ناقص روایتی نظام تعلیم

Education

Education

وحی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغاز ہی ”پڑھ” سے ہوا اور قرآن پاک اور احادیث میں جگہ جگہ ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے علم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ یوں ہماری کائنات کی تخلیق سے ہی تعلیم کی اہمیت انسانی زندگی کے لیے اہم رہی ہے۔

تعلیم کی اہمیت سے انسانی زندگی میں کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تعلیم ہی ہے جس نے انسانوں کو جنگل سے نکال کر شہروں سے گائوں اور گائوں سے شہروں تک پہنچایا۔ پوری دنیا کے ترقی پذیر ممالک نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا اور اپنے شہریوں میں تعلیم کو فروغ دے کر ترقی کی بلندیوں کو چھوا۔

مجھے حیرت ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے صرف اسی حکم پر ہی ہمیشہ عمل کیا ہے اور اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر جسے بھی اعلیٰ تعلیم چاہئے اسے چین مغربی ممالک یا انڈیا بھیج دیا جاتا ہے۔

ہمارے ملک میں تعلیم کے شعبے میں خرابی کی جڑ جاگیردار اور سیاستدان ہی ہیں۔ جنہوں نے اپنے بچوں کو تو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک بھیج دیا یا پاکستان میں ہی بڑے بڑے تعلیم اداروں میں داخلہ دلوا دیا جہاں او لیول اور اے لیول کی تعلیم دی جاتی ہے۔

عام شہری کے بچے انہی گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں پرانا نصاب پڑھنے پر مجبور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے کیونکہ موجودہ دور میں غریب کے بیٹے کے لیے نظام تعلیم اور ہے جو گورنمنٹ سکولوں میں پڑھایا جا رہا ہے جبکہ امیر لوگوں کی اولادیں ملک کے بڑے بڑے نجی سکولوں میںانٹرنیشنل ڈگڑیاں حاصل کرنے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔

دنیا بھر میں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ عرصہ دراز سے ٹیکنیکل تعلیم بھی لازمی قرار دی جا رہی ہے اور انہی سکولوں میں 6th کلاس سے 8th تک لازمی ٹیکنیکل تعلیم رائج کرکے ہی ہنرمنداور تعلیم یافتہ قوم بنائی جاسکتی ہے جس کے لئے میرے خیال میں موجودہ تعلیمی بجٹ سے ہی اچھے نتائج مل سکتے ہیں۔ جو بچہ انگریزی یا ریاضی کی وجہ سے روایتی تعلیم میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے گا وہ کم از کم ایک ہنرمند نوجوان توبن جائے گا۔ پرائمری کے بعد تمام سکولوں میں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ اگر ایئرکنڈیشنڈ ریفریجریشن، مکینیکل، پلمبنگ، سول، الیکٹریکل، الیکٹرونکس، ٹیکسٹائل وغیرہ پڑھائے جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ والدین کا یہ رویہ بتدریج ختم ہوجائے گا کہ وہ مڈل میں فیل ہونے والوں کو تعلیم سے بالکل دور کر دیں۔

Department of Education

Department of Education

اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ ہمارے ملک کا ہر نوجوان ہنر مند بن جائے گا۔ اس وقت ہمارے ملک میں بھی ہنرمند افراد کی کمی ہے اور ساتھ ہی ساتھ مختلف تکنیکی شعبوں میں دنیا بھر میں ملازمتوں کے بہترین مواقع موجود ہیں۔ اس سلسلے میں حکومت اور محکمہ تعلیم کو ہنگامی بنیادوں پر بتدریج تمام سکولوں میں ٹیکنیکل تعلیم کے شعبے قائم کر کے پرائمری کے بعد 3 سال کیلئے ٹیکنیکل تعلیم کو لازمی قرار دینا چاہئے۔

