غریب کا پاکستان یا چوروں کا؟

Justice

Justice

تحریر : روہیل اکبر

مان لیا کہ ہمارے وزیراعظم انتہائی ایماندار ہیں وہ چوروں کو الٹا لٹکانا چاہتے ہیں اسی پر انہیں ووٹ بھی ملے اور اب انہیں اقتدار میں آئے ہوئے دو سال مکمل ہوچکے ہیں مگر ان دو سالوں میں کیا غریب کو انصاف ملا،کیا چوروں کو سزا ملی،کیا چور بازاری اور لوٹ مار میں کمی ہوئی،کیا تاجر راہ راست پر آئے،کیا اداروں میں بیٹھے ہوئے ڈاکو جیلوں میں گئے؟ نہیں نہیں میری سرکار ایسا کچھ نہیں ہوا نیب نے جن کو پکڑا وہ نہا دھو کر باہر نکل آئے اور جو ابھی تک پکڑے ہوئے ہیں وہ بھی سکون میں ہیں ان سے ابھی تک کچھ نہیں منوایا جاسکا ہمارے اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد انہیں کے غلام ہیں انہی کی وجہ سے تو وہ آج زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں بڑے بڑے عہدے اسی لیے تو انہیں دیے گئے تھے کہ وہ مشکل وقت میں انکا ساتھ دیں سکیں اور آج ایسا ہی ہورہا ہے نہیں یقین تو یہ چند واقعات میں لکھ رہا ہوں انہیں پڑھ لیں اور پھر اندازہ لگالیں کہ یہ غریب کا پاکستان ہے یا چوروں لٹیروں کا بادشاہی مسجد لاہور سے نعلین پاک کو چوری ہوئے آج 18سال مکمل ہوچکے ہیں اور یہ واقعہ ہمارے ذہنوں سے بھی نکل چکا ہے مگر ایک ایسا شخص داتا کی نگری میں موجود ہے جو اس واقعہ پر خاموش نہیں بیٹھا اور پہلے دن سے ہی اس چوری پر احتجاج کر رہا ہے۔

جب کہیں پر بھی شنوائی نہ ہوئی تو پھر بطور احتجاج اپنی جوتی اتار دی 18سال سے یہ شخص بغیر جوتی کے گھوم پھر رہا ہے لاہور کے چپے چپے پر اسکا احتجاج ریکارڈ ہے چیف جسٹس کی گاڑی کے آگے لیٹ کر چوروں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا،گلے میں احتجاجی بینر لٹکا کر احتجاج کیا،آئی جی پولیس کے سامنے احتجاج کیا،پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کیا،وزیروں اور مشیروں کے سامنے دہائی دی،وزیراعلی کو درخواستیں بھجوائیں،وزیراعظم اور صدر پاکستان تک اپنی آواز پہنچائی مگر کچھ نہ ہوا آج اس شخص کو احتجاج پر بیٹھے ہوئے 18سال ہوچکے ہیں مگر کیا مجال حکومت کے کان پر جوں تک بھی رینگی ہو مگر پھر بھی اللہ کے اس بندے نے اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے میں اسے دنیا کا عظیم انسان مانتا ہوں جو حق پر ڈٹا ہوا ہے اور اس انسان کا نام ہے پیر ایس اے جعفری جو گڑھی شاہو لاہور میں صبح سے رات تک ننگے پاؤں موجود رہتا ہے میں نے اسے سخت گرمیوں میں بھی ننگے پاؤں تپتی سڑک پر چلتے دیکھا ہے اور یخ بستہ راتوں میں بھی اسے بغیر جوتی کے دیکھا ہے بہت کم ایسے افراد ہیں جو حق کاالم لیے ہوئے سرے عام گھوم رہے ہیں۔

منگل کی پیر ایس اے جعفری نے فون کرکے مجھے بتایا کہ آج نعلین پاک کی چوری کو 18سال ہوچکے ہیں اس لیے آپ دفتر جاتے ہوئے میرے پاس چکر لگاتے جائیں تاکہ کچھ بات کرلیں میں جب وہاں پہنچا تو ایک اور شخصیت سید وقارالحسنین نقوی صاحب بھی وہاں موجود تھے جنکا میں نے تفصیلی انٹرویو کیا اور انہوں نے اس انٹرویو میں بڑے بڑے انکشافات بھی کیے ملزمان سامنے ہونے کے باوجود پکڑے نہیں جارہے۔اسی طرح حکومت پنجاب کی سرپرستی میں چلنے والے دارالامان کاشانہ میں رہائش پذیر کائنات کو قتل ہوئے 5ماہ سے زائد ہوچکے ہیں مگر ابھی تک اس معصوم بچی کے قاتل آزاد ہیں کائنات قتل کیس کو لیکر چلنے والی افشاں لطیف جو اسی کاشانہ میں سپرنٹنڈنٹ تھی کو بھی انصاف نہیں ملا بلکہ چنددن قبل اسکے گھر کو آگ لگا دی گئی وہ بھی سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے میں جب اسکے گھر گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اتنی شدید آگ میں وہ کیسے بچ گئی مگر اللہ تعالی ہے ناں جو مارنے والے سے زیادہ طاقتور ہے اپنے جلے ہوئے گھر میں دکھی دل کے ساتھ جو افشاں نے جو بتایا وہ ناقابل یقین لگتا ہے مگر یقین کرنا پڑا کیونکہ وہ اسی ادارے کی ایک ذمہ دار سیٹ پر کام کرتی تھی جہاں سے بچیوں کو اعلی افسران کی خدمت میں پیش کیا جاتا تھا اس ناانصافی پر جب افشاں نے آواز اٹھائی تو اسکے بعد اسے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

اسی طرح سابق رکن پنجاب اسمبلی سیمل کامران کی جب شادی پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت سے ہوئی تو اسے کن کن حالات سے گذرنا پڑا ابھی تک وہ اس عذاب کو برداشت کررہی ہیں مختلف عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر حصول انصاف کے لیے کوشاں ہے ابھی کل ہی کی بات ہے اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال پمز میں ایک باپ اپنے جوان بیٹے کی لاش کے ساتھ کھڑا یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ میں انصاف کے لئے کہاں جاؤں۔؟جسکے بیٹے کو سانپ نے ڈس لیا اور ڈاکٹر اپنے اپنے موبائلوں پر مصروف رہے لیبارٹری والے بھی اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے اور آخر کا ر نوجوان طلحہ عباسی ڈھائی گھنٹے ٹرپنے کے بعد جان کی بازی ہار گیا اور ہم سب کے منہ پر وہ طمانچہ رسید کر گیا یہ ڈاکٹرز جو کبھی مسیحا ہوتے تھے آج درندے بن چکے ہیں۔

لاکھوں روپے ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے تنخوا لینے والے ہمیں مرتا دیکھ کر بھی ہم پر ترس نہیں کھاتے۔ اسی طرح بلوچستان کے علاقے بارکھان کے سینئر بہادر صحافی انور کھتران کو قتل کر دیا گیا کاش انور بھی ایک مشہور صحافی ہوتے اور اس کا تعلق ایک پسماندہ ضلع سے نہ ہوتا تو شاید پھر اس کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی جاتی اور ملزمان گرفتار ہوتے لیکن ایسا کچھ نہیں ہے اسی لیے ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں جب پاکستان کی غریب عوام کو انصاف ملنا شروع ہوجائے گا اور اس کے لیے ایسے مشیر رکھے جائیں جو حقیقی طور پر عوام کا درد سمجھتے ہوں اگر باہر سے ہی درآمد کیے ہوے افراد کو ہی ہم پر مسلط کرنا ہے تو پھر نیا پاکستان بننا ناممکن ہے کیونکہ انہیں تو پاکستان کی غریب عوام کا دکھ درد معلوم ہی نہیں ہے وہ تو صرف اپنی مشہوری کریں گے اور اسکے بعد پھر باہر بھاگ جائیں گے کل کو کوئی اور حکمران بنے گا تو وہ اسکے ساتھ مل کر بھر شامل اقتدار ہوجائیں گے اور غریب عوام یونہی سسکتی، تڑپتی اور بے موت مرتی رہے گی۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر