کراچی (جیوڈیسک) سیلزٹیکس ریفنڈز کا ناقص نظام پلاسٹک مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث ہیں، حکومت سیلزٹیکس ریفنڈ کا نظام حقیقی معنوں میں شفاف بنائے توپاکستان سے پلاسٹک مصنوعات کی سالانہ برآمدات 60 ملین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے جو فی الوقت صرف 12 ملین ڈالر تک محدود ہے۔
پاکستان سے افغانستان کے علاوہ مشرق افریقی ممالک زمبیا، کینیا ودیگر ممالک اور مشرق وسطیٰ کے لیے مختلف نوعیت کی پلاسٹک مصنوعات اورفاضل پرزہ جات کی برآمدات ہورہی ہیں، پاکستان میں مجموعی طور پر 6000 پلاسٹک کی صنعتیں قائم ہیں جن میں تقریبا 400 صنعتیں منظم شعبے کے تحت جبکہ غیرمنظم شعبے کے تحت گھریلو، چھوٹی ودرمیانی درجے کی باقی ماندہ ہزاروںصنعتیں شامل ہیں جو سیلزٹیکس کے رائج پیچیدہ قوانین میں اصلاحات نہ ہونے کے باعث رجسٹریشن حاصل کرنے سے گریزاں ہیں۔
پلاسٹک کی 60 فیصد صنعتیں پنجاب، 30 فیصد سندھ، 7 فیصد خیبرپختونخوا اور 30 فیصد صنعتیں بلوچستان میں قائم ہیں جن میں تقریبا 7 لاکھ افراد کو روزگارحاصل ہے۔ مقامی پلاسٹک انڈسٹری ریونیو کی مد میں حکومت کوسالانہ 8 ارب روپے کی ادائیگیاں کرتی ہے۔
مختلف نوعیت کے مسائل کے باعث پاکستان سے پلاسٹک مصنوعات کی برآمدی افزائش 15 فیصد تک محدود ہے حالانکہ یہ شعبہ سالانہ 2 لاکھ 60 ہزار ٹن سے زائدپلاسٹک خام مال کی پیداوار کررہا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان پلاسٹک مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف اور ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر زکریا عثمان نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے تاحال مقامی پلاسٹک انڈسٹری کو اہمیت نہیں دی گئی ہے۔
حالانکہ پلاسٹک انڈسٹری تمام صنعتی شعبوں کی مدرانڈسٹری بن گئی ہے جو نہ آٹوموٹیوسیکٹر بلکہ الیکٹرانکس، فرنیچر، ہرکموڈٹی ، فروٹ، سبزیوں، دالوں چاول گندم کے علاوہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیکیجنگ کی بنیاد ہے، حکومت اگر سیلز ٹیکس قوانین میں اصلاحات لائے اور ریفنڈز وریبیٹ کا نظام حقیقی معنوں میں شفاف بنادے تو پاکستان سے پلاسٹک مصنوعات کی برآمدات میں 4 گنا اضافہ ممکن ہے اور سیلزٹیکس نیٹ میں بھی وسیع پیمانے پر توسیع ہوسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی پلاسٹک انڈسٹری 100 فیصدی پیداواری صلاحیت کے باوجود 70 تا 89 فیصد کے استعداد پر آپریشنل ہیں، مقامی سطح پر انڈسٹری پی وی سی، پی ای ٹی، جی پی پی ایس، ایچ آئی پی ایس، ای پی ایس، میتھانول اور یوریا میلامائین کی پیدوار کررہی ہیں، یہ واحد شعبہ ہے کہ جو سیلف فنانسنگ کی بنیاد پر قائم ہے اور اس شعبے میں تقریبا 30 ارب روپے سے زائد مالیت کی سیلف فنانسنگ کی گئی ہے۔
ذکریا عثمان نے بتایا کہ پاکستان میں فی فرد 3 کلوگرام سالانہ پلاسٹک کی کھپت ہے، پاکستان پلاسٹک ایسوسی ایشن اپنی مدد آپ کے تحت نت نئی پلاسٹک پروڈکٹس تیار کرکے ملکی برآمدات میں اپنا حصہ بڑھانے کی کوششیں کررہی ہے اور اسی سلسلے میں پاک پلاسٹ بین الاقوامی نمائش کا بھی اپریل 2015 کو کراچی ایکسپوسینٹر میں منعقد کی جارہی ہے جو 17 تا 19 اپریل تک جاری رہے گی۔
پاک پلاسٹ نمائش میں مقامی صنعتوں کے علاوہ غیرملکی کمپنیوں کے بھی اسٹالز لگائے جائیں گے ۔زکریا عثمان نے بتایا کہ حکومت پلاسٹک ٹیکنالوجی سینٹر نامساعد حالات اوریونیڈو کی جانب سے 20 سال قبل فراہم مشینری ناکارہ ہونیکی وجہ سے بندکرنے کی تجویز پر غور کررہی ہے لیکن پلاسٹک
مینوفیکچررزایسوسی ایشن کی خواہش ہے کہ وفاقی وزارت تجارت قومی مفاد کو مدنظررکھتے ہوئے پلاسٹک ٹیکنالوجی سینٹرکو ایسوسی ایشن کے حوالے کرے جو اس ٹیکنالوجی سینٹر میں اپ گریڈیشن اوراصلاحات لاکروہاں کے طلبا کو دورجدید کی پلاسٹک ٹیکنالوجی سے آگہی دے سکیں۔