ہمارے دیہی علاقوں میں سکولوں کی حالت زار تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور آئے روز اس بارے میں رپورٹیں سامنے آتی ہیں کہ فلاں سکول میں جانور بندھے ہوئے تھے یا فلاں سکول کو کسی جاگیردار نے اپنی اوطاق بنا رکھا ہے۔ کراچی شہر میں بھی کئی سکول ایسے ہیں جہاں کچرے کے ڈھیر لگے ہیں اور عملہ گھر بیٹھے تنخواہیں بٹور رہا ہے۔ گھر بیٹھے تنخواہیں لینے کے لئے باقاعدہ طریقہ کار رائج ہے جس میں متعلقہ محکمہ تعلیم کے عملے اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو تنخواہ کا معقول حصہ باقاعدگی سے بطور رشوت دینا پڑتا ہے اور یہ طر یقہ قیام پاکستان سے اب تک رائج ہے۔

اسی وقت 25 لاکھ سے زیادہ ایسے بچے ہیں جنہوں نے پرائمری سکول جانے سے گریز کیا ہوا ہے اور چائلڈ لیبر کی نظر ہو رہے ہیں۔ آج کل حکومت ایک پالیسی بنا رہی ہے جس کے ذریعے ہر بچے پر لازم ہو گا کہ وہ تعلیمی ادارے میں داخلہ لے اور اس پالیسی کا اصل مقصد ہر بچے کو سکول کی چاردیواری تک پہنچانا ہے جس سے پاکستان کی شرح خواندگی میں اضافہ ہو گا۔

ہمارے ہاں ایک اور المیہ زبان کا ہے مادری زبان، قومی زبان اور نصابی زبان کے ساتھ ساتھ بچے کو انگریزی زبان بھی سیکھنی پڑتی ہے۔ میٹرک تک سرکاری اسکولوں میں کورس اردو میں پڑھایا جاتا ہے انٹر میں کورس ایک دم تبدیل ہو کر انگریزی میں ہو جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم صرف ایک زبان میں ہونی چاہیے تا کہ بچے با آسانی سیکھ اور سمجھ سکیں۔

اکثر اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے والے اسٹاف اور کلاس رومز کی کمی کی وجہ سے ایک ایک کلاس میں 80 سے 110 طلباء کو بٹھایا اور پڑھایا جاتا ہے اتنی کثیر تعداد کو ایک جگہ بڑھانا انھیں پڑھانا سمجھانا اور کنٹرول کرنا ایک استاد کے بس میں نہیں ہوتا۔ اسی لیے ان کی پڑھائی شدید متاثر ہوتی ہے اور فطری بات ہے کہ جب بچے نہیں سمجھتے تو استاد بھی دلچسپی نہیں لیتا اس لیے ضروری ہے کہ ہر کلاس روم میں طلباء کی مناسب تعداد ہونی چاہیے اور یہ تعداد 20 سے25 کے درمیان ہونی چاہیے تاکہ استاد بھی پڑھا اور سمجھا سکے اور طلباء بھی سمجھ سکیں۔

تمام سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں سال بھر میں 8 یا 9 مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ سال کے آخر میں ان تمام مضامین کا امتحان10 سے 15 دنوں میں لیا جاتا ہے ایک طالب علم خواہ سال بھر ان تمام مضامین میں کتنا ہی قابل کیوں نہ رہا ہو لیکن امتحان کے دنوں میں اگر وہ کسی وجہ سے ایک پیپر میں حاضر نہ ہو تو اسے فیل قرار دے کر پورا سال ضائع ہو جاتا ہے امتحان کا طریقہ کار تبدیل کر کے سمسٹر وائز کر دیا جائے۔

مہینے کے بعد مضامین کے صرف اس حصے کا امتحان لیا جائے جو پڑھایا جا چکا ہے اس سے مثبت تبدیلی آئے گی اس کے علاوہ مضامین میں ممکن ہو ان کا امتحانی پیپر Objective کر دیا جائے۔ اگر ان تمام مسائل کو بہتر طریقے سے حل کیا جائے تو پاکستان میں تعلیمی نظام میں ایک واضح بہتری نظر آئے گی۔

Muhammad Furqan

Muhammad Furqan

تحریر : محمد فرقان