تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مثبت positive سوچنے والے لوگ کامیاب ہوتے ہیں. اس کے برعکس منفی سوچنے والے لوگ احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں. میرے پاس اکثر نوجوان قلم کاروں اور تخلیق کاروں کے فون اور میسجز آتے ہیں. انہیں شکایت ہوتی ہے کہ اساتذہ اور بڑے قلم کار و تخلیق کار ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے بلکہ کچھ تو حوصلہ شکنی ہی کرتے ہیں. ایسے نوجوان احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنی صلاحیت کو منوانے کے لیے غیر فطری ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں. مثلاً دوستوں سے اصرار کر کے خود پر مضمون لکھوانا، اخبارات و رسائل کے مدیران کی خوشامد کرنا، اپنی انفرادیت ثابت کرنے کے لیے متنازعہ موضوعات پر قلم اٹھانا وغیرہ. شروع میں یہ رویہ دھیرے دھیرے ارتقا پاتا ہے لیکن ایک وقت آنے کے بعد یہی رویہ شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے. کسی انگریز دانشور کا قول ہے Attitude makes habit, habit makes character and character makes a man. یعنی انسان کا رویہ اس کی عادت بن جاتی ہے، عادت سے کردار کی تشکیل ہوتی ہے اور کردار سے انسان کی شخصیت بنتی ہے.
منفی سوچ ہمارے اعتماد کو کبھی مضبوط نہیں ہونے دیتی اور اعتماد کی کمی کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن کر بیٹھ جاتی ہے. مشہور امریکی مصنف ڈیل کارنیگی نے اپنی کتاب The Little Recognized Secret of Success میں لکھا ہے ” علمی نفسیات کا مطالعہ میرا روزمرہ کا دستور ہے. مطالعے کے دوران مجھ پر ایک بڑی ہی دلچسپ حقیقت کا انکشاف ہوا. مجھے معلوم ہوا کہ ہماری ناکامی کا سبب صلاحیت یا ذہانت کی کمی نہیں بلکہ اس کا بڑا سبب اعتماد کی کمی ہوتا ہے اور اعتماد کی کمی مصنوعی خطرات کی اصل وجہ ہے. جب بہت سارے مصنوعی خطرات جمع ہو جاتے ہیں تو ہمیں اپنی شخصیت کا منفی عکس نظر آنے لگتا ہے. ”
منفی سوچ، مایوسی اور اعتماد کی کمی جیسے مہلک امراض کی دوائیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں. منفی سوچ مایوسی کو جنم دیتی ہے اور قرآن مایوسی کے بھنور سے باہر نکلنے کا نسخہ عطا کرتا ہے.
لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘‘(الزمر:53) انہ لا یایئس من روح اللہ الا القوم الکفرون ’’اللہ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی لوگ ہوتے ہیں‘‘ (سورہ یوسف:87)۔ خدا کی ذات پر یقین کامل ہمارے اعتماد کو کبھی ٹوٹنے نہیں دیتا. جب کبھی ہم مایوسی کا شکار ہوتے ہیں کوئی غیر مرئی طاقت ہمیں تھام لیتی ہے، حوصلہ دیتی ہے. ڈگمگاؤں جو حالات کے سامنے آئے تیرا تصور مجھے تھامنے بائبل کی ایک آیت ہے کہ اگر خدا ہمارے ساتھ ہے تو کون ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے (رومنس 8:31) قرآن و حدیث میں متعدد جگہ ہمیں مثبت فکر اور اچھا گمان رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے. ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالٰی کہتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے…. (بخاری)
صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے وصال سے تین روز قبل کہتے سنا کہ تم میں سے کوئی شخص دنیا سے اس حالت میں رخصت نہ ہو الاً یہ کہ وہ اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہو.
مثبت فکر رکھنے والے لوگ اعتماد و یقین سے بھرے ہوتے ہیں. وہ مخالف حالات کا بھی عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں. وہ اپنے مخالفین سے بھی خوش مزاجی سے پیش آتے ہیں. غیر ضروری تنقید کے بجائے وہ اپنا وقت تعمیری کاموں میں صرف کرتے ہیں.
دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کی زندگی کا مطالعہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ ان کی کامیابی کا ایک اہم راز ان کی مثبت سوچ اور مثبت رویہ تھا. لہذا ہم بھی اگر اپنی زندگی کو پرسکون اور کامیاب بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں مثبت رویہ اختیار کرنا چاہیے ورنہ منفی سوچ دیمک کی طرح ہماری تعمیری صلاحیتوں کو ختم کر کے ہی دم لے گی.