اندھے اور شعور سے خالی جن کے دماغوںمیں ”کھایا ہوا بھُس ” بھر ہوا ہے رُوحانیت سے اتنا دور ہیں جتنا لیہ سے کاشغر تک کا پیدل سفر ہے انسانیت کی تذلیل کرنا اِن ”بگڑے ” ہوئے سجادگان نے اپنا شیوہ بنا لیا ہوا ہے
مگر میں نے خواجہ فقیر محمد باروی کو جب بھی دیکھا ہے وہ تواضع اور انکساری کی حالت میں ہی ملے ہیں اور ہمیشہ ان کو مسکراتے ہی دیکھا گیا ہے ،ایسے ہی لوگ سسکتے اور دم توڑتے معاشرے کے لیے غنیمت ہو تے ہیں ،اگر ہما رے مو جو دہ حکمرانوں اور سیا ستدانوں کی گر دنوں سے موٹے موٹے سریے نکل جائیں اور اپنے آپ کو عا جزی کا پیکر بنا لیں تو سارے مسئلے حل ہو سکتے ہیں مگر یہاں تو ہر سیاستدان اپنی اپنی جگہ فر عون اور قارون بنا بیٹھا ہے اور ان کی دیکھا دیکھی اب عوام کے اندر بھی کبریت کے جراثیم پیدا ہو نا شروع ہو گئے ہیں اور اب عام آدمی سے بھی بات کر لو تو وہ سانپ کی طرح پھن پھیلائے اکڑ کے بات کرے گا اور ذرا ذرا سی بات پر اپنا چہرہ بلا وجہ سرخ کر لے گا ،حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مو جودہ معاشرے میں روا داری ،اخوت ،بھا ئی چارے ،حسن سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کی خیرات تقسیم کی جائے اور پیر خواجہ فقیر محمد باروی صاحب اسی فکر کو لے کر گلی گلی ، کوچہ کوچہ ،بستی بستی ، نگر نگر ، ڈگر ڈگر ، گام گام ، بام بام پہنچا رہے تھے کہ شا ید امت مسلمہ کی کھوئی ہو ئی قسمت دو بارہ بحال ہو سکے اور یہ سسکتا ہوا معاشرہ پھر سے زندگی کی نئی شاہراہ پر گامزن ہو سکے اور اپنے حصے کا کردار وہ خوبصورتی سے ادا کر رہے تھے اور روایتی پیروں اور فقیروں سے ہٹ کر اپنے ایک مخصوص انداز میں کام کر رہے تھے آج جو ملک میں امن کی بہا ریں نظر آرہی ہیں اور جنوبی پنجاب میں اہلسنت و جماعت کی جو لہلہاتی فصل نظر آرہی ہے یقینا اس میں قبلہ پیر صاحب کا حصہ وافر موجود ہے ا اور آج بھی رو حانیت کے پیاسے علم و حکمت کے اس اُبلتے ہوئے چشمہ آستانہ عالیہ پیر بارو شریف سے ”آبِ زُ لال ” کے کٹو رے بھر بھر پیتے ہیں اور آپ کی سر براہی میں بیسیوں دینی مدار س آج بھی جنوبی پنجاب میں خدمت دین میں مصروف عمل ہیں جن میں مدرسہ خیر الانام لیہ شہر سرِ فہرست ہے جو آپ کے صاحبزادہ خواجہ احمد حسن صاحب کی نگرانی میں احسن انداز سے کام کر رہا ہے۔

جنوبی پنجاب میں خاص کر اور پورے پاکستان میں بالعموم اہلسنت و جماعت کے عقیدہ کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کی سر کوبی کے لیے امیر اہلسنت ، درویش منش ہستی ، بے ریا فقیر پیر طریقت حضرت خواجہ فقیر محمد باروی رحمة اللہ علیہ (زیب سجادہ آستانہ عالیہ پیر بارو ) کی خدمات قابل رشک تھیںاور قبلہ خواجہ صاحب اس پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود مسلک کی ترویج کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر نے کے لیے ہمہ وقت حاضر باش تھے اور اپنی مدد آپ کے تحت نہایت جرات اور بے باکی کے ساتھ یہ فریضہ سر انجام دے رہے تھے اور ابھی حال ہی میں چوک اعظم میں فتنہ قادیانیت کی سر کوبی کے لیے اپنی سر براہی میں ایک عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں ملک کے جید اور معروف مشائخ عظام اور علماء کرام نے خصوصی شرکت کی یقیناََ آپ کی گھٹی میں جذبہ عشق رسول ۖ شامل تھااور آپ کے اکابرین خصوصاََ جن میں حضرت خواجہ محمد عبد اللہ المعروف پیر بارو اور قبلہ حضرت خواجہ غلام حسن سواگ جیسی ہستیاں شامل ہیں انہوں نے ہمیشہ جذبہ عشق رسول ۖ کی آبیاری کی ہے اور آج ہر طرف اِنہی اکابرین کے لگائے ہوئے بوٹے گل و گلزار کا کام دے رہے ہیں جن کی خوشبو سے سارا جہان معطر ہے اللہ تعالیٰ قبلہ خواجہ فقیر محمد باروی صاحب کوکروٹ کروٹ جنت عطا فر مائے اور آپ کے پسماندگان اور مریدین و عقیدتمندوں کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین )

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
03314403420