غریب انسان بھی دل رکھتاہے اس کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس غربت کے منحوس چکر سے نکل کر عیش و عشرت کی ذندگی گزارے۔ ایسی ذندگی کہ جس میں اسے کم از کم ما لی طور پر کسی دقت کا سامنا نہ ہو۔اور ایسا مقام حاصل کرنے کے لئے خوب محنت اور دوسروں کی مدد کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
Charity کا عالمی دن ہر سال 5 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔اور یہ اقوام متحدہ کا منظور شدہ دن ہے اس دن کا اہم مقصد دنیا بھر سے غربت کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے خیراتی اقدامات یا کوشیشوں کو فروغ دینا ہے اور لوگوں میں غریبوں کے لئے ہمدردی و احساس پیدا کرنا ہے کہ ان ذیادہ سے ذیادہ مدد کی جائے تاکہ وہ بھی ذندگی میں خوشیاں حاصل کر سکیں ۔خیرات کا مطلب ہے کہ کسی کی مالی مدد کرنا۔پاکستان جیسے ملک میں جس کی آدھی سے بھی ذیادہ آبادی خط ِغربت سے بھی نیچے ذندگی گزار رہی ہے یہاں جو امیر ہے وہ مزید امیر ہوتا جا رہا ہے اور غریب مزید غریب۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں الٹی گنگا بہتی ہے یہاں کی حکومت غرباء کو لوٹتی ہے اور امراء کو سہولتیں فراہم کرتی ہے یعنی دولت اور حقوق کی غیر منسفانہ تقسیم ۔بلکہ یہاں تو بیرونی ممالک سے ڈالرز کی صورت میں آنے والی کڑوڑوں روپے کی امداد بھی وزیروں مشیروں میں ہی تقسیم ہو جاتی ہے۔
اصل حقدار پھر محروم رہ جاتا ہے۔لہذا ایک عام آدمی کاحکومت کی طرف سے کسی مالی امداد کی امید رکھنا تو با لکل بیکار ہی ہو گا ۔ اب باری آتی ہے معاشرے میں رہنے والے ان افراد کی جو مالی طور پر خوب مستحکم ہیں جن کے پاس اپنی ضروریات سے کہیں ذیادہ دولت ہے ۔اب ایسے افراد کی یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی تعشیات کی بجائے ان لوگوں پر خرچ کریں کہ جن کے پاس اپنی بنیادی ضرورت کو پورا کر نے کے لئے بھی کچھ نہیں ہوتا اور غربت کی چکی میں پسِ کر اپنی ذندگی گزارے چلے جارہے ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی بھی دو اقسام ہیں ایک تو وہ جو بھکاری کا روپ اختیار کر لیتے ہیں لیکن دوسرے وہ جو اپنی خواہشات کو پھانسی دے کر اپنی اس ذندگی کو خدا ئی آزمائش جان کر یا اپنی قسمت کو الزام دے کر بس سفید پوشی کی چادر اوڑھے رکھتے ہیں۔
ایسے لوگ ہی اصل حقدار ہیں۔اور صرف دولتمند ہی نہیں بلکہ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اور جہاں تک ممکن ہو سکے ضرورت مند لوگوں کی اخلاقی و مالی مدد کرے ۔اور دنیا میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیںہے کہ جو دوسروں کی مالی مدد کرتے کرتے خود غریب ہو گیا ہو۔ یہ بات تصدیق شد ہ ہے کہ صدقہ خیرات وغیرہ رزق کو بڑھاتا ہے اور مال ودولت کی حفاظت کرتا ہے۔ اب اگر اسلام کی رو سے دیکھا جائے تو اس میں بھی اپنے مال کو دوسرے ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کو اللہ کے نزدیک بڑا اچھا عمل جانا گیا ہے ۔قرآن میں اس بارے ارشاد ہے کہ ” بے شک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ دیا ان کو( بدلے میں) دوچند ادا کیا جائیگا اور ان کے لئے خوب عزت کا صلہ ہے۔
سورہ الحدید ۔آیت نمبر ١٨) ۔اگر معاشرے کا ہر صاحب حیثیت انسان اپنے ضرورت مند حق ہمسایوں اوررشتہ داروں کی ہی ذمہ داری لے لے تو کافی رہے گی ۔اور بجائے کہ رقم کسی فلاحی یا خیراتی ادارے کودینے کہ خود اپنے ہاتھ سے براہ راست ضرورت مندوں کو ادا کرے۔ اور لوگوں کو اپنی خیرات کا محتاج نہ کیا جائے بلکہ ان کی ایسی مدد کی جائے کہ وہ خود کفیل ہو جائیں۔آج کے دور میں عیش و عشرت تو بس اک خواب رہی انسان کی بنیادی ضرورتیں ہی آسانی سے پوری ہو جائیں تو اس کی بڑی خوش قسمتی ہے۔
Society
معاشرے میں ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ کئی لوگ اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر دوسروں کی بڑی خوش دلی سے مدد کر رہے ہوتے ہیں اس میں صرف یہ بات اچھی ہے کہ کسی کی مدد تو ہو جاتی ہے چاہے وہ اپنا نہ سہی لیکن یہ عمل کچھ اس طرح ہے کہ جیسا آپ کے اپنے گھر میں کوئی بھوکا ہو اور آپ کھانا کسی باہر والے کو کھلا رہے ہوں ۔جبکہ حکم ہے کہ اول خویش بعد درویش۔اب تو ایسا دور آ گیا ہے کہ اگر پانچ بھائی ہوں تو ان میں بڑا اسے خیال کیا جاتا ہے کہ جو دولت کے لحاظ سے بڑا ہے۔خاندانی مسائل کو سلھجانے یا دیگر معاملات ذندگی بارے صاحب حیثیت سے ہی مشورہ کرنے کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔
غریب بندہ کا تو اس کی جیب کی طرح دماغ بھی خالی سمجھا جاتا ہے۔انسان صرف مالی ہی نہیں بلکہ پیار محبت اور مسکراہٹوںکی خیرات بھی دے سکتاہے۔جیسے کہ Mother Teresa چیرٹی کے بارے میں ایک جگہ فرماتی ہیں کہ ‘صرف پیسہ دے دینے سے ہی دوسروں کو اطمینان حاصل نہیں ہو جاتا بلکہ ان کو تو آپ لوگوںکے دل چاہیے جو انہیں پیار دے سکیں چنانچہ آپ جہاں کہیں بھی جائیں خوب پیار بانٹیں۔
قیام پاکستان سے لے آج تک ہمیں بیرونی امداد پر خاصا انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔اور امداد حاصل کرنے کی روایت آج بھی برقرار ہے افسوس کہ اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی ہم نے اپنا کشکول نہیں توڑا۔شائد کہ ہماری سرکار نے خود کو بیرونی امداد کا محتاج کر لیا ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو ملک ہمیں امداد دیتے ہیں وہ اپنے مفادات کے تحت ہی دیتے ہیں اور ساتھ شرائط بھی لگا دیتے ہیں کہ اس امداد کو صرف مخصوص پراجیکٹس میں ہی استعمال کیا جائے۔پاکستا ن کی بیوروکریسی تو عوام کے پیسے اور بیرونی امداد پر ہی ذندہ ہے۔
اب ان فلاحی اداروں کی بات کی جائے جو مخیر حضرات سے مستحقین کی مدد کے لئے چندہ اکٹھا کرتے ہیں۔توپاکستان میں ایسے فلاحی اداروں کی تعداد بہت کم ہے کہ جو واقعی ایمانداری اور خلوص نیت سے مستحقین کی مدد کر رہے ہیں۔وگرنہ بے شمار ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی این جی اوز کو ایک کاروبار بنا رکھا ہے۔مستحقین کے چہرے دکھا کر امداد حاصل کرتے ہیں اور بعد میں ان کی تھوڑی بہت نمائشی مدد کر کے لوگوں کو بھی الو بنا دیتے ہیں اور اپنا الو بھی سیدھا کر لیتے ہیں۔چند سال قبل راقم کا بھی ایک ایسے ہی فراڈولنٹ چیرٹی ادارے سے واسطہ پڑا۔جس کا منشور ٹی وی کے ان فنکاروں کی مالی مدد کرنا تھا کہ جو کسی نہ کسی عارضے کی وجہ سے بستر پر پڑے تھے۔
اس مرتبہ انہوں نے غزل کے ہیرو مہدی حسن کا انتخاب کیا۔ اور الحمرا آرٹ کونسل میں ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک تقریب کا انعقاد کرنا تھا اور اس تقریب میں ان کو ایک بھاری چیک سے نوازنا تھا۔اس تقریب میں شرکت کے لئے ٹکٹیں بیچی گئیں۔اور ایک ٹکٹ کی مالیت ایک ہزار روپیہ تھی جب کہ سٹوڈنٹس کو ففٹی پرسنٹ ڈسکاوًنٹ تھا۔یوں اس این جی او نے ٹکٹیں بیچ کر لاکھوں روپیہ اکٹھا کر لیا۔قصہ مختصر کہ ایسی دو عدد ٹکٹیں راقم کے پاس بھی تھی اوروہ ایک ساتھی کے ہمراہ مقررہ تاریخ اور وقت پر الحمرا جا پہنچا۔تو وہاں چند لوگ پہلے سے جمع تھے اور انتظامیہ سے لال پیلے ہو رہے تھے۔کیونکہ وہاں کے ناظم صاحب نے اس طرح کی کسی بھی تقریب سے مکلمل طور پر لا علمی کا اظہار کیا۔ یعنی وہاں نہ تو کوئی تقریب تھی اور جب این جی او کا پتہ لگایا گیا تو وہاں نہ ہی کوئی این جی اوتھی۔
لہذا کسی بھی ادارے کو چیرٹی کرنے سے قبل تھوڑی بہت تصدیق کر لینی چاہیے۔ویسے تو سب سے بہتر ہے کہ انسان مستحقین کی برا ہ ر است مدد کرے ۔اگر معاشرے کے امراء اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ہر فرداپنے اندر مستحقین کے لئے احساس اور چیرٹی کا جذبہ پیدا کرلے تو یقینا ملک سے غربت کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے اور غریب بھی خوشحال ہو ں جائیں گے۔