تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر دو دن پہلے یہ خبر اچانک نظر سے گزری کہ خط افلاس سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے والے بیچارے لاچار و مجبور وزراء اور غرباء ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے دکھی انسانیت کی گراں قدر خدمات سر انجام دے ہی ڈالی ہیں یس حکومتی اقدام سے ملک میں بسنے والے کروڑوں جھگی نشین رئوساء اور بے روزگار امراء کی خوشی قابل دید ہے کہ چلو حکومت کو کوئی تو ایسی نیکی کرنے کی اللہ پاک نے توفیق دی ۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ عوام تو ایسے ہی بلا وجہ شور ڈالتی رہتی ہے کہ ہم غریب ہیں بھلا عام مزدور کو پورے چودہ ہزار ماہانہ کیا کم ہیں مفت میں غربت کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور اوپر سے ان لوگوں کے بچے بھی تو کماتے ہیں کوئی کسی چائے والے ک برتن دھو کر دو سو روپیہ یومیہ لے رہا ہے کوئی گلے میں بیگ ڈالے سڑکوں پر لوگوں کے بوٹ پالش کر کے دو سے تین سو دیہاڑی لے آتا ہے کسی کا بچہ ورکشاپ سے استاد سے مار کھا کر ڈیلی سو پچاس لانے کے ساتھ ساتھ ایک ہنر مند بھی تو بن رہا ہے پھر یہ غربت غربت کا ماتم کیوں کر رہے ہیں اصلی غریب تو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں بیچاروں کی گردن پر وزارت کا بوجھ بھی ہے اپنے ناتواں کندھوں پہ جاگیر داری کی مزدوری وزن بھی اٹھائے پھر رہے ہیں اور کچھ لوگ تو اتنے غریب بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں جن پر کئی کئی فیکٹر یوں اور ملوں کی ملکیت کا اضافی بوجھ بھی ہے اندرون اور بیرون ملک پھیلے ہوئے بزنس نے بھی ان کی کمر توڑ کر رکھی ہوئی ہے کس قدر غربت کی چکی میں پس رہے ہیں یہ وزراء اور ممبران پارلیمنٹ اس بات کا احساس ہی نہیں پاکستان کی رئیس عوام کو ان کی تو عادت بن چکی ہے شور مچانے کی ہم وزراء اور مسکین ممبران کی تنخواہوں کو بڑھا کر اس شور کو آف کرنا چاہتے ہیں مگر یہ آف شور آف شور کر کے دراصل شور کو آن کر رہے ہیں۔
اب دیکھیں نہ اگر کسی وزیر کی ماہانہ تنخواہ پونے تین لاکھ روپے یا اڑھائی لاکھ روپے کر دی گئی ہے تو وہ بھی بہت کم ہے ان مساکین کے اخراجات تو دیکھے عوام پھر شور مچاتی ہوئی بھی اچھی لگے ہماری عوام کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ بیچارے وزراء کس قدر کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہیں تو یہ لوگ اپنی چودہ ہزار کی بیش بہا تنخواہ میں سے بطور عطیہ کچھ رقم ان معزز ممبران کی امداد لازمی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے ان لوگوں کی امداد کرنا ہماری عوام کو اپنا قومی اور ملی فریضہ لگنے لگے گا اس عوام کو ابھی معلوم ہی نہیں کہ غرباء پارلیمنٹ کتنی مشکل سے اپنی روٹی روزی چلا رہے ہیںبلکہ اس نیک کام کے کرنے پر حکومت کو داد تحسین پیش کرنا چاہئے کہ اس گورنمنٹ نے یہ اقدام اٹھا کر کتنا کار ثواب سر انجام دے ڈالا ہے ۔آفرین آفرین آفرین تو قارئین اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیا جائے کیا خیال ہے۔
ایک طرف وہ امراء پاکستان میں آباد ہیں جن کا چار چار دن چولہا فریج کی طرح ٹھنڈا رہتا ہے بھوک سے جن کے ہونٹ صحرائے چو لستان کا منظر پیش کرتے ہیں جن کی بیٹی جوان ہو جائے تو جہیز کی لعنت پاس نہ ہونے کی وجہ سے وہ پیا گھر سدھارنے کی بجائے بالوں میں چاندی سجائے موت کی سیج پر بیٹھ جاتی ہے خود کشی کی شہنائیوں کی گونج میں ، ان لوگوں کے بچے سرکاری سکولوں میں عیش سے پڑھتے ہیں فیس کی مد بھی ماہانہ صرف بیس روہے تو دینے پڑتے ہیں کتابیں گورنمنٹ مفت دیتی ہے اگر بیمار ہو جائیں تو سرکاری اسپتالوں میں جا کر پانچ روپے کی پرچی پر اپنا علاج کروا لیتے ہیں انکو کونسا بیرون ملک جا کر علاج کی کوفت اٹھانی پڑتی ہے چودہ ہزار ماہانہ کیا کم ہیں ان کے لیئے آخر ان کے خرچے ہی کیا ہیں ؟اگر انکی بیٹی کی شادی ہو بھی جائے تو دس بیس لوگ برات میں آتے ہیں انکو کونسا خرچہ کرنا پڑتا ہے اگر کہیں قسمت کی ستم ظریفی سے انکا کوئی بیٹی یا بیٹا پڑھ لکھ جائے تو کیا ضرورت ہے انکو سرکاری ملازمت کی کسی فیکٹی یا مل میں جا کر بیچارے کسی غریب وزیر یا ممبر پارلیمنٹ کی غربت دور کرنے کے لیئے وہاں کیوں جا انکا ہاتھ نہیں بٹاتے پاکستان بھر میں سوائے اسمبلیوں کے ہر جگہ رئیس اور امیر ہی تو رہتے ہیں۔
