واشنگٹن (جیوڈیسک) ایسے میں جب پولنگ کے مایوس کن اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں اور خلا کو پُر کرنے میں تین سے کم ہفتے باقی رہ گئے ہیں، ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز سخت مقابلے والی دو ریاستوں میں انتخابی مہم جاری رکھی اور پُرامید دکھائی دیے۔
نارتھ کیرولینا میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، ری پبلیکن صدارتی امیدوار نے کہا کہ ’’میں ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ ہم جیتیں گے‘‘۔ کیرولینا سے وہ پنسلوانیا کی بدلتی ہوئی ریاست کی جانب روانہ ہوئے۔
ٹرمپ نے تین حالیہ عام جائزہ رپورٹوں کی جانب دھیان مرکوز کیا جن میں وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی مدِ مقابل امیدوار ہیلری کلنٹن سے آگے ہیں، جو جمعے کے روز اوہائیو کی سخت مقابلے والی ریاست میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔
تاہم، ایسے میں جب یہ دوڑ اپنے آخری مرحلے کی جانب بڑھ رہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ تاخیر سے کام کر رہے ہیں۔
متعدد معتبر جائزہ رپورٹوں کے مطابق، قومی سطح پر کلنٹن کو ٹرمپ پر 6 نقطوں کی شرح سے سبقت حاصل ہے۔ بدھ کے روز ہونے والے آخری مباحثے میں مضبوط کارکردگی دکھائی۔ اس ہفتے جاری ہونے والے اعداد کے مطابق، اُنھیں رقوم کی دستیابی کی بھی فوقیت حاصل ہے۔
مختلف ریاستوں کے انتخابی نقشے پر نظر ڈالی جائے تو کلنٹن کی اہم ترین سبقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ 538ویب سائٹ کے مطابق، پیش گوئی کی گئی ہے کہ کلنٹن 341 الیکٹورل ووٹ سے جیتیں گی، جب کہ ٹرمپ کو 196 الیکٹورل ووٹ ملیں گے۔
اس کا باعث ہمدردیاں تبدیل کرنے والی چند روایتی ریاستوں میں کلنٹن کو خاصی سبقت حاصل ہونا ہے، جن سے صدارتی انتخاب کا فیصلہ ہوتا ہے۔
عام برسوں کے دوران، یہ ریاستیں فلوریڈا، اوہائیو، پنسلوانیا، آئیوا، نیو ہیمپشائر اور چند دیگر ریاستیں رہی ہیں۔ تاہم، اس سال، ہمدردیاں تبدیل کرنے والی ریاستوں کی تعداد زیادہ نظر آتی ہے۔
تازہ ترین حالیہ عام جائزہ رپورٹوں میں جورجیا، اریزونا، یوٹا اور یہاں تک کہ ٹیکساس جیسی ریاستیں، جنھیں طویل مدت سے ری پبلیکن پارٹی کا گڑھ خیال کیا جاتا رہا ہے، وہاں بھی تبدیلی کی لہر معلوم ہوتی ہے۔
اس صورت حال کے پیشِ نظر، یہ سوال پیدا ہونے لگا ہے آیا ٹرمپ کے لیے صدارت کا عہدہ جیتنا ممکن ہے۔
ریڈ گیلن، سیاسی مشیر ہیں، جنھوں نے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی کامیاب انتخابی مہم چلائی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر وہ یوٹا سے نہیں جیت سکتے، تو وہ آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