خیرات

Helping

Helping

تحریر: عرفانہ ملک
یوں تو ہمارے ملک میں مختلف خیراتی ادارے اپنے اپنے طورکام کررہے ہیں،جو روزانہ مساکین کوکھانا کھلانے کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں اورجوبڑی شخصیات ہیں وہ ان اداروں کے لئے بھرپور فنڈز دیکر ان کے اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان اداروںمیں کچھ ادارے غریب ،بے سہارااور نادار لڑکیوں کی شادیاں اورپھر ان کے جہیز کا بیڑابھی اٹھائے ہوئے ہیں۔اورلڑکیوں کے گھر بساکر اپنی کارکردگی کو انجام تک پہنچارہے ہیں۔جن سے ہم بالکل بھی انکارنہیںکرسکتے۔شاید اگر اس طر ح کے لوگ کسی بھی قوم میں موجود نہ ہوں تو پھرلوگوں کا جینا دوبھر ہوجائے۔

لیکن پھر بھی انسان یہ نہیںجانتا کہ کس وقت اورکس لمحہ اللہ انسان کے کس عمل کو پسند کرلے۔یہی سوچ انسان مرتے دم تک رکھتاہے۔کہ شاید اللہ اس کی یہ اداپسند کرتاہے یا نہیں۔خیرات کا بہترین نمونہ تو وہ لوگ ہیںجو جب کسی کو کچھ دیںتوایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبرتک نہ ہو۔کچھ تو ایسی باکمال شخصیات بھی ہیں۔کہ خود بھی یہ نہیںجانتی کہ وہ نیکی کاکون ساعمل کررہی ہیں۔

Social welfare

Social welfare

آج کل ہماری ڈیوٹی پشاورسے لاہور جانے والی بس اڈے پر لگی ہے جہاں پر آنے والی ہرعورت کی ہم تلاشی کرتے ہیں۔ہم پر اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب دوسرے شہرسے آنے والے کچھ لوگوںنے ہم سے کہاکہ ہم ہوٹل میںروم نہیں لے سکتے کیا ہم اس انتظارگاہ میں بغیر پیسے دیے رہ سکتے ہیں۔تو ہم نے انہیںجواب دیا جی بالکل یہاں رہنے کے لئے کوئی پیسے نہیںلیے جاتے ۔آپ یہا ں آرام سے رات گزار سکتے ہیں۔اورپھر صبح ہوتے ہی اپنی منزل مقصودکی جانب گامزن ہوجائیں۔یہ سن کو وہ اطمینان کا سانس لیے آرام سے بیٹھ گئے۔اب یہاں آپ لوگ سوچ رہے ہونگے کہ اس میں بھلا نیکی کاکونسا کام ہے۔ایسا تو ہرجگہ ہوتاہے مگر جناب ایسا ہرجگہ نہیںبھی ہوتا۔اکثردیکھاگیاہے کہ بس اڈوں پر ٹھہرنے کے لئے اول تو چھوڑانہیںجاتا اوراگر کہیں چھوڑبھی دیاجاتاہے تو چورحضرات ذرادیرنہیںلگاتے چوری کرتے ہوئے۔اس لئے ہم اپنے مالکان کے اس کام کونیکی کانام دیںگے۔ اس کے علاوہ جیسے کہ ہم نے اوپر ذکرکیا کہ ہمارے اس پاک وطن میں کئی ادارے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جس سے ملک کاایک غریب ،پسماندہ اورپسا ہوا طبقہ اپنی زندگی کومناسب زندگی کا نام دے دیتاہے۔

ایسے ہی اداروںکی بدولت کئی جوان لڑکیاں اپنے اپنے گھروںکی ہوجاتی ہیں۔ایسے ہی مخیراداروںکی بدولت یتیم بچوںکی کفالت ممکن ہوجاتی ہے۔اگر ایسے ادارے نہ ہوں تو یقینا معاشرہ میںجرم کی شرح بڑھ جائے گی۔ایسے اداروںکی بدولت کئی جوانوں کی تربیت ممکن ہوپائی ہے۔ایسے ادارے جو صاحب حیثیت لوگوںکی بدولت چل پاتے ہیں۔یقینا ایسے لوگ انعام کے مستحق ہیں اورانہیں ان کا اجر قیامت کے روز ضروربالضرورملے گا۔اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ ان تمام اداروں اوران تمام لوگوںکی حوصلہ افزائی کریں جو اس معاشرہ کو صحیح سمت لے جانے کی سعی میں دن رات مصروف عمل ہیں۔یقینا ہماراساتھ ہی ان کے لئے حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا اورہمارے اس اقدام سے ایسے تمام ادارے اورلوگ مزیدبھی غریب،ناداراورمعاشرہ کے پسے ہوئے لوگوںکی بھرپورمددکریںگے اوراس معاشرہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی دیںگے۔انشاء اللہ۔

Irfana Malik

Irfana Malik

تحریر: عرفانہ ملک