تحریر: امتیازعلی شاکر اپنے ایک مجبور ہم وطن کا خط قارئین کے سامنے پیش کررہاہوں جسے پڑھ کرسب کوایسالگے گاکہ یہ اُن کی اپنی بات ہے۔”اسلام وعلیکم امتیازعلی شاکر بھائی ،اُمیدہے آپ خیریت سے ہوں گے یاکم ازکم میرے جیسے توضرورہوں گے،24 گھنٹے کی آپ بیتی آپ کے سامنے ہے،وقت نکال کرغریب پاکستانی کا خط ضرورپڑھ لیجئے گا۔فجر کے وقت مسجد میں اعلان ہوا کہ بجلی بند ہونے کی وجہ سے پانی ختم ہوچکاہے لہٰذا نمازی گھر سے وضوکرکے آئیں،جب گھر میں پانی کی ٹوٹی کو ہاتھ لگایا تو اس نے بھی اپنی زبان میں یہی اعلان کیا،ایسا لگا جیسے ٹوٹی بھی سوالیہ انداز میں مذاق کر رہی ہوکہ جب مسجد میں پانی نہیں ہے تو گھر میں کوئی خاص بجلی آتی ہے ،جومیںآپ کو پانی فراہم کروں؟ خیر وضو کے لیے کسی نہ کسی طرح پانی کا انتظام ہوگیا اور نماز فجرجماعت کے ساتھ پڑھنے کا موقع بھی مل گیا۔
ALLAH
نماز کے بعد امام صاحب نے ملک و قوم کے ساتھ ساتھ بجلی کی صحت یابی کی دعا بھی کی۔میں نے بھی آمین کہا اور اللہ تعالیٰ کاشکراداکیا جس نے بجلی نہ ہونے کے باوجود میرے لیے پانی کا انتظام کیا۔نماز سے فارغ ہوکر گھر لوٹا تو پتا چلا کہ گیس نہیں آرہی اوربچوں نے سکول بھی جانا ہے ،بچے کہہ رہے تھے ہمیں ناشتہ نہ ملاتو ہم اسکول نہیں جائیں گے ،آس پاس کے گھروں سے پتا کیا کہ کسی گھرمیں آگ جلانے کا کوئی انتظام ہے تو بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرکے انھیں سکول جانے کے لیے تیار کیا جائے پر دور دور تک ایسا کوئی انتظام نہ تھاہر کوئی اسی مشکل سے گزررہا تھا کسی نے بچوں کا ناشتہ تیار کرنا تھا،کسی کو کام سے دیر ہورہی تھی اور بجلی بند ہونے کی وجہ سے کوئی غسل کے لیے پانی تلاش کررہا تھا۔فوری طورپر بازار سے بچوں کے لیے ناشتہ منگوایا تاکہ بچے وقت پر اسکول جاسکیں پرایسابھی نہ ہوسکا کیونکہ بچوں کی سکول وین لیٹ تھی میں نے وین والے بھائی کو فون کیا تو پتا چلا کہ وہ سی این جی نہ ہونے کی وجہ سے لیٹ ہیں، ان کو سی این جی مل گئی تو وین آجائے گی ورنہ سوری، میں نے بھائی کی موٹر سائیکل نکالی اور بچوں کوسکول چھوڑ آیا،پریشانی کے عالم میں یہ بات بھول ہی گیا کہ مجھے بھی کام پر جانا ہے۔
میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے اور بغیر کچھ کھائے پیئے کام کے لیے نکل پڑا ،بس سٹاپ پر پہنچا تو وہاں بہت رش تھا، سی این جی نہیں مل رہی اس لیے کافی دیر سے بس نہیں آئی ،کوئی ایک گھنٹے بعد بس آئی میں بھی دوسروں کی طرح دھکے دیتا لیتا کسی نہ کسی طرح بس میں سوار ہونے میں کامیاب ہوگیا ،میرے ساتھ ہی ایک بزرگ بھی بس میں سوار ہوئے ،ان کو پریشان دیکھ کر میں نے ان سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ ان کی جیب کٹ گئی ہے ،میں نے ان سے پوچھا زیادہ نقصان تو نہیں ہوا وہ کہنے لگے زیادہ یا کم کی بات نہیں ہے میرا بیٹا بیمار ہے۔
