آئی ایس پی آر کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے ڈوگہ مچہ خیل (خڑ کمر) میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں 3 افسران سمیت 4 فوجی شہید اور 4 زخمی ہو گئے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق شہداء میں لیفٹیننٹ کرنل راشد کریم، میجر معیز مسعود، کیپٹن عارف اللہ اور نائب حوالدار ظہیر احمد شامل ہیں جب کہ واقعے میں سپاہی عارف، اسلم، امجد اور شوکت شدید زخمی ہوئے۔ وطن عزیز میں جب عوام اپنے رشتے دار، دوستوں کے ساتھ بے فکر ہوکر عید کی خوشیاں منارہے تھے تو پاک فوج کے سپوت ہماری حفاظت کے لیے سرحدوں پر اپنی قیمتی جانوں کی قربانی دے رہے تھے، لیکن مقام افسوس کہ شہادتوں اور قربانیوں پر بھی ملک دشمنوں کے سہولت کاروں نے اپنی گھٹیا سیاست کی۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پی ٹی ایم اتنی کیوں مقبول ہوگئی؟ اور باقی قوم پرست جماعتیں کہاں ہیں؟ نئی نسل کو ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکانے کے لیے کیا حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔
بہرحال اس سے قریباً سب ہی واقف ہیں، لیکن میں قبائلی عوام کے حوالے سے بہت محتاط رویہ رکھتا رہا ہوں، کیونکہ انہوں نے پاکستان کی سلامتی و بقا کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پی ٹی ایم خود کو پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے متعارف کراتی ہے۔ اس سے قبل صرف محسود قبیلے کی بات کرتی رہی تھی، پی ٹی ایم کو مقبول کرنے میں سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کا کلیدی کردار رہا ہے۔ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد جس طرح سوشل میڈیا میں محسود کی تصاویر وائرل ہوئیں اور ہر بار کی طرح پُرکشش شخصیت کو میڈیا نے موضوع بحث بنایا، اس کا بھرپور فائدہ پی ٹی ایم نے اے این پی کی مدد سے اٹھایا۔ حالانکہ نقیب کے ساتھ تین مزید افراد، نذر جان، محمد اسحٰق اور محمد صابر بھی قتل کیے گئے تھے، لیکن اُن مقتولوں کے نام و آبائی تعلق پوچھیں تو شاید ہی کسی کو یاد ہو۔ اسحٰق و محمد صابر چچا بھتیجے تھے، سب بے گناہ ثابت ہوچکے تھے۔ نیز اُنہی دنوں دو مزید واقعات ایسے ہوئے جس میں پولیس کے ہاتھوں دو اور ماورائے عدالت قتل ہوئے، اس کا کیا بنا، یہ بھی کسی کو یاد نہ ہوگا۔ پی ٹی ایم نے صرف ”محسود” نام کی وجہ سے صرف نقیب کے لیے سیاست کی۔ ان تمام باتوں کو بھی ایک طرف رکھتے ہیں اور پی ٹی ایم والوں سے کوئی اُن کا اپنا کارکن ہی پوچھ لے کہ نقیب کے والد ان کے دھرنوں اور جلسوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے۔ اب پی ٹی ایم نقیب محسود کے حوالے سے دھرنے و احتجاج کیوں نہیں کرتی، اب لاک ڈائون کیوں ختم ہوگئے تو ان سب کا جواب شاید گالیوں کی صورت ملے، لیکن کڑوا اور سچا جواب یہ ہے کہ اب پی ٹی ایم والے اُن کے اتحادی ہیں جن کے لیے نقیب کا مبینہ قاتل ”بہادر بچہ” تھا۔ آج اسی بہادر بچّے کی جماعت پی ٹی ایم کی سیاسی سپورٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ پی ٹی ایم کے سہولت کاروں کے لیے شرم کا مقام ہے کہ جس شہید بچے کے نام پر خود کو مقبول کرایا، انفرادی قوت کو تسلیم کرایا۔ عالمی میڈیا کے بغل بچہ بنے، آج کی پی ٹی ایم بھی ”بہادر بچہ” بن گئی ہے اور اب ان کا اور فوج مخالف تنظیم کا بیانیہ ایک ہوگیا ہے۔
اے این پی کی تمام قیادت کی دانستہ غلطیوں کی وجہ سے ان کے کارکنان نے پی ٹی ایم کے دھرنے اور جلسوں کو کامیاب بنانے میں سر دھڑ کی بازی لگادی تھی۔ چونکہ میں کئی برس اے این پی کی سیاست کو بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں، اس لیے ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اے این پی کی سندھ میں عدم تشدد کی سیاست کو ختم کرنے میں اُن ہی عناصر کا ہاتھ رہا جو اے این پی کے جلسوں میں سہراب گوٹھ سے گاڑیوں میں کھلے عام بھاری اسلحہ لاتے، اس کے جلسوں میں ہوائی فائرنگ کیا کرتے، اس کے رہنما ان کے آگے (نمائشی) ہاتھ جوڑتے کہ خدا کے لیے ایسا مت کرو لیکن ہوائی فائرنگ کی گھن گرج میں کسی کو بھی خاطر میں نہ لانا وتیرہ بن گیا تھا، مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جب صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا منظور ہوا اور کراچی میں جشن منانے کی تیاریاں شروع ہوئیں تو صوبائی قیادت کو منع کیا گیا کہ اس سے عصبیت کو ہوا ملے گی، جشن خیبر پختونخوا کے نام سے سی ویو پر پروگرام نہ کریں، لیکن شہرت کے زعم و تکبر میں گم ساحل سمندر پر پروگرام کیا گیا۔ عصبیت کو ہوا ملی اور سندھ میں لسانی اکائیوں کے درمیان نفرتیں بڑھیں۔
صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کی پہچان ملنے پروزیر ستان سے تعلق رکھنے والے اے این پی کے وزیر، محسود کارکنان مجھ سے کہتے تھے کہ یہ تو پشتونوں کا صوبہ بنا ہے، اس سے ہمارا کیا تعلق۔ یہ ایک بہت بڑے تعصب کی جانب اشارہ تھا۔ (جو الگ صوبے کے مطالبے کی صورت سامنے بھی آیا)۔ اے این پی کے مقابل وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان طلباء کی تنظیم نے عَلَم بغاوت بلند کردیا تھا۔
شہر میں بھتے لینے میں جہاں لیاری گینگ وار اور ایم کیو ایم کے نام آتے تھے تو بدقسمتی سے اے این پی بھی کسی سے پیچھے نہیں تھی۔ آج تک یہ ذیلی طلبا تنظیم اے این پی کے کسی حکم کو نہیں مانتی۔ سہراب گوٹھ، کواری کالونی، سلطان آباد سمیت کئی علاقوں میں وزیرستان سے تعلق رکھنے والوں نے اپنا اثررسوخ قائم کرلیا تھا۔ اس کا خمیازہ اے این پی کو بھی بھگتنا پڑا تھا، جب شاہ زین محسود نے سلطان آباد میں رینجرز انٹیلی جنس کے اہلکاروں کو اغوا کیا تو کراچی میں اے این پی کے خلاف کریک ڈائون ہوا۔ تمام ضلعی صدور کو حراست میں لیا گیا۔ سندھ کی صوبائی قیادت دبئی فرار ہوگئی۔ کسی نہ کسی طرح کراچی میں باقی ماندہ قیادت نے شاہ زینا محسود سے رینجرز کا اسلحہ برآمد تو کرادیا، لیکن شاہ زین کی گرفتاری ممکن نہ ہوسکی، کریک ڈائون آپریشن ختم ہوا، چیف سیکریٹری سندھ اور رینجرز کے اعلیٰ افسران کے ساتھ میٹنگ میں معافی مانگی گئی۔
یہی کچھ کواری کالونی میں ہوچکا تھا، اُس وقت کراچی میں طالبائزیشن کا بڑا زور تھا۔ کواری کالونی میں طالبان کے کئی اہم رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا۔ یہ علاقہ بھی محسود و وزیر قبائل کے رہائشیوں کی مستقل آبادی ہے، جو کراچی میں کماتے اور وزیرستان میں کالعدم تنظیموں کو مالی امداد بھیجتے تھے۔ کیونکہ یہ جگہ ایشیا کی سب سے بڑی ماربل انڈسٹری بھی ہے، اس لیے کھربوں روپے بھتے کی شکل میں وزیرستان جایا کرتا۔ پانی کے غیر قانونی ہائیڈرنٹ بھی سب سے زیادہ اسی علاقے میں تھے۔ بعدازاں کئی بار وزیر، محسود گروپوں میں تصادم ہوئے۔ جب نقیب کا واقعہ رونما ہوا تو کراچی تا پشاور و وزیرستان میں اس ایشو اور حکومتوں کی سستی و نااہلی نے پی ٹی ایم کو مقبول بنانے میں دوسرا اہم کردار ادا کیا۔
اے این پی کے علاوہ دیگر قوم پرست جماعتیں اتنی فعال نہیں تھیں۔ پی ٹی آئی حکومت اپنا ووٹ بینک بنانے کے چکر میں پی ٹی ایم کی پشت پنائی کرتی رہی، لیکن جب ریاست کے خلاف پی ٹی ایم کے افغانستان اور بھارت سے روابط سامنے آئے تو پی ٹی آئی دبائو کا شکار ہوئی، یہاں تک کہ خڑ کمر واقعے پر بھی کئی دنوں تک خاموش رہی کہ کہیں ان کا ووٹ بینک خراب نہ ہوجائے۔ حکومت ہی نہیں بلکہ مقامی لیڈرشپ بھی منظرعام پر نہیں آرہی تھی، جس سے اپوزیشن جماعتوں کو سیاست چمکانے کا موقع مل گیا اور خوب پوائنٹ اسکورنگ کی گئی۔ جس کے بعد پی ٹی آئی اور فوج کا بیانیہ ایک ہوا۔ پاک فوج کے ترجمان واضح کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی ایم میں اکثریت معصوم نوجوانوں کی ہے اور انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں، اس لیے ان کے خلاف سخت ایکشن سے گریز کیا جاتا ہے، جس کا فائدہ پی ٹی ایم اٹھاتی ہے۔ بیرونی ایجنڈے پر چلنے والی تنظیم بے نقاب ہوچکی ہے۔ اس لیے نوجوانوں کو مزید زمینی حقائق سے آگاہ کرنا ہمارا فرض بنتا ہے، کیونکہ ایسی سیاست میں غریب ہی مَرتا ہے۔