تحریر : شیخ توصیف حسین دور جہالت میں جب انسان صدیوں پہلے پتوں اور جانوروں کی کھالوں کو زیب تن کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کی بسرواوقات جنگلوں اور پہاڑوں کی غاروں میں رہ کر کرتا تھا تو اُس وقت طاقتور انسان کمزور انسانوں شکار کیا گیا مختلف جانوروں کا گوشت پہلے از خود ہڑپ کر جاتا تھا جبکہ باقی ماندہ گوشت جس میں زیادہ تر ہڈیاں ہوتی تھی کمزور انسانوں کے سپرد کر دیتا تھا اور وہ بھی بڑی حقارت سے بس یہی کیفیت صدیاں گزر جانے کے باوجود آج کے جدید دور میں بھی طاقتور انسانوں کی ہے جو آج ہلاکو خان اور چنگیز خان بن کر غریب بے بس اور کمزور انسانوں کی سوچوں مقاصدوں اور جائز خواہشات کے ساتھ ساتھ اُن کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا قتل عام جبکہ اپنے ملک کی پاک فوج جو اندرونی و بیرونی ہر مسئلے پر اپنی جانوں کا نذرانہ دینے میں مصروف عمل ہے کے ساتھ عدلیہ کی تذلیل کر کے اپنی حکمرانی قائم کیئے ہوئے ہیں تو یہاں چنگیز خان کا ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ ایک دفعہ چنگیز خان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو زندگی بھر میں کسی شخص پر ترس آیا ہو تو بتائو جس پر چنگیز خان نے بتایا کہ ہاں مجھے زندگی بھر میں ایک بچہ پر ترس آیا تھا ہوا یوں کہ میں ایک دفعہ ہاتھی پر سوار ہو کر جا رہا تھا کہ راستے میں ایک معصوم بچہ جو کھیل کود میں مصروف تھا نظر آیا جس پر میں نے اُس بچے پر ترس کھاتے ہوئے اُس کے پیٹ میں نیزہ مار کر محض اس لیئے اُٹھا کر دور پھینک دیا کہ کہیں یہ بچہ ہاتھی کے پائوں کے نیچے آ کر روندا نہ جائے بالکل یہی کیفیت ہمارے ملک کے طا قتور انسانوں کی بھی ہے کہ اگر وہ کسی کمزور انسان پر ترس بھی کھاتے ہیں تو چنگیز خان جیسا تو یہاں میں ایک چھوٹی سی مثال اپنے قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔
ہوا یوں کہ نجانے کس مصلحت کے تحت سیکرٹری ہیلتھ پنجاب نے ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ کی خوبصورتی پر نجانے کتنے کروڑ روپے تو خرچ کر دیئے لیکن غریب اور بے بس مریضوں کیلئے نہ تو کوئی اعلی قسم کی مشینری منگوائی اور نہ ہی بیڈز وغیرہ اور نہ ہی مذکورہ ہسپتال جو کہ غریب مریضوں کیلئے نا کافی ہے کو وسیع کرنے کی کوشش یہاں تک کہ غریب مریضوں کیلئے پانی کا بھی کوئی واضع انتظام نہ کیا گیا ہاں البتہ مذکورہ ہسپتال میں چائے کی کنٹین سائیکل سٹینڈ عملہ صفائی کے علاوہ سیکورٹی کا لاتعداد عملہ لاہور کے رہائشی ٹھیکیدار کے سپرد کر کے مذکورہ ہسپتال کے غریب مریضوں پر احسان عظیم کیا گیا ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ ہسپتال میں پہلے سے ہی ایک چوکی قائم تھی جس میں آ ٹھ دس افراد پر مشتمل پولیس کا عملہ اپنے فرائض و منصبی بڑے احسن طریقے سے ادا کرنے میں مصروف عمل تھا اس کے باوجود لاتعداد سیکورٹی کا عملہ جس پر ماہانہ لاکھوں روپے خرچ ہو رہے تعجب خیز ہے بہرحال یہ تو سیکرٹری ہیلتھ پنجاب ہی بہتر جانتے ہیں تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک بادشاہ نے خوش ہو کر ایک بھکاری شخص سے کہا کہ مانگو کیا ما نگتے ہو جس پر بھکاری شخص نے فوری طور پر اپنا کشکول بادشاہ کے سامنے کرتے ہوئے کہا کہ اس کشکول کو بھر دوجس پر بادشاہ نے اپنے قیمتی جواہرات سے لدے ہوئے ہار گلے سے اتار کر کشکول میں ڈال دیئے لیکن بھکاری شخص کا کشکول نہ بھرا تو بادشاہ نے اپنے خزانے کی تمام رقوم کشکول میں ڈال دی لیکن بھکاری شخص کا کشکول پھر بھی نہ بھرا تو بادشاہ نے اپنے ملک کے متعدد اہم ادارے جس میں بجلی ٹیلی فونز وغیرہ سر فہرست ہیں ٹھیکے پر دیکر جو رقوم حاصل کی وہ بھی کشکول میں ڈال دی لیکن بھکاری شخص کا کشکول پھر بھی نہ بھرا جس پر بادشاہ غیر ملکیوں سے قرض لیکر اُس کشکول میں ڈالا لیکن کشکول پھر بھی نہ بھرا تو بھکاری شخص نے بادشاہ کی بے بسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ بادشاہ سلامت یہ کشکول کبھی بھی نہیں بھرے گا۔
چونکہ یہ پاکستانی حاکمین وزیروں مشیروں سیکرٹریوں اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی نے مجھے گفٹ میں دیا تھا یہ نہ تو پہلے کبھی بھرا ہے اور نہ ہی اب یہ بھرے گا بادشاہ سلامت میں آج آپ کو ایک راز کی بات بتاتا چلوں کہ پاکستان کے حالیہ بلدیاتی الیکشن میں جیتنے والے لاتعداد ممبران نے تیس لاکھ روپے سے لیکر پچاس لاکھ روپے تک کے عوض اپنے ضمیر کا سودا کر کے اپنے علاقے کی عوام کی امنگوں اور سوچوں کا سودا کر کے نااہل خاندان کے افراد کو بلدیہ اور ضلعی چیرمین بنا دیا ہے جو ضلعی و بلدیہ کے چیرمین بن کر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے میں مصروف عمل ہیں بادشاہ سلامت یہاں میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سناتا ہوں کہ ایک ضمیر فروش ممبر چیرمین بلدیہ کے پاس اس کی کوٹھی پر پہنچا اور بڑے جوش و خروش سے چیرمین بلدیہ کو کہنے لگا کہ میرے علاقے میں عملہ صفائی کے نہ ہونے کے سبب غلاظت کے بڑے بڑے امبار لگ چکے ہیں جس کی وجہ سے میرے علاقے کی عوام مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو کر مجھے بددعائیں دینے میں مصروف عمل ہیں۔
یہ سن کر چیرمین بلدیہ کا نااہل بھائی اُس ممبر سے مخا طب ہو کر کہنے لگا کہ جس وقت چالیس لاکھ روپے کے عوض تم نے اپنے ضمیر کا سودا کیا تھا اس وقت تمھیں اپنے علاقے کی عوام جہنوں نے لاکھ کاوشوں کے بعد تم کو اپنا ممبر بنایا تھا صحت و صفائی کا خیال نہ آ یا اس وقت تو بڑے شوق سے چالیس لاکھ روپے کا چیک وصول کرنے کے ساتھ ساتھ روالپنڈی جیسے علاقے میں بکرے مرغے مچھلی اور بریانی وغیرہ تو خوب ڈٹ کر کھاتے رہے ہو اور وہ بھی بڑے شوق سے چونکہ مفت جو ملتا تھا بادشاہ سلامت میں نے یہ باتیں از خود اپنے کانوں سے سنی چونکہ میں وہاں پر بھیک مانگنے گیا تھا ان باتوں کو سننے کے بعد میں وہاں سے یہ سوچ کرواپس یوں ہی آ گیا کہ جو لوگ اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہوئے ذرا بھر نہیں ہچکاتے ان بے ضمیر انسانوں سے بھیک مانگنا بھی بھیک کی توہین ہے۔
سپیروں نے یہ کہہ کر سانپوں کو قید کر لیا کہ اب انسان ہی کافی ہیں انسانوں کو ڈسنے کیلئے