بزرگ کی یہ بات سن کر مجھے لگا یہ مانگنے کا طریقہ ہے پربزرگ کی پوری بات سننے کے بعدمیری سوچ غلط نکلی،بزرگ نے بتایا کہ بچہ بیماری کی وجہ سے کچھ کھا ،پی نہیں رہا اور اس نے ڈوسے بیکری کا بن کھانے کی حامی بھری تھی ،وہی بن میری جیب میں تھا جو کٹ گئی اب پریشانی اس بات کی ہے کہ گھنٹہ بھر بس سٹاپ پر کھڑے رہنے کے بعد بس ملی ہے اور ہمارے گاؤں میں ڈوسے بیکری بھی نہیں ہے اس لیے مجھے بن لینے کے لیے بس سے اترنا پڑے گا۔میں اندر ہی اندر بزرگ کو غلط سمجھنے پر بہت شرمندہ تھا ،خیر میں نے اپنی شرمندگی چھپاتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ کے پاس پیسے کم ہیں تو میں آپ کی کچھ مدد کرسکتا ہوں۔وہ بولے نہیں بیٹا میرے پاس پیسے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔
Computer
اتنے میں میرے باس کا فون آگیا انھوں نے میری خیریت دریافت کرنے کے بعد میرے لیٹ ہونے کی وجہ پوچھی تو میں نے ان سے کہا جناب لمبی داستان ہے۔ پہنچ کر سناتا ہوں راستے میں ہوں۔ دفتر پہنچ کراللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور سوچا پہلے اپنا کام دیکھ لوں داستان سفر بعد میں سنا لوں گا،یہ سوچ کر میں نے اپنا کمپیوٹر آن کیا ابھی کمپیوٹر پوری طرح سٹارٹ نہ ہوا تھا کہ بجلی پھربند ہوگئی،ایک ٹھنڈی آہ بھرنے کے بعد مجھے یاد آیا ابھی تک ناشتہ نہیں کیا لہٰذاآفس بوائے کو چائے کے ساتھ اخبار لانے کو کہہ دیا۔تھوڑی دیر میں چائے اور اخبار میرے سامنے تھے
،کیونکہ چائے ابھی گرم تھی اس لیے پہلے اخبار پڑھنے کا موقع مل گیا،سب سے پہلے جس خبر پر نظر پڑی اس میں لکھا تھا ”بجلی بحران 2018ء سے قبل حل نہیں ہوسکتا(خواجہ آصف)یہ خبر پڑھ کر لگامجھے بھی 2018ء تک زندہ رہنے کیلئے حکمرانوں کے نقش قدم تلاش کرناہوں گے ورنہ موجودہ حالات میں تومزید3سال تک زندہ رہناممکن نہیں۔میں اہنی سوچوں میں گم جبکہ شہر میں زندگی تیزی سے رواں دواں تھی اور شام ہونے کو تھی،اب مجھے یہ فکر لاحق ہونے لگی کہ صبح پھر گیس بند ہوئی تو بچوں کا ناشتہ کیسے بنے گا؟اسی فکر نے مجھے کوئی کام نہ کرنے دیا اور میں دفتر سے چھٹی لے کرصبح گھرمیں آگ جلانے کے لیے لکڑیوں کی تلاش میں نکل پڑا کافی تلاش کے بعد ناکام ہوکر گھر پہنچا توذہنی و جسمانی تھکاوٹ کی وجہ سے حالت غیر تھی ۔
بجلی کی موجودگی کو غنیمت جانا اورجلدی سے پانی کی موٹر چلا کر صبح کے لیے پانی جمع کیا،گھروالی سے کہا کہ کھانے سے پہلے میرے اور بچوں کے کپڑے استری کردیں تاکہ صبح بجلی بندہونے کی صورت میں مشکل نہ ہو ،کپڑے استری کرنے کے بعد گھروالی کھانا لے آئی ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ بجلی چلی گئی،موبائل فون کی ٹارچ لائٹ آن کر کے کھانا کھایا اور سونے کی ناکام کوشش کرنے لگا ”میری غریب وطن یہ بات درست ہے جدیددورکی مصروف زندگی میں بہت سے چیزیں اَن دیکھی رہ جاتی ہیں ،آپ کا خط پڑھ بھی لیااورکسی قسم کی رائے شامل کیے بغیرقارئین تک بھی پہنچادیا۔بس ایک بتاتاچلوں کہ جن وجوحات کی بنیادپرآپ نے اپنے آپ کوغریب کہاہے اُن حالات سے ہم سب گزررہے ہیں ۔کیونکہ ہم بحرانوں کی سیاست کرتے ہیں اس لئے 2018ء تک بجلی بحران ختم گیاتویقیناکوئی اس سے بھی بڑابحران ہمارے سامنے ہوگا