اسلام سے پہلے ہر طرف جہالت کا دور دورہ تھا۔ جاہل لوگ اپنی جہالت پر فخر کرتے تھے ان کا ماضی و حال نہ ختم ہونے والی قبائلی جنگوں تک محدود تھا۔ ان جاہل قوموں کی سوچ کے مطابق جنگوں کو جاری رکھنے کے سوا ان کا کوئی مستقبل نہ تھا۔جو لوگ ظلم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے انہیں ظلم سہنے پر مجبور کردیا جاتا تھا لیکن جب اسلام آیا تو یہی مظلوم لوگ ایک نئے دور کے مشعل بردار بن گئے۔ کارساز فطرت نے اپنی رحمت کی گھٹائوں کے نزول کے لیے ایک بے آب وگیاہ صحرا کو منتخب کیا۔عرب کے ظلمت کدہ سے نور کا ایک سیلاب نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مختلف قبائل اور اقوام کو اپنی آغوش میں لیتا ہوا چاروں طرف چھا گیا اور تب اسلام تپتے ہوے صحرا میں ٹھنڈے، میٹھے پانی کا چشمہ ثابت ہوا۔
خلق خُدا جو جہالت کے اندھرے میں بھٹک رہی تھی اورمعاشرے میں عدل انصاف کا تصور تک نہ تھا۔جب انسانیت ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی تھی۔اسلام نے پسی ہوئی انسانیت کو عدل و مساوات کا پیغام دیا۔زندگی گزارنے کے لیے ایسا ضابطہ عطا کیا جس میں اسلام کی حکمرانی کے تصور کے کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کو انسانیت کے بلند ترین مسند پر بیٹھایا۔افسوس کہ جس مسلم سلطنت کا خواب برصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا۔
اس ملک خُداداد میں آج 67برس آزادی کے گزار کر بھی اللہ تعالیٰ کا دین اسلام نافذنہیں ہو سکا۔دور جہالت کے قوانین پر عمل پیرا ہوکر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں عدل انصاف کی حکمرانی قائم ہو۔جب میں تحریک آزادی پاکستان میںمسلمانوں کی عظیم قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کوئی افسانہ پڑ سن رہا ہوں وہ اس لیے ملک میں نہ تو عدل انصاف کی حکمرانی ہے، نہ حکمران دین حق کی سمجھ رکھتے ہیںاور نہ حکمران انسانیت کے تقاضوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ میرے وطن کے حکمران بھی اس کہانی کے فاتح بادشاہ کی سی حکمرانی کرتے ہیںجو مجھے بچپن میںمیرے بھائی اشفاق علی شاکر سنایا کرتے تھے ۔میں جب بھی کہانی سنانے کی ضد کرتا تو بھائی مجھے وہی ایک کہانی سنایا کرتے جس کاخلاصا کچھ یوں ہے۔
کسی ملک میں بادشاہ چننے کاطریقہ یہ تھا کہ سال کے پہلے دن صبح سب سے پہلے جوبھی اجنبی ملک میں داخل ہو تا اسے ملک کا بادشاہ بنادیا جاتا اور پہلے بادشاہ کو ویرانے میںلے جا کر بے یارومددگار مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ایک مرتبہ سال کے پہلے دن سب سے پہلے اس ملک میں ایک اجنبی فقیر آگیا اور وہاں کی عوام نے اپنے دستور کے مطابق اس فقیر کو ملک کا بادشاہ بنا دیا ۔وہ فقیر بہت سمجھدارتھا بہت حیران ہوا کہ یہ کیسی قوم ہے جس نے ایک اجنبی فقیرکو اپنا بادشاہ بنا دیا۔
Beggar
اس فقیر نے خود کو خطرے میں محسوس کیا اور کچھ سوچ کر اپنے وزیر کو تنہائی میں اپنے پاس بلا کر کہا تم لوگوں کا وہ بادشاہ کہاں ہے جومجھ سے پہلے تھاوزیر کے نہ بتانے پر فقیر بادشاہ نے اسے کہا کے اگر اس نے نہ بتایا توبادشاہ اس کو سزائے موت کا حکم سنادے گاجس پر یہ راز فقیر بادشاہ کو بتا دیا کہ وہ لو گ اپنے ملک کے تمام سابق بادشاہوں کو ایک ویرانے میں پھینک آئے ہیں اور جب نیا بادشاہ آے گا تو اس فقیر بادشاہ کو بھی اسی ویرانے میں بے یارومددگار چھوڑ دیا جاے گا۔فقیر کونکہ بہت سمجھدار تھا اس نے ایک سال میں اس ویرانے میں بہت سی نہریں کھدوا کر وہاں بہت سے باغات لگوا دئیے بہت سے میٹھے پانی کے کنویں نکلوا دئیے اور بہت سی عالی شان عمارتیں بنوا کر اس ویرانے کو ایک عالی شان شہر میں بدل دیا اس طرح اس فقیر نے نہ صرف اپنی جان بچا لی بلکہ ساری زندگی سکون سے بسر کرنے کا بھی انتظام کرلیا ۔شائد پاکستان کے عوام بھی اس کہانی کے عوام جتنے ہی ظالم ہیں جن کے حکمران بھی پچھلے 65 برس سے اس کہانی کے فقیر کے جیسے ہی ملے ہیں جو باہر سے آتے ہیں اور دوران حکمرانی ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے اپنے محلات باہر ہی بناتے ہیں۔
پاکستان پر صرف حکمرانی کرتے ہیں اور قوم کی دولت لوٹ کر دوسر ے ملکوں کے بنکوں میں جمع کرتے رہتے ہیں وہ بھی غیر ملکی کرنسی میں۔کیایہ جہالت نہیں کہ ہم روشنی دستیاب ہونے کے باوجود اندھروں میں غرق ہیں ؟اسلام سے پہلے والی قومیں جہالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھیں کیونکہ ان کے پاس کوئی ضابطہ حیات ہی موجود نہ تھا۔ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اسلام ،سیرت نبوی اور قرآن کریم کی صورت میں مکمل ضابطہ حیات عطا کردیا ہے پھر کیوں ہم بھی جہالوکی طرح زندگی گزار رہے ہیں؟۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:(1) فرید کوٹ روڈلاہور imtiazali470@gmail.com 03154174470