یونان (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا بھر کے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے آج یونانی جزیرے لیسبوس میں پناہ گزینوں کے ایک مرکز کا دورہ کیا۔ اس دوران پاپائے روم نے پناہ گزینوں کو سیاسی پروپیگینڈا کے لیے نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی۔
پوپ فرانسس نے ماورونی نامی پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بسنے والے پناہ کے متلاشی افراد سے ملاقات کے بعد کہا کہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے خوف پھیلانا بہت آسان ہے۔ پوپ نے مہاجرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہاں ان کی آنکھوں میں دیکھنے آئے ہیں جو کہ خوف اور امید سے بھری ہیں۔
اس سے قبل پوپ فرانسس سن 2016 میں یونانی جزیرے پر موجود پناہ گزینوں سے ملاقات کے بعد بارہ مسلمان شامی مہاجرین کو پناہ فراہم کرنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ مہاجرین کی ایک بڑی تعداد لیسبوس جزیرے کو یورپی سرزمین تک پہنچنے کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
یونان کے اپنے دورے کے دوسرے دن، پوپ فرانسس نے دھاتی رکاوٹوں کے پیچھے کھڑے زیادہ تر پناہ کے متلاشی بچوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے ملاقات کی۔ وہاں موجود پوپ کے ایک مداح نے کہا “آئی لوو یو”۔
اس مرتبہ پوپ کا لیسبوس کا دورہ ان کے آخری دورے سے مختصر ہو گا۔ حکام نے بتایا کہ وہ آج ہی واپس ایتھنز جائیں گے تاکہ میگارون ایتھنز کنسرٹ ہال میں تقریباً 2,500 لوگوں کے اجتماع میں شرکت کر سکیں۔
ہفتے کے روز اپنے ایتھنز کے دورے کے آغاز میں، پوپ فرانسس نے کہا کہ یورپ مہاجرت کے حوالے سے ”یکجہتی کے انجن‘‘ کے طور پر کام کرنے کے بجائے ”قوم پرستانہ انا پرستی‘‘ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا ”آج نہ صرف یورپ میں بلکہ دنیا بھر میں ہم جمہوریت کی پسپائی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘
یونان میں پناہ گزینوں کی حالات زار یورپی یونین کی امداد سے یونان اپنے جزیروں پر خاردار تاروں کی باڑ، نگرانی کے کیمروں، ایکس رے اسکینرز اور رات کے وقت بند ہونے والے مقناطیسی دروازوں کے ساتھ مہاجرین کے لیے رہائشی سہولیات بنا رہا ہے۔ ایسے تین کیمپ ساموس، لیروس اور کوس کے جزیروں پر کھل چکے ہیں۔ اگلے سال لیسبوس اور خیوس میں بھی ایسے کیمپ تیار کر لیے جائیں گے۔ جب تارکین وطن کو پناہ گزین کا درجہ مل جاتا ہے تو وہ ان کیمپوں میں رہائش اختیار نہیں کر سکتے لیکن ان میں سے بہت سے مہاجرین نہ ملازمت تلاش کر پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے لیے رہائش گاہ۔ ناقدین کی رائے میں یونان کے ان مہاجر کیمپوں سے دراصل پناہ کے متلاشی افراد کی نقل و حرکت کو محدود کیا جا رہا ہے۔
یونان میں مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم چھتیس گروپوں نے پوپ فرانسس کو ایک خط میں ریفیوجی کیمپوں میں مقیم افراد کی حالات زار کے بارے میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ کئی افراد کو یونانی حکام ملک میں قدم رکھنے سے پہلے ہی زبردستی واپس بھیج دیتے ہیں۔ ایتھنز حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