آجکل الیکشن کی تیاریاں عروج پر ہیںاور ہر طرف سیاسی بحث و مباحثے چل رہے ہیںکہ اب کون جیتے گا ، اور کس کے مقدر میں حکومتی اقتدار آئے گا۔سیاسی رہنما بھی آجکل کارنر میٹنگزاور جلسے جلوسوں میں مصروف ہیں جبکہ عوام اسی پریشانی میں مبتلا ہیں کہ وہ ووٹ کس کو دیںکیونکہ سارے ہی سیاست دان تقریبا ایک جیسے ہیں ،ووٹ لے کر اقتدار کی کرسی سنبھالنے کے بعد انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی کہ کس حال میں لوگ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں یا انہیں کس طرح بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کہ جائیں۔
الیکشن کے دن قریب آتے ہی غریب عوام کے دروازوں پر سیاست دانوںکی لائینیںدیکھنے کو ملتی ہیں ،تمام ووٹ مانگنے والے امیدوار بے شمار وعدے کر رہے ہوتے ہیں ،کہ ہم اقتدار میں آکر آپ کا یہ مسئلہ حل کر دیں گے،ہم آپ کی آواز اُٹھائیں گے ، مگر افسوس !کہ الیکشن کے بعد کوئی بھی سیاسی رہنمادیکھنے کو نہیں ملتا ، سب ہی اپنے اپنے وی آئی پی بنگلوں میںپر آسائش زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
عوام کے پیسے کی بلٹ پروف گاڑیاں اور سکیورٹی استعمال کر تے ہیں۔ان رہنمائوں کو تمام سہولیات میسر ہوتی ہیں ،مگر عوام کو دیکھ لیں کتنی سہولیات یہ فراہم کرتے ہیں ،سی این جی ہفتے میں3 دن بند کر دی جاتی ہے ، اور جو چار دن کھلتی ہے تولائنوں میں کھڑے ہوکر لوگوں کا وقت ضائع ہوتا ہے۔
پھر یہی عوام پنشن کے حصول کے لئے بنکوں کے باہر گھنٹوں اپنی باری کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں ،۔۔۔ابھی بھی بی بی اور بھٹو زندہ ہے۔۔،مگر عوام مہنگائی اور مسائل سے روز مرتی ہے ۔پی پی پی کا وہ ہی ایک نعرہ ہے ،روٹی کپڑا اور مکان ،،پہلے دور میں تو سب کھا پی گئی،اب جو بچ گیا ہے وہ سب بھی عوام سے لُوٹ لیں گے۔۔اگر دوبارہ آگئے۔
الیکشن کے قریب آتے ہی ہر پارٹی نے اپنا منشور بھی پیش کر دیا ہے،ساتھ ہی بڑے بڑے وعدے بھی کئے جا رہے ہیں،ہم اقتدار میں آکر ٹیکس اکٹھا کریں گے ،عوام کو بہترین سہولتیں دیں گے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے،اور یہ سب کے لیے مساوی ہوگا ،ادھر عوام بیچاری، ہر دفعہ ان چالاک اور مکار سیاسی رہنمائوں کی باتوں میں آجاتی ہے اور انہی کرپٹ لوگوں کو ووٹ دے دیتی ہے یہ کیسے حکمران ہیں کہ جو خو د تو ٹیکس بھی نہیں دیتے ،جیسے ہمارے دو سابق وزیر اعظم پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی نے کبھی ٹیکس دیا ہی نہیں اور نہ ہی ایف بی آر سے این ٹی این نمبر حاصل کرنے کی زحمت کی۔
سب پارٹیاں ١١مئی کو ہونے والے انتخابات کے بعد ایک ہو جائیں گی کیونکہ الیکشن کے بعدسب نے مل کر ہی عوام کولوٹنا ہے،جیسے کہ پچھلی حکومتیں کرتی آئیں ہیں ،اور پھر یہ حکمرانالیکشن پر تو لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں، مگر ان کے حلقہ میں اگر ضرورت مندکو چند روپے کی بھی ضرورت پڑ جائے تو یہ لوگ مدد کرنے کے لئے نظر ہی نہیں آتے ،مگر جب ووٹ لینے کی باری آتی ہے تو پھر انہیں غریب لوگوں کے پاس آموجود ہوتے ہیں۔
Fake Degrees
الیکشن لڑنے والوں کی اب زیادہ تعداد ان امیدواروں کی ہے جو کہ جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہو کر بھی اہل ہو گئے ہیں،نجانے یہ کیسی جانچ پڑتال ہے۔؟ ،نجانے یہ کیسا قانون ہے ۔؟؟ کتنی حکومتیں آئیں اور گئیںمگر عوام دہشت گردی ،مہنگائی،لوڈشیڈنگ کے عذاب کو اکیلے ہی جھیلتی رہی،خود تو حکمران اے سی میں بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے رہے۔پھر بیروزگاری مزید بڑھتی چلی گئی۔
جعلی ادویات کا کیس بھی سامنے آیا ،اس طرح عوام نے جس کرب سے یہ پانچ سال گزارے ،یہ آرام و آسائش کے عادی حکمران کیا جانیں۔پاکستان میں عومی لیڈر بہت کم ہیں جو کہ عوام میں گھل مل کر رہتے ہیں ، جیسے جمشید دستی ایک عوامی لیڈر ہے ،اس کے پاس کوئی بڑا وکیل نہیں تھا ، اس لئے جیل کی ہوا کھانی پڑی ،اور پھر رہائی ملی۔
اب دیکھنا ہے کہ پاکستان کی مجبور بے بس اور بیچاری عوام اس الیکشن کے بعد امن و سکون کی نیند سوتی ہے ،یا کہ پھر سے رت جگے مناتی ہے ، خوشحالی آئے گی یا کہ تنگی کا سامنا ہو گا ، وسائل بڑھیں گے یا کہ مسائل کا سامنا ہوگا ،آخر اس کے حصے میں اسی طرح بیچارگی ہی آئے گی اور ایک دفعہ پھر یوں ہی مجبور و بے بس رہے گی۔
یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔اس لئے تو کہتے ہیں کہ اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں ،ووٹ ضرور ڈالیں مگر ان حکمرانوں کو نہیں کہ جن کو بار بار آزمایا جا چکا ہے ۔ہماری تو ملک و قوم کے لئے یہ ہی دعا ہے کہ آئندہ آنے والے حکمرانوں کے دل میں خوف خدا ور انسانیت کا جزبہ ہو،تاکہ اس بچاری عوام کو مزید پانچ سا ل ذلیل نہ ہونا پڑے۔