آبادی سے لے کر دہشت گردی تک

Terrorism

Terrorism

آج میرے دیس کی جڑوں کو کھوکھلا کردینے والے وہ کیا کیا ناسور ہیں جو نہ بڑھے ہیں …؟کوئی ایک چیز ہو تو بتاو ،آبادی سے لے کر مہنگائی، دہشت گردی، بھتہ خوری، کرپشن، بجلی و گیس کے بحرانوں سمیت قتل و غارت گری ہو یا اِن جیسا کوئی اور ناسور سب ہی کچھ تو ہے، جو میرے ملک میں ایسے بڑھ رہے ہیں کہ جیسے اِنہیں پر لگ گئے ہیں، اِن کی بڑھنے کی تیز رفتاری دیکھ کا ایسا لگتا ہے کہ جیسے بڑھنا اِن سب کی خصلت کا کوئی حصہ ہے، یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ آج اِنہیں کنٹرول کرنے والے ہمارے حکمران ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔

اِن کی زبانیں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے لئے تو خوب چل رہی ہیں مگر اِن کے دماغ سن ہیں اور اِن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں یا باندھ دیئے گئے ہیں، سب مصالحت پسندی اور مفاہمتی عمل کی گھٹی میں پڑے ٹن ہیں، تب ہی تو اِن ناسوروں کے آگے بندھ باندھنے، اِنہیں کنٹرول کرنے اور اِنہیں لگام دینے والا کوئی نہیں ہے۔ جبکہ یہ ٹھیک ہے کہ گیارہ مئی کے عام انتخابات کے بعد معرضِ وجود میں آنے والی نئی حکومت سے قوم کو امید پیداہو گئی تھی کہ شاید یہ کوئی اقدام یا اقدامات کرے مگر جیساکہ میں اوپر بیان کرچکاہوں کہ ہمارے حکمران تومصالحت پسندی اور مفاہمتی عمل کی رنگ ساز فیکٹری میں چڑہی کڑاہی میں غوطہ زن ہیں ،یوں یہ کبھی بھی اِن ناسوروں کے خاتمے کے لئے سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

اگرچہ آج اِس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جب سے میرے ملک میں وی سی آر آیا، اور اِسی طرح انفرادی و مجموعی اِنٹرنیٹ، اور نیٹ کیفے سمیت اور دیگر پڑوسی اور دوست ممالک کے کیبلز پر آنے والے ایسے ویسے کیسے…؟(یعنی مخرب اخلاق) ٹی وی چینلز اور ڈراموں کی بھرمار ہوئی ہے اور جب سے ہمارے یہاںکیمرے ،مووی اور اِنٹر نیٹ کی سہولت والے موبائل مونز کی وبادر آئی ہے، مختصرا یہ کہ اب اِن تفریحی آلات کی شکل میںاِس وباکا میرے ملک کے ہر سطح کے لوگوں (جن میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور کچھ شوقین قسم کے ادھیڑ اوربڑی عمر کے افراد بھی شامل ہیں ) کے دل و دماغ اور ہاتھوں سے چمٹنابھی میرے ملک میں شادیوں کا رجحان بڑھانے کی ایک بڑی وجہ ہے اور جب شادیاں بڑھی ہیں، تو پھر لامحالہ میرے دیس میں آبادی بھی بڑھی ہے اورجب آبادی بڑھی ہے تو دیگر مسائل میں بھی اضافہ ہواہے۔

مگریہاں ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ غیر فطری طور پر میرے ملک میں مہنگائی، فرقہ واریت، لسانیت ،دہشت گردی، کرپشن، بجلی و گیس کے بحرانوں سمیت بھتہ خوری ، ٹارگٹ کلنگ اور قتل وغارت گری کا بڑھنااپنے پیچھے کئی سوالیہ نشان چھوڑجاتاہے، ایسے میںافسوس کی بات تو یہ ہے کہ سوائے آبادی کے بڑھنے جیسے مسائل کافطری حل ڈھونڈہ نکالنا توذرا مشکل ہی لگتاہے، مگرغیرفطری طور پر بڑھنے والے دیگر ناسوروں کو تو کنٹرول کیا جا سکتا تھا، جوکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماراکوئی بھی حکمران ایسا نہیں کرسکاہے۔

Inflation

Inflation

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آج بھی اِس جانب ذراسی حکمت کے ساتھ توجہ دی جائے تو( اوپر بیان کردہ ) ناسوروں کے بروقت خاتمے کے لئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں، تاکہ ملک میں آئندہ اِنہیں پنپنے کا موقع نہ مل سکے مگر ماضی اور حال کے حکمرانوں کی بے حسی اور لاچارگی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے اِن سب نے یہ سمجھا کہ کسی کو کیاپڑی ہے کہ کوئی اِس جانب توجہ دے اور اپنا دماغ کھپائے اور دل جلائے، وہ سب یہ چاہتے تھے اور چاہ رہے ہیں کہ یہ سارے ناسور ایسے ہی رہیں اور اِن کا دال دلیہ چلتا رہے یوں ہمارے حکمرانوں کے بے حس رویوں اور روش کی وجہ سے ملک کے غریب لوگوں پر آئے روز مہنگائی کے جان لیوا بم گرائے جاتے رہے۔

