آلو کی فریاد

Potatoes

Potatoes

چند دنوں کی بات ہے اپنے ایک دوست کے ہاں جانا ہوا۔ دوست نے خوب خاطر تواضع کی، کھانے کا پوچھا تو میں نے فرمائش کر دی کہ آج سبزیوں کے (شوہر) کو کھانے کا من کر رہا ہے۔دوست حیران تھا کہ یہ کون سی سبزی ہے۔ سوال کن نظروں سے میری طرف دیکھا تو میں نے کہا !میرے بھائی آلو کا سالن مل جائے تو کیا بات ہے۔دوست مسکراتے ہوئے بیٹھک سے گھر چلا گیا۔ آلو جو سبزیوں میں سر فہرست ہے۔ جس طرح پھلوں میں آم کو بادشاہت کا درجہ حاصل ہے اسی طرح آلو کو بھی سبزیوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ جس طرح ہر گھر میں شوہر کی عزت کی جاتی ہے، آلو کی بھی یہی کہانی ہے،اسی لئے تو میں اسے سبزیوں کا شوہر کہتا ہوں۔ عورت کا شوہر جس طرح آفس سے بوس کی ڈانٹ ڈپٹ کھا کر گھر پہنچتا ہے تو بیوی کے تیور بدلے ہوتے ہیں۔ بیچارے آلو کی بھی یہی حالت ہے۔ آج کل تو یہ امیروں کے گھروں یا تاجروں کے ہاں ملتا ہے۔ آلو کو سبزیوں کا سرتاج کہا جاتا ہے۔

دوست کھانا لینے گیا ہوا تھا اور میں سوچوں کی نگر میں سیر کر رہا تھا۔ میری ملاقات ایک آلو سے ہوئی۔ جو غصے سے لا ل پیلا ہو رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری اور فریاد کرنے لگا۔کیسا وقت آگیا ہے۔ انسان ہی انسان کو کاٹ رہا ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کا پیٹ کاٹ رہا ہے۔ اپنے بچوں کوپالنے کے لئے دوسروں کے بچوں کوموت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ یہ دن دیکھنے سے پہلے مجھے موت کیوں نہیں آئی۔ارے آلو بھائی !آخر ہوا کیا ہے؟۔یہ پوچھو کیا نہیں ہوا۔

آج غریب کے بچے مجھے دیکھنے کو ترس رہے ہیںاور امیروں کے گھر میں عزت نہیں ہے،ان کے گھر قید ی کی زندگی گزار رہا ہوں۔تاجر حضرات، بلیک مافیا مجھے جمع کئے ہوئے ہیں۔ دیکھو تو میری رنگت کتنی بدل گئی ہے۔ وہ وقت کتنا سہانا تھا جب غریب ہاری کھتیوں میں مجھے پانی پلایا کرتے تھے۔ میں زمین کے اندر کتنا خوش تھا۔ خوشی و مسرت سے میری بیلیں لہلہاتی، جھومتی تھیں۔بہارکا سماں ہوتا تھا۔ غریب ہاریوں کی محنت سے پل کر جوان ہو گیا۔ مجھے ان کا قرض چکانا تھا۔ اس وقت میں کتنا تندرست و توانا تھا۔ میرا ذائقہ بھی نمکین تھا۔

مگر اب تو سب بدل گیا ہے، سب کچھ خاک میں مل گیا ہے۔ اب نہ وہ ذائقہ رہا۔ نہ وہ خوشی رہی۔ میری بیلیں سوکھ گئیں۔ کھیت سے منڈی کیا آیا۔ تاجروں نے مجھے اسٹور کر لیا۔ جس سے میں کمزور ہو گیا۔ تما م وٹامنزمر گئے۔ اب تو کھوکھلا سا ہوگیا ہوں۔ ہائے کاش! میں پاکستانی آلو نہ ہوتا۔

آپ کو بتاتا چلوں۔ میری نسل پوری دُنیا میں پائی جاتی ہے۔ مگر میں پاکستانی آلو ہونے کے ناطے غم زدہ ہوں۔درد و غم میں ڈوبا ہوا۔ صحت سے گیا گزرا، غریب کے بچوں کی دسترس سے میلوں دور اور امیروں کے کچن کی زنیت بنا ہوا ہوں۔ دوسروں ملکوں میں میری نسل کے آلو بہت خوش ہیں۔وہاں تضاد نہیں ہے۔ امیری غریبی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں میرا بھائو آسمان سے باتیں نہیں کرتا۔ ہر کسی کی دسترس میں باآسانی آجاتا ہوں۔ لیکن یہاں کا نظام دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہوں۔کیسا ملک ہے ۔؟ یہاں منافع خوری عام ہے۔ دوسروں کا خون چوس کر اپنی رگوں میں خون پیدا کیا جاتا ہے۔ یہاں قانون صرف اور صرف کاغذوں کی بڑی بڑی فائلوں تک محدود ہے۔ یہاں امیروں کو سروں پر اٹھایا جاتا ہے اور غریبوں کو دھتکارہ جاتا ہے۔ یہاں انسان کی کوئی قدرومنزلت نہیں ہے۔

Terrorism

Terrorism

دہشت گردی کی جنگ میں ساتھ دینے والا ملک خود دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ایک طرف دہشت گردوں نے اس ملک کا چین برباد کیا ہوا ہے تو دوسری طرف مہنگائی نے غریبوں کا جینا محال کیا ہوا ہے۔ ان کے بچے بھوک وافلاس سے مر رہے ہیں۔ کوئی مینرل واٹر پی رہا ہے تو کوئی گندے پانی کو ترس رہا ہے۔ کوئی بڑی بڑی گاڑیوں میں سرکاری خرچوں پر گھوم رہا تو کوئی ان گاڑیوں کی زد میں آ کر جان کی بازی ہار رہا ہے۔ افسوس ہے مجھے اپنے آپ پر،اس ملک کی عوام پر، اس ملک کے باسیوں پر، اس ملک کی قسمت پر۔ ارے آلو بھائی! امیروں کے گھروں میں رہتے ہو۔ ان کی ہر ڈش میں بطور خاص ہوتے ہو۔ کبھی قورمے میں، کبھی گوشت میں، کبھی بریانی میں تو کبھی کوفتوں میں۔ کبھی گوبھی آلو،کبھی بینگن آلو،تو کبھی آلو والی روٹی کے نام سے شہر ت پاتے ہو۔آپ کوتو خوش ہونا چاہے تھا۔ بیچارہ آلو ٹھنڈی آہ کے ساتھ پھر سے گویا ہوا۔اے ابن آدم!میں تمھاری نسل سے نہیں ہوں۔جو اپنی خوشی کے لئے دوسروں کی خوشیاں لوٹ لیتے ہیں۔اپنی شہرت کے لئے دوسروں کا گلا کاٹ دیتے ہیں۔مجھے افسوس رہے گا کہ رب تعالی نے آپ کے لئے کیوں بنا یا تھا۔

مجھے ان غریبوں کے آنسو نہیں دیکھے جاتے، جو مجھے نہ پاکر غم دیدہ ہیں۔آپ کے ملک میں سبزیوں میں واحد میں ہی تھا۔ جو ہر گھر میں آسانی سے دستیاب تھا۔ غریبوں کے بچے مجھے انگاروں پر (بھون) کر شوق سے کھاتے تھے۔ میں آگ میں جل کربھی خوش تھا۔کیوں کہ میں بھوکوں کا پیٹ بھرنے کا سبب بن رہا تھا۔ مگر آج غریب کے بچے میری شکل کو ترس رہے ہیں۔

آج میں سبزیوں کا سر تاج ہو کر بھی ذلیل و خوار ہوں، میں اپنے آپ کو کیسے معاف کر پائوں گا۔ آج میں امیروں کی ہر ڈش کے لئے اہم جز سمجھا جاتا ہوں۔بڑے بڑے ہوٹلوں میں پکایا جاتا ہوں۔ اعلی لوگوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے۔لیکن جب یہی بڑے بڑے لوگ مجھے پلیٹوں میں دو نوالے لے کر چھوڑ جاتے ہیںاو رویٹر مجھے اٹھا کر (کوڑا کرکٹ)کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ میرے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہوتا ہے۔ تب میں پچھتاتا ہوں، کاش! میں غریبوں کے ہاں ہوتا۔ کم ازکم اس طرح بے آبروتو نہ ہوتا۔آج مجھے عزت، شہر ت مل گئی ہے۔ مگر مجھے ایسی شہر ت، ایسی عزت نہیں چاہی۔ جو غریبوں کو رولاکر حاصل ہو۔جن کی محنت سے مجھے یہ مقام ملا ہے۔ان کے خون پسینے سے ہی امیروں کی دسترس میں پہنچا ہوں۔

مہنگائی کے سیلاب میں تاجروں نے مجھے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا۔ مجھے صرف اور صرف امیروں کی دسترس تک محدود کر دیا۔ایک وقت تھا میری قیمت پندرہ ،بیس روپے کلو تھی مگر آج میری قیمتیں آسمان کی بلندیوں کو چھورہی ہیں۔ ساٹھ، سترروپے کلو میں بیچارہ غریب کہاں خرید سکتا ہے۔ اب جب غریبوں کے بچوں کو کھیتوں میں کٹے، پھٹے آلو چننے کیلئے قطاروں میں دیکھتا ہوں تو مرنے کو جی چاہتا ہے۔ جیسے چیل اپنے شکار کے لئے جھپٹ رہی ہو۔ کتنا سہانا وقت تھا، جب میری فصل کا اختتام ہوتا تھا۔زمیندار کھیتوں میں ہل چلاتے تھے تو زمین نے اندر رہ جانے والے میرے ہم عمر آلو اوپر آ جاتے تھے۔اس وقت یہی غریب کے بچے ہوتے تھے جو مجھے اٹھا کر، نہلا دھولا کر اپنے گھروں میں لے آتے تھے۔ مجھے عزت دیتے تھے۔ مجھے وہ عزت پیاری تھی۔اب وہ زمانہ جیسے (کوے)لے گئے ہوں۔

میں ایسی شہر ت کا کیا کروں گا۔ مجھے ایسی عزت نہیں چاہے۔ مجھے غریبوں کے پاس جانا ہے۔ان کے بچے بھوک و افلاس سے مر رہے ہیں۔ان کے بچے تڑپ رہے ہیں۔ ایک میں ہی تھا جو ستا تھا۔غریبوں کے بچوں کے پالنے کا سبب تھا۔ہر سبزی کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے ۔کم از کم مجھے تو معاف کر دو۔ مجھے تو ستا رہنے دو۔ گلنے سڑنے سے بہتر ہے میں کسی کے کام آ سکوں۔ آپ میری مدد کر دو۔

بیچارہ آلو التجائیں کرنے لگا۔آلو بھائی! غمزدہ نہ ہوں۔ اب خوش ہو جائو۔ میں آپ کی فریاد ارباب اختیار تک ضرور پہنچائوں گا۔صاحب اقتدار، ایوانوں میں ٹھنڈی ہوائوں میں بیٹھنے والے آپ کی ضرور داد رسی کریں گے۔ یہ بات سچ ہے چند مفاد پرست لوگ مہنگائی کوطول دے رہے ہیں۔ آپ کو یرغمال کیا ہے۔ کاغذی نوٹوں کی چاہ میں، اپنی تجوریاں بھرنے کے غرض میں آپ کو رولایا ہے۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوںان کا احتساب ضرور ہو گا۔ ان کو سزا دلوا کر سانس لوں گا۔ آپ کی فریاد اس ملک کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ جو خادم اعلی سے جانے جاتے ہیں تک پہنچائوں گا۔ وہ آپ کی فریاد سن رہے ہیں۔ ان کو مصروفیات بہت ہیں بس چند دنوں میں آپ غریبوں کی دسترس میں ہوں گے(انشااللہ)۔ اب تو خوش ہو جائو۔ اب تو مسکرا تو میری بات کا یقین کرکے آلو صاحب مسکرانے لگے۔میرے لبوں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی۔اتنے میں میرا دوست کھانا لے آیا میں کھانا کھاتا ہوں۔ آپ میں سے جس نے بھی آلو کی فریاد سنی ہے خداراہ ارباب اختیار تک ضرور بہ ضرور پہنچانا۔تاکہ آلو صاحب کو سکون و آرام مل سکے اور میرا بھرم رہ جائے۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجید احمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com