Poverty
صرف غربت کی چکی میں پس رہے ہیں تو لاچار و مجبور وزراء اور ممبران انکی غریب پروری پوری قوم کی اولین ترجیح ہونی چاہئے پھر یہ لوگ کیوں فرض کے احساس سے عاری ہیں ؟ وزراء تو بیچارے اتنے مجبور ہیں کہ دو سے اڑھائی لاکھ کی قلیل تنخواہ میں سے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں بچتے کہ بیچارے اسمبلی کے اجلاسوں میں ہی شرکت کر سکیں بھائی انکے پاس اسلام آباد پہنچنے کا کرایہ تک تو بچتا نہیں کیسے کریں وہ اجلاسوں میں شرکت ؟اسمبلی کے ہونے والے اجلاسوں میں انکی حاضری انکی غربت کا منہ بولتا ثبوت ہے 289 اجلاسوں میں کوئی 64 بار پہنچا کوئی 56 کوئی 53کوئی 48اور ایک وزیر پر تو اتنی غربت چھائی ہوئی تھی کہ وہ مسکین صرف 28بار اجلاسوں میں شرکت کے قابل ہوا اتنی قلیل تنخواہ میں وہ موصوف کس طرح شرکت کرتا اجلاسوں میں یہ امیر قوم اتنا بھی نہیں سوچتی کہ ہم نے ان بیچاروں غربت کے ماروں قوم کے دلاروں پر کوئی رحم بھی کرنا ہے اسی واسطے تو چاروناچار حکومت کو ہی ان کی غربت کا احساس ہوا ہماری رئیس عوام سیدھے طریقے سے ان وزراء اور ممبران کی مدد نہیں کرتی اسی لئے اس امیر قوم سے چھپی ہوئی دولت نکلوانے کے لئے ایک ٹافی سے لیکر ہر اشیاء خوردنی پر ٹیکس کی صورت میں ایک چندہ برائے غرباء اسمبلی لگا دیا گیا ہے۔
بجلی گیس اور پانی کے بلوں پر بھی ٹیکسز کی بھر مار کر کے اس قوم کی چودہ ہزار ماہانہ میں سے بچائی ہوئی دولت اگلوا کر گرباء پارلیمنٹ کی امداد کا فنڈ قائم کر رکھا ہے آخر کار انہی غرباء نے اس عوام کا بھلا سوچنا ہوتا ہے انکو زکام ہو جائے تو لندن جانا پڑ سکتا ہے انکے بچوں کو بھی تو پڑھنے کا حق ہے انہیں پردیس میں جا کر علم حاصل کرنا پڑتا ہے جو دوسرے ممالک میں بزنس کا عذاب ہے اسے دیکھنے کے لئے بھی باہر جانا پڑتا ہے اسی رئیس اور امیر قوم کی خاطر اتنے کام سر انجام دینے کے لئے پیسے کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے نہ اسی وجہ سے عوام سے مختلف مدوں میں وہ نکلوایا جاتا ہے آخر غریب پروری بھی کوئی چیز ہوتی ہے اگر عوام یہ سوچ لے کہ آخر اس کی ضرورتیں ہی کتنی ہیں تو وہ کبھی بھی مہنگائی ، بیروز گاری ،تعلیم اور صحت کے مسئلے پر بحث نہ کرے ساری سہولتیں تو ہیں۔
اس عوام کے پاس پورا پورا دن اسپتالوں میں لائینوں میں لگ کر بیٹھے رہتے ہیں کبھی کسی نے اعتراض کیا کہ سرکاری عمارت میں اتنی دیر سے کیوں فارغ بیٹھے ہو مزے ہی مزے ہیں اس قوم کے کہ اسپتالوں کے فرشوں پر بیٹھے یا پلاٹوں کی نرم گھاس پر شب بھر سویا رہے اس سے بڑھ کر اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے اس قوم کے لئے گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے اسی عوام کے لئے ہی تو بنائے گئے ہیں کبھی کسی بیچارے غریب ممبر اسمبلی یا وزیر کا بچہ دیکھا ہے وہاں وہ تو بیچارے لندن ، امریکہ ، فرانس ،کنیڈا ،آسٹریلیا جا کر بیچارے پردیسی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں پاکستان کی عوام اتنی امیر ہے کہ سارا دن کسی راج کے پیچھے تگاری اٹھائے کام کر کے شام کو اپنے گھروں میں آرام سے آکر سو جاتے ہیں غربت تو بیچارے وزراء کے لئے ہے کہ پردیسیوں کی سی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے انہیں آج لندن ہوتے ہیں تو کل ماسکو اگلی رات واشنگٹن کتنے غریب ہیں کتنے مجبور ہیں کس قدر غربت اور سفروں کے مارے ہوئے ہیں ۔ عوام کو چاہئے کہ فیصلہ اب خود کر لیں ان معزز غرباء کا اور انکی حسب توفیق مدد لازمی کریں کوئی ایسا حل نکالیں کہ بیچارے ہم جیسے امیر ہو جائیں اسمبلی کی ممبر شپ نے اور وزارت نے تو انکو غربت کی اٹھاہ گہرائیوں میں لا پھینکا ہے ان کی غربت کو ختم کر دینا پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔
M.H BABAR
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر mobile ;03344954919 mail ; mhbabar4@gmail.com