آج بھی گرائے جارہے ہیں اور مستقبل میں بھی گرانے جانے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ ابھی ابھی ایک خبر یہ آئی ہے، کہ یکم اگست سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تین سے پانچ روپے فی لیٹر کا اضافہ ہونے کا امکان ہے، اور اِسی طرح دوسری خبر یہ بھی ہے کہ سالِ رواں کے اکتوبر کی پہلی تاریخ سے بجلی کے گھریلو اور کمرشل صارفین پر بھی مہنگائی کا ایک اور بم گرائے جانے کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے، جس میں بجلی کے گھریلو صارفین کو پانچ روپے فی یونٹ ملنی والی بجلی چودہ روپے اور کمرشل بجلی کے صارفین کو آٹھ روپے میں پڑنے والی بجلی 19روپے فی یونٹ ملنے کا امکان ہے۔

اِن اقدامات کے لئے ن لیگ کی حکومت نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ اگر ایسانہ کیا گیا تو قومی خزانے میں ایک ڈھیلا بھی باقی نہیں بچے گا، اور جب قومی خزانہ بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں سبسڈی ہی دیتا رہے گا تو خالی ہو جائے گا، ایسے میں اِن کی یہ سوچ ہے کہ جب یہ خالی ہو جائے گا،، تو پھر ہم کیا کریں گے..؟ تو ہم کیا تالیاں بجائیں گے..؟کیا ہم نے حکومت تالیاں بجانے کے لئے حاصل کی ہے…؟اگر ہمیں تالیاں بجانا ہی مقصود تھا، ہم اپنے ہزاروں گز کے بنگلوں میں بیٹھ کر نہیں بجا سکتے تھے..؟

تو پھر ہمیں کیا ضرورت پڑی تھی کہ ہم اپنی دولت الیکشن میں سٹے کے طور پر لگاتے …؟ارے بھئی عوام..! سمجھو ہماری اِس مجبوری کو ہم نے اپنی دولت لگائی ہی اِس مقصد کے لئے تھی کہ حکومت بنانے کے بعد اِسے دوگنا اور تِگنا کرنا ہمارا مقصد تھا، اگر خزانہ خالی رہے گا، تو ہم اپنا مقصد ہرگز ہرگز حاصل نہیں کر پائیں گے، قوم سمجھ لے کہ ہم تالیاں بجانے نہیںآئے ہیں… بلکہ ہم تو قوم کو کنگال کرکے اِسے مجبور کردیں گے کہ یہ اپنی بے حسی اور لاچارگی پر تالیاں بجائے، اور ہم شان وشوکت سے اِسے دیکھیں، کیوں کہ ہم تو کمانے اور قومی خزانے سے عیاشیاں کرنے کے لئے آئے ہیں، جیسے ہمارے پہلے والے کرکے گزرگئے، اور ہمارے بعد آنے والے مزے لیں گے، اور قومی خزانے پر پھن پھلائے ناگ کی طرح بیٹھ کر عیاشیاں کریں گے۔

Load Shedding

Load Shedding

سو آج اگر ہم نے یکم اگست سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے اور اِسی طرح ماہ اکتوبر سے گھریلو اور کمرشل بجلی کے صارفین کے لئے بتدریج اضافے کے صور پھونک کی تیاری کر رکھی ہے، تو یہ بلکل ٹھیک ہے، اِس حوالے سے ہم کسی کے دباو یا دھمکی میں نہیں آئیں گے، ہم نے ملک میں مہنگائی بڑھانے کے بابت جو دیگر اقدامات کرلئے ہیں ہم کسی بھی صورت میں اِسے واپس نہیں لیں گے، بھلے سی ملک کے غریب اپنا سر پھوڑیں یا سڑکوں پر نکل کر اپنی بے قیمت جانیں دیں، اِن کے اِس غم و غصے کے عمل سے ہمارا کچھ نہیں جائے گا، اور نہ کوئی غریب یا غریبوں کا ریوڑ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا، کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا ہر غریب حکمرانوں کو عیاشیاں مہیا کرنے کے لئے قومی خزانے کو بھرنے کے خاطر ٹیکسوں کی ادائیگی اور مہنگائی کے ہاتھوں مرنے کے لئے تو پیدا ہوا ہے۔

جبکہ آج یہ تو سب ہی جانتے ہیں اور اب یہ بھی کسی سے ڈھکاچھپا کچھ نہیں ہے کہ گزشتہ 66سالوں سے میرے ملک میں آبادی سے لے کر مہنگائی اور دہشت گردی تک کیا کیاہے جو نہ بڑھاہے..؟اگر اِس لمبے عرصے کے دوران جو شعبے نہ بڑھ سکے ہیں توان میں ہماری اخلاقی قدریں، ہماری حقیقی تہذیب وتمدن، تعلیم، صحت و عامہ ، تحقیقاتی اداروں کی تعداد، اورعوام کے بنیادی حقوق جیسے پینے کا صاف پانی۔

اچھی خوراک، بجلی و گیس کی بلاتعطل سپلائی ،بہترین اور پرآسائش سفری سہولیات، اوربلا رنگ و نسل انصاف کی فراہمی جیسے شعبوں کے نہ کے بڑھنے اور اِن کی ترقی کے رک جانے کا افسوس ہے، جبکہ ہمارے ہردور کے حکمرانوں کو اِن کے بڑھنے اور ترقی دیئے جانے سے متعلق اقدامات کرنے چاہئے تھے مگر افسوس ہے کہ انہوں نے اِن شعبوں کو تو پس پست ڈال دیا اور ملک میں دہشت گردی، اور اِس جیسے دیگر ناسوروں کو بڑھاکر گزر گئے، جو کہ لمحہ فکریہ ہے آج جن کا خمیازہ ساری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

تحریر: محمد سمعید اعظم
naa.asn@gmail